صحابہ کرام

حضرت سیدنا امام حسینؓ بن علیؓ

Hazrat Imam Husayn ibn Ali bin Talib

ابتدائی تعارف
حضرت حسینؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے دوسرے صاحبزادے ہیں ۔ آپؓ سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسنؓ کی طرح بے انتہا محبت تھی ۔ آپ صلى الله عليه وسلم ان کو کبھی گود میں اٹھاتے کبھی کندھے پر بٹھاتے کبھی ہونٹوں پر بوسہ دیتے کبھی چومتے ۔

ولادت
حضرت حسینؓ کی ولادت حضرت حسنؓ سے گیارہ ماہ بعد ۳ شعبان ۴ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی ولادت کی خبر سن کر آنحضرت ہے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے ۔ کان میں اذان دی پھر حضرت فاطمہؓ کو عقیقہ کرنے اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کرنے کی تلقین فرمائی۔

کنیت والقاب
کنیت ابوعبداللہ اور القاب میں سید شبیر ، سبط، اصغر اور ریحانة النبی مشہور ہیں ۔

اولاد
سیدنا حضرت حسینؓ نے مختلف اوقات میں مختلف شادیاں کی جن سے متعدد اولاد ہوئیں ۔ اولاد نرینہ میں سے صرف ایک حضرت علی بن الحسینؓ جو زین العابدین کے لقب سے مشہور ہیں، باقی بچے اور انھی سے اولاد چلی ۔ ایک نوجوان فرزند علی اکبر اور ایک شیر خوار صاحبزادے علی اصغر واقعہ کربلا میں شہید ہو گئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ ایک فرزند عبداللہ بن حسینؓ نے بھی کربلا میں شہادت پائی۔ صاحبزادیوں کی تعداد اکثر اہل سیر  نے تین بتائی ہے سکینہ، فاطمہؓ اور زینب۔

آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
سيد شباب اهل الجنة الحسنؓ والحسين
ترجمہ: جنت والوں کے سردار حسنؓ اور حسینؓ ہیں ۔ (مشکوۃ)

حسینؓ منی وانا من الحسين احب الله من احب حسينا ، حسين سبط من الاسباط
ترجمہ: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے جو حسینؓ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے حسینؓ میری اولاد کی اولاد ہے ۔ (ترمذی)

ريحان الدنيا والاخرة الحسنؓ والحسين
ترجمہ: دنیا و آخرت کے پھول حسنؓ و حسینؓ ہیں۔ (ریاض النصرة)

حضرت حسینؓ عہد خلفاء ثلاثہ میں
عہد صدیقی
حضرت ابو بکرصدیقؓ حضرت حسینؓ کی بے حد عزت کیا کرتے تھے۔ حضرت حسینؓ جب بچپن میں پہلی دفعہ حضرت ابو بکرؓ کے سامنے لائے گئے تو آپؓ نے فرمایا: ابنا لعلی شبها لنبی بیٹا علی کا ہے مشابہ نبی صلى الله عليه وسلم کے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب خلیفہ بنے تو حیرہ کی فتح کے بعد جو خالد بن ولیدؓ کے ہاتھوں فتح ہوا تھا، مال غنیمت میں سے ایک بیش قیمت چادر حضرت حسینؓ کو ہدیہ میں بھیجی تو آپ نے اسے بخوشی قبول فرمایا۔ (فتوح البلدان ص ۲۵۴ بلاذری)


عہد فاروقی
حضرت عمرؓ  نے حضرت حسینؓ اور حضرت حسنؓ کیلئے ۵، ۵ ہزار درہم وظیفہ ان کے باپ اور بدری صحابہ کیلئے مقرر کیا (شرح معانی الاثار طحاوی ص ۱۸۱ ج ۲)

حضرت عمرؓ نے فتوحات مدائن کےمال غنیمت میں ایک لڑکی شاہ جہاں کو جو بعد میں شہر بانو کہلائی ، حضرت حسینؓ کو عطیہ میں دی اوراسی سے بعد میں زین العابدین پیدا ہوئے
(شیعہ کتاب ناسخ التواریخ ج ۱۰ ص ۳)

