خاندان
حضرت علیؓ کا خاندان بنی ہاشم ہے ۔ قریش مکہ میں اس خاندان کا مقام و مرتبہ نہایت ممتاز تھا۔ حرم کعبہ کی خدمت اسی خاندان کے ذمہ تھی ۔ (البدایہ ، ج ۲، ص ۲۵۴)
بنو ہاشم کا اس سے بھی بڑا اعزاز یہ تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے سردار اور مقصود کائنات حضرت محمد صلى الله عليه وسلم بھی اسی خاندان میں پیدا کئے گئے ۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم کے بیٹے اسماعیل کی مکہ مکرمہ میں آمد کے بعد سے اسی دیار میں آباد تھا۔ قریش کے دیگر خاندانوں میں بنو ہاشم ہی سب سے زیادہ ممتاز اور بزرگی کے حامل تھے۔
والد کا نام و نسب
حضرت علیؓ کے والد کا نام عبد مناف اور ان کی کنیت ابو طالب تھی ۔ سلسلہ نسب یوں ہے
علیؓ بن ابوطالب ( عبد مناف ) بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مدر بن نزار بن عدنان ہیں.
عز وشرف
حضرت علیؓ کے والد ابو طالب عبد مناف حضور صلى الله عليه وسلم کے والد حضرت عبداللہ حقیقی بھائی تھے۔ یعنی حضرت علیؓ حضور صلى الله عليه وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ ابوطالب عبد مناف عبد اللہ اور زبیر عبدالمطلب کے تینوں بیٹے ، فاطمہ بنت عمر و بن عائذ کے بطن سے تھے۔ (البدایہ، ج ۲، ص۲۸۲)
حضرت علیؓ کی والده
حضرت علیؓ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن عبد مناف تھیں جو ابو طالب کے چچا کی بیٹی ہیں ۔ یہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جن کی شادی ہاشمی خاندان میں ہوئی اس طرح آپ نجیب الطرفین ہاشمی ٹھہرے۔ آپ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور مدینہ منورہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ فاطمہ بنت اسد کی وفات ہوئی تو حضور صلى الله عليه وسلم نے ان کے کفن دفن کے انتظامات فرمائے اور اپنی قمیض ان کے کفن میں شامل فرمائی ۔ قبر تیار ہونے کے بعد پہلے خود قبر میں داخل ہوئے ۔ (اسد الغابہ تحت فاطمہ بنت اسد )
برادران اور خواہران
ابوطالب کے چار فرزند تھے۔ طالب ،عقیل ،جعفر اور علی ۔ نسب قریش میں ہے کہ چاروں بیٹوں کی پیدائش کے دوران دس دس برس کا وقفہ تھا۔ عقیل کے ایک بیٹے کا نام یزید تھا جس کی وجہ سے ان کی کنیت ابو یزید تھی ۔ (طبقات بن سعد، ج ۴، ص ۲۹)
طالب
آپ غزوہ بدر میں کفار کی جانب سے تھے اور کفر پر موت آئی ۔ باقی تینوں بھائی اسلام سے مشرف ہوئے ۔
عقیل
انہوں نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کیا۔
جعفر
آپ اسلام کے ابتدائی بیس معزز صحابہ کرام میں سے تھے۔ آپ نے دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی دوسری مرتبہ جب حبشہ سے واپسی ہوئی تو قلعہ خیبر فتح ہو چکا تھا۔ آپ تیتیس سال کی عمر میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔
بہنیں
حضرت علیؓ کی حقیقی بہنیں دو تھیں ۔
ام ہاتی فاختہ بنت ابوطالب
آپ نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا، چنانچہ حضور صلى الله عليه وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، اور آپ صلى الله عليه وسلم نے آٹھ رکعت نماز ادا کی۔
جمانیہ بنت ابوطالب
اسلام قبول کیا اور ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب سے شادی کی۔
حضرت علیؓ کی ولادت
حضرت علیؓ تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپ کی ولادت شعب بنو ہاشم میں ہوئی ۔ (الاصابہ ابن حجر، ج ۴، ص ۱۶۴) ۔ آپ کی ولادت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے کعبہ میں آپ کی ولادت کا قول نقل کیا ہے لیکن علماء کی اکثریت نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ تاہم ولادت کعبہ کے قول کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ حضرت خدیجہ کے بھانجے حکیم بن حزام بھی حضرت علیؓ سے کئی سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی کسی حدیث نے کعبہ کی پیدائش کو عظمت کا حامل قرار نہیں دیا۔ یہ ایک اتفاقی واقعہ ہے کیونکہ خانہ کعبہ عبادت خانہ ہے ، ولادت خانہ نہیں ۔
سن ولادت
حضرت علیؓ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ولادت کے تیس سال بعد پیدا ہوئے ۔
حضرت علیؓ کا نام