اسلامی فتوحات میں ایک مرتبہ کپڑا آیا۔ اس میں حضرت حسنینؓ کے موافق کوئی پوشاک نہ ملی تو آپ نے خصوصی طور پر علاقہ یمن کی طرف آدمی روانہ کیا، وہاں سے مناسب لباس آیا تو حضرت حسینؓ نے اسے زیب تن کیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اب میری طبعیت خوش ہوئی۔
(کنز العمال ص ۱۰۶ ج ۷، البدایہ ص ۲۰۷ ج ۸)

عهد ذوالنورین
خاندان بنی ہاشم کے حضرت عثمانؓ کے ساتھ متعدد رشتے ہوئے ۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت حسینؓ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کا نکاح سیدنا عثمان بن عفانؓ کے پوتے عبداللہ بن عمروؓ بن عثمانؓ کے ساتھ ہوا (طبقات ج 2 ص ۳۴۷)
سیدناحسینؓ کی صاحبزادی حضرت سکینہ بنت حسینؓ ، حضرت عثمانؓ کے پوتے زید بن عمرو بن عثمانؓ کے نکاح میں تھیں ۔


حضرت حسینؓ کے چند خطبات کے اہم اقتباسات بزبان شیعہ کتب
اے شیث بن ربیع، اے احجاز بن الحجز، اے قیس، اے زید بن الحرث، ! کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک گئے زمین سرسبز ہوگئی نہریں ابل پڑیں اگرآپ ہمارے پاس آئیں گے تواپنی فوج جرار کے پاس آئینگے.. جلد آئے
(خلاصة المصائب ص ۱۴۸)

تم پر اور تمہارے ارادے پر لعنت ہو … اے بیوفایان جفا کار غدارو! تم پروائے ہو تم  نے ہنگامہ اضطراب برپا کیا اور میں جب تمہارا کہنا مان کرتمہاری نصرت اور ہدایت کیلئے آیا تو تم  نے شمشیر کینہ مجھ پر کینچی، اپنے دشمنوں کی تم  نے یاوری اور مددگاری کی اور اپنے دوستوں سے دستبردار ہوئے ۔
(جلاء العیون ص ۱۸۲ ج ۲ مطبوعہ لاہور)

حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی خبر آپؓ نے سنی تو بے ساختہ فرمایا
قد خذلنا شيعنا
ترجمہ: ہمارے شیعوں نے ہم کو ذلیل کر دیا ۔ (از خلاصہ المصائب ص ۴۹)

شہادت کے روز دسویں محرم کا مشہور خطبہ
افسوس ہو تم پر اے کوفہ! کیا تم بھول گئے اپنے خطوں کو اور وہ وعدے جو تم  نے کئے تھے اور خدا تعالیٰ کو ان پر گواہ ٹھرایا تھا۔ افسوس ہو تم نےلکھا تھا کہ اہل بیت آئیں ہم ان کی مدد اور پیروی میں جانیں تک فدا کر دیں گے۔ پھر جب ہم آئے تو پھر ہم کو ابن زیاد کے حوالے کر رہے ہو۔ اور ان پر دریائے فرات کا پانی بند کرتے ہو واقعی تم اپنے نبی کے بڑے خلاف ہو کہ ان کی اولاد کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہو، خدا تعالیٰ تم کو قیامت کے دن سیراب نہ کرے یعنی پانی نہ دے۔
(ذبح عظیم بحوالہ ناسخ التواریخ ص ۳۳۵)

واقعہ کربلا
معرکہ کربلا کے شرکاء
۴۰ پیاده ۳۲ سوار، ۲۱ افراد اہل بیتؓ عمر و بن خالد، عبدالرحمن بن عروه، وقاص بن مالک، کنانہ بن عقیق، قیس بن ربیع، عمار بن ابی الاسلام، سعود بن حجاج، زهیر بن حسان عبد اللہ بن عمرو، وہب بن عبد مسلم بن عولجہ شبیر بن عمرو، محمد بن حنظلہ ، قاسم بن حبیب، یزید مثبت، حبیب بن مطاہر ۔

مختصر واقعہ کربلا
حضرت امیر معاویہ ؓ کے انتقال پر جب یزید مسند اقتدار پر متمکن ہوا تو حسینؓ  نے نیک نیتی اور دیانتداری سے بیعت سے انکار کیا۔ اسی اثناء میں شیعان کوفہ میں سے سلیمان بن خزاعی نے کوفہ کی میٹنگ میں کہا کہ تم ان کے اور ان کے بزرگوار کے شیعہ ہو، اگر تم ان کی بیعت کر سکو تو ان کو عریضہ لکھ کر بلوالو ۔ پھر ایک عریضہ حضرت حسینؓ کی خدمت میں لکھا۔
(جلاء العیون ص ۱۳۸ )

یہاں تک کہ ۶۰۰ خطوط حضرت حسینؓ کے پاس پہنچے اور متعدد قاصد حضرت کے پاس جمع ہو گئے اور آخر تک بارہ ہزار خطوط کوفہ سے یہاں تک پہنچے۔ ان خطوط کے جواب میں حضرت حسینؓ  نے اہل کوفہ کو جواب لکھا: میں تمہارے پاس مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں، اگر مسلم مجھے لکھیں تو بہت جلد اہل توتمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔

جب حضرت حسینؓ کے چا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کو فہ پہنچے تو اٹھارہ ہزار کوفی شیعوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر اچانک دوسرے روز ہزاروں آدمیوں نے منہ پھیر لیا اورشام تک صرف تیس اور پھر دس آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے ۔
(جلاء العیون ص ۱۴۳ ۱۶۴ ج ۲)

چند دنوں کے بعد حضرت حسینؓ کو یہ خبر پہنچی کہ مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ، عبداللہ بن یقطر کو شہید کر دیا گیا ہے تو آپ نے افسردگی میں فرمایا
ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ (جلاء العیون صص ۱۶۴ ج ۲)

امام زین العابدین سے منقول ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے حضرت حسینؓ کو باصرار کہا کہ اہل کوفہ بیوفا ہیں، ان کے پاس نہ جائیں، مگر آپ نے جانے کا ارادہ ترک نہ فرمایا۔ حضرت حسینؓ جب کوفہ پہنچے تو تیس ہزارعراقیوں نے آپ کے ہاتھ پربیعت کی لیکن دوسرے روز ہی بیعت کرنے والوں نے حضرت حسینؓ پر تلوار کھینچی اور ہنوز بیعت ان کی گردنوں میں تھی کہ انھوں نے حضرت حسینؓ کو دمشق جانے والے راستے کربلا کے مقام پر دس محرم کو نہایت بے دردی اور مظلومیت کے ساتھ ذبح کردیا اوراسلامی تاریخ کےاوراق پر یہ عظیم سانحہ ثبت ہو گیا۔

قاتلان حسینؓ کی شناخت
معرکہ کربلا کے مشہورشہداء میں جو خاندان نبوت صلى الله عليه وسلم کے دیگر افراد اس معرکے کے مرکزی افراد تھے ان میں سیدنا حسینؓ کے خطبات کے چند اقتباسات آپ نے اوپر ملاحظہ کئے، ذیل میں دیگر مدعیان کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں۔ اگر ناظرین بغور ان کا مطالعہ کریں گے تو واضح طور پر قاتلین کی شناخت ہو جائے گی ۔

حضرت زین العابدین کا بیان
هیهات هیهات اے غدارو! ، مکارو تمہاری مرادیں پوری نہ ہوں ، کیا تم چاہتے ہو کہ مجھے بھی فریب دو جیسے تم نے میرے باپ دادا کو اس سے قبل فریب دیا ۔
(احتجاج طبری ص ۱۸۴)

حضرت زینب بنت علی کا بیان
جب کربلا سے روانہ ہو کر اسیران اہل بیت حسینؓ کوفہ میں داخل ہوئے تو کوفہ کی عورتوں اور مردوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ حضرت حسینؓ کی ہمشیرہ حضرت زینب نے رونے پیٹنے والوں کو مخاطب کر کے فرمایا

اے اہل کوفہ کس وجہ سے تم روتے ہو؟ جب رسول خدا تم تم سے پوچھیں گے کہ تم نے میری اولا د اور اہل بیت کے ساتھ کیا سلوک کیا تم ہم پر یہ گریہ ونالہ کرتے ہو، حالانکہ تم نے خود ہی ہم کو قتل کیا ہے ۔ (جلاء العیون ص ۵۰۳)