ولادت کے بعد آپ کی والدہ نے آپ کا نام اسد اور ابو طالب نے علیؓ رکھا ۔ آپ کے القاب (اسد اللہ ، حیدر، المرتضی ) ہیں ۔ کنیت ابوتراب مشہور ہوئی۔
حضرت علیؓ کی تربیت
حضرت علیؓ دو سال کی عمر میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے گھر آئے اور یہیں آپ کی تربیت ہوئی ۔ جب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر ۲۹ سال تھی ۔
حضرت علیؓ کی ہجرت
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی زندگی کا مشکل ترین دور بعثت کے بعد ۱۳ سالہ مکی دور تھا۔ اس دور میں آپ صلى الله عليه وسلم پر مصائب کے جھکڑ آئے ، مشکلات کی وادی میں آپ صلى الله عليه وسلم کو صحابہ کرام سمیت اتارا گیا۔ صحابہ کرام کو المناک تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلى الله عليه وسلم کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہوا۔ اس موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے جس رات مکان سے ہجرت کا آغاز کیا وہ تاریخ اسلام کا انوکھا عنوان ہے۔ شب ہجرت آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے بستر پر حضرت علیؓ کو سلا یا ، لوگوں کی امانتیں بھی آپ کے سپرد کیں اور آپ صلى الله عليه وسلم خود حضرت ابو بکرؓ کو ان کے گھر سے ساتھ لے کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئے ۔
حضرت علیؓ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے حکم کے مطابق مکہ مکرمہ تین روز قیام کرنے کے بعد مدینہ منورہ روانہ ہو گئے ۔ جب حضرت علیؓ مدینہ منورہ پہنچے اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم قبا میں مدم بن کلثوم کے مکان پر قیام پذیر تھے ۔ حضرت علیؓ یہیں سے آپ صلى الله عليه وسلم کے قافلے میں شریک ہو گئے ۔ (البدایہ، ج ۳، ص ۱۷۷)
مواخات
جب آنحضرت صلى الله عليه وسلم مکہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک خصوصی حکمت عملی کے تحت دو دو آدمیوں میں مواخات قائم کی ۔ یہ برادرانہ ربط معاشی اور معاشرتی اتار چڑھاؤ کو ختم کرنے کے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ مہاجرین اور انصار میں یہ ربط جب قائم ہوا تو حضرت علیؓ کی مواخات سہل بن حنیف انصاری کے ساتھ ہوئی ۔
(از خطیب بغدادی ، ص ۷۰ )
غزوات میں شرکت
حضرت علیؓ نے مدینہ منورہ میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ آپ نے نہایت جرأت و بسالت اور اعلی شجاعت کے تاریخی کارنامے سرانجام دیئے جس سے اسلام کی تاریخ روشن ہے۔
آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے جنگ احد میں ابتدائی مبارزت میں جن تین افراد کو سب سے پہلے میدان میں اترنے اور بالمقابل موجود کو ناکوں چنے چبوانے کا حکم دیا ان میں حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ کے ساتھ تیسرے حضرت علیؓ تھے ۔ حضرت علیؓ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ آپ نے تمام جنگوں بالخصوص احد اور خیبر میں شجاعت و بہادری کے ایسے ایسے جو ہر دکھائے جو اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں ۔ حضرت علیؓ کی جرات و بسالت تاریخ اسلام میں درخشندہ آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ( البدایہ،ج ۳، ص ۲۷۳)
حضرت علیؓ کا حضرت سیدہ فاطمہؓ سے نکاح اور زوجین کی عمر
ماه رجب ۲ ہجری میں حضرت علیؓ کا نکاح سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے کر دیا تھا اور نکاح کا مہر چارصد مثقال مقرر کیا گیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت علیؓ کی عمر اکیس (۲۱) یا چوبیس برس کی تھی اور حضرت فاطمہؓ کی عمر علیؓ الاختلاف اقوال ۱۵، ۱۸ یا۱۹ سال کے قریب تھی ۔ (شرح مواهب المدینہ، ج ۲، ص۳)
مجلس نکاح
انعقاد نکاح کے لئے یہ با برکت اجتماع بالکل ساده، تکلفات زمانہ سے مبراء اور رسومات مروجہ سے خالی تھا۔ اس مبارک نکاح کی تقریب میں سید نا ابوبکر صدیقؓ ، سیدنا فاروق اعظمؓ ، سید نا عثمانؓ ذوالنورین اور دیگر صحابہ کرام شامل تھے اور شاہد نکاح تھے ۔ اہل سنت وشیعہ علماء دونوں نے ان بزرگوں کی شمولیت و شہادت نکاح کو درج کیا ہے اور خطبہ نکاح جناب نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے پڑھا۔ ( ذخائر