حضرت فاطمہ بنت حسینؓ کا بیان
اے اہل کوفہ تم نے ہم کو قتل کرنا حلال جانا، ہمارے مال کو لوٹا تمہاری تلواروں سے اہل بیت کا خون ٹپک رہا ہے۔
(احتجاج طبری ص ۱۵۷)

حضرت ام کلثومؓ بنت علیؓ کا بیان
جب کوفی عورتیں اہل بیت پر رونے لگیں توام کلثوم نے محمل سی آواز دی، اے زنان کو فہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا پھر … پر تم کیوں روتی ہو؟
(جلاء العیون ص ۵۰۷ )

معرکہ کربلا میں شہید ہونے والے خاندان نبوت کے افراد
سعد غلام علیؓ، قنبرغلام حسینؓ،عبداللہ بن عقیلؓ، عبدالرحمن بن عقیلؓ، عبداللہ بن مسلم، محمد بن عبداللهؓ عون بن عبداللہؓ، ابوبکربن حسینؓ عثمان بن حسنؓ، عمر بن حسنؓ، عبداللہ بن حسنؓ، محمد بن علیؓ ، عثمان بن علیؓ، علی اکبر بن حسینؓ، علی اصغر بن حسینؓ، عبد اللہ بن علیؓ، جعفر بن علیؓ، محمد بن سعد ۔

حضرت حسینؓ کے صفات و کمالات
سیدنا حضرت حسینؓ نے خانوادہ نبوی میں پرورش پائی تھی۔ اس لئے معدن فضل و کمال بن گئے تھے۔ چونکہ عہد رسالت میں کم سن تھے اس لئے جناب رسالت مآب صلى الله عليه وسلم سے براہ راست سنی ہوئی مروایات کی تعداد صرف آٹھ ہے۔ البتہ بالواسطہ روایات کی تعداد کافی ہے۔ حضورصلى الله عليه وسلم کے علاوہ انہوں نے جن بزرگان سے احادیث روایت کی ہیں ان میں حضرت علیؓ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت فاطمہؓ ، حضرت ہندؓ بن ابی ہالہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ان کے رواۃ میں برادر بزرگ حضرت حسنؓ، صاحبزادے حضرت زین العابدینؓ، صا حبزادیاں حضرت سکینہ، حضرت فاطمہؓ اور پوتے حضرت محمد باقر، شعمی ، عکرمہ ، سنان بن ابی سنان، عبداللہ بن عمرو بن ابی عثمانؓ ، فرزدق شاعر وغیرہ شامل ہیں۔

تمام ارباب سیر نے سیدنا حضرت حسینؓ کے فضل وکمال کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بڑے فاضل تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ قضاء وافتاء میں بہت بلند مقام رکھتے تھے، سید نا حضرت حسینؓ نے ان کےآغوش تربیت میں پرورش پائی تھی۔ اس لئے وہ مسند افتاء پر فائز ہو گئے تھے اور ا کابرمدینہ مشکل مسائل میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے ان سے پوچھا کہ قیدی کو رہا کرانے کا فرض کس پر عائد ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں پر جن کی حمایت میں وہ لڑا۔ ایک اور موقع پر ابن زبیرؓ نے ان سے استفتاء کیا کہ شیر خوار بچے کا وظیفہ کب واجب ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا پیدائش کے فورا بعد جب بچے کے منہ سے آواز نکلتی ہے، اس کا وظیفہ واجب ہو جاتا ہے۔

سیدنا حضرت حسینؓ دینی علوم کے علاوہ اس عہد کےعرب کے مروجہ علوم میں بھی پوری دسترس رکھتے تھے۔ ان کے تبحرعلمی، علم و حکمت، فصاحت و بلاغت کا اندازہ ان کے خطبات سے کیا جا سکتا ہے جن سے کچھ آج بھی کتب سیر میں محفوظ ہیں۔

فضائل اخلاق کے اعتبار سے سید نا حضرت حسینؓ پیکر محاسن تھے۔ عبادت وریاضت ان کا معمول تھا۔ قائم اللیل اوردائم الصوئم تھے۔ فرض نمازوں کے علاوہ بکثرت نوافل پڑھتے تھے۔ ان کے فرزند حضرت علی زین العابدین کا بیان ہے کہ وہ شب و روز میں ایک ایک ہزار نمازیں (نوافل) پڑھ ڈالتے تھے۔ روزے بکثرت رکھتے تھے اور سادہ غذا سے افطار فرماتے تھے۔ رمضان المبارک میں کم سے کم ایک مرتبہ قرآن پاک ضرورختم کرتے تھے۔ حج بھی بکثرت کرتے تھے اور وہ بھی بالعموم پا پیادہ ۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے پچھیں حج پا پیادہ ادا کئے ۔
(تہذیب الاسماء امام نووی)

ذریعہ معاش
سیدنا حضرت حسینؓ حیثیت سے انتہائی آسودہ حال تھے ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد خلافت میں ۵ ہزار وظیفہ ماہانہ مقرر فرمایا تھا جو انہیں عثمان ذوالنورینؓ کے زمانے تک برابر ملتا رہتا۔ سیدنا حضرت حسنؓ نے خلافت سے دستبردای کے وقت حضرت امیر معاویہؓ سے ان کیلئے دولاکھ سالانہ مقرر کرا دیئے تھے۔ اس مرفہ الحالی کے باوجود ان کی زندگی ہر فقر وزہد کا اثر نمایاں تھا۔ اپنا مال کثرت سے راہ خدا میں لٹاتے رہتے تھے ، کوئی سائل ان کے در سے خالی ہاتھ نہ لوٹا تھا۔ بعض مرتبہ غرباء کے گھروں پر خود کھانا پہنچاتے تھے۔ اگر کسی قرض دار کی سقیم حالت کا پتہ چلتا تو خود اس کا قرضہ ادا کر دیتے تھے۔ 

سخاوت اور دریا دلی
ایک دفعہ نماز میں مشغول تھے کہ گلی میں ایک سائل کی آواز کانوں میں پڑی، جلدی جلدی نماز ختم کر کے باہر نکلے۔ صدا دینے والے سائل کی خستہ حالی دیکھی تواپنے خادم قنبرکو آوازدی، وہ حاضر ہوئے تو پوچھا ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ قنبر نے جواب دیا کہ آپ نے دوسو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کیلئے دیئے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں کئے گئے۔ فرمایا کہ یہ ساری رقم لے آؤ، اہل بیت سے زیادہ ایک مستحق آ گیا ہے۔ قنبر نے دوسو درہم لا کر پیش کئے تو سب کے سب سائل کو دے دیئے اور ساتھ ہی معذرت کی کہ اس وقت میرا ہاتھ خالی ہے، اس سے زیادہ خدمت نہیں کرسکا۔
صدقات و خیرات کے علاوہ اہل علم اور شعراء کی سرپرستی بھی کرتے تھے اوران کو انعام کے طور پر بڑی بڑی رقموں سے نوازا کرتے تھے۔ سیدنا حضرت حسینؓ کی مجالس وقار اور متانت کی مرقع ہوتی تھیں۔ لوگ ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے اور ان کے سامنے ایسے سکون اور خاموشی کے ساتھ بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ وقار اور متانت اور بلندی مرتبت کے باوجودسیدنا حسینؓ تمکنت اور خود پسندی سے کوسوں دور تھے اور بے حد حلیم الطبع اور منکسر مزاج تھے اور نہایت کم حیثیت لوگوں سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔

ایک مرتبہ کسی طرف جا رہے تھے راستے میں کچھ فقراء کھانا کھا رہے تھے، انہوں نے حضرت حسینؓ کو دیکھ کر اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ آپ سواری سے اتر پڑے اور فرمایا

ان الله لا يحب المتكبرين. ترجمہ: بے شک اللہ تعالی تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔

پھر ان کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھایا۔ فارغ ہوئے تو ان سب کو دعوت پر بلایا۔ جب وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے گھر والوں کو فرمایا جو کچھ ذخیرہ ہے سب کچھ بچھا دو۔


حضرت حسینؓ کے اقوال ذریں
ارباب سیر نے سیدنا حضرت حسینؓ کے بہت سے کلمات طیبات نقل کئے ہیں ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں

  • جلد بازی نادانی ہے۔
  • حلم زینت ہے۔
  • صلہ رحمی نعمت ہے۔
  • راست بازی عزت ہے۔
  • جھوٹ بجز ہے۔
  • بخل افلاس ہے۔
  • سخاوت دولتمندی ہے۔
  • نرمی عقل مندی ہے۔
  • راز داری امانت ہے۔
  • حسن خلق عبادت ہے۔
  • عمل تجربہ ہے۔ امداد دوستی ہے۔
  • اچھے کام کرتے رہو مگر دل سے ۔
  • ایسا کام جو تم نے نہیں کیا اس کا شمار نہ کرو۔
  • حاجت مند نے تم سے سوال کر کے اپنی آبرو کا خیال نہ رکھا تو تم اس کی حاجت روائی کر کے اپنے آبروقائم رکھو۔
  • جو اپنے بھائی کی دنیاوی مصیبت میں کام آیا تو اللہ اس کی آخرت کی مصیبت دور کرتا ہے۔
  • سب سے زیادہ معافی دینے والا وہ ہے جو بدلہ لینے کی قدرت رکھتا ہو اور پھر بدلہ نہ لے۔
  • اپنی زیادہ تعریف کرنا ہلاکت کا باعث ہے۔
  • عطا کے ذریعے نیک نامی حاصل کرو۔
  • گمراہی سے شہرت پیدا نہ کرو۔
  • جو سخاوت کرتا ہے سردار بنتا ہے، جو کنجوسی کرتا ہے ذلیل ہوتا ہے۔
  • سب سے زیادہ سخی وہ ہے جو ایسے لوگوں کو بھی دیتا ہے جن سے ملنے کی امید نہ تھی۔
  • جو کسی پر احسان کرتا ہے تو خدا اس پر احسان کرتا ہے۔ اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست بنالیتا ہے۔
  • سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہے جو ایسے شخص سے صلہ رحمی کرے جس نے اس کے ساتھ صلہ رحمی نہ کی ہو۔
  • اگر کسی کے ساتھ نیک سلوک کیا اور دوسرا اس کے ساتھ ایسا نہ کر سکا تو اللہ اس کا نیک بدلہ دیتا ہے۔

مورخ یعقوبی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت حسینؓ نے حضرت حسن بصری سے چند اخلاقی باتیں کیں ۔ وہ انہیں سن کر بہت حیران ہوئے ۔ سیدنا حضرت حسینؓ سے جان پہچان نہیں تھی۔ جب وہ چلے گئے تو لوگوں سے پوچھا یہ کون تھے؟ جواب ملا حسینؓ بن علیؓ۔ یہ سن کر حضرت حسن بصری بے ساختہ بولے تم نے میری مشکل حل کر دی یعنی اب حیرت کی کوئی بات نہیں۔

حضرت حسینؓ اور خاندان نبوت صلى الله عليه وسلم کے بارے میں اہل سنت کا موقف
حضرت حسینؓ اور خاندان نبوت ملے کے بارے میں تمام اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ کوئی شخص جو ان کے بارے میں کدورت یا بغض رکھے اس کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ صحابہؓ کے دشمنوں نے خاندان نبوت صلى الله عليه وسلم سے محبت کی آڑ میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور تمام صحابہ کرامؓ کو نعوذ باللہ کافر و مرتد لکھا، اس لئے مسلمان اہل سنت ان کا محبت اہل بیت کا دعوی تسلیم نہیں کرتے ۔ صحابہ کرامؓ اور خاندان نبوت کے تعلقات کتنے خوشگوار تھے، اس کا تذکرہ قرآنی آیت رحماء بینھم ( الفتح) میں موجود ہے۔

دنیا بھر کے اہل سنت کا عقیدہ ہے کے صحابہ کرامؓ اور خاندان نبوت صلى الله عليه وسلم اسلام کی دو آنکھیں ہیں ۔ ان سے بغض کفر ہے اور اِن سے محبت عین ایمان ۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں دل میں میل رکھنا ضلالت و گمراہی ہے ۔ جو شخص ان میں سے کسی کو بھی کافر یا منافق کہے گا ،اس پرکافر کا اطلاق ہوگا۔ کیونکہ وہ ساڑھے سات سو (۷۵۰ ) قرآنی آیات کی تکذیب کر رہا ہے۔

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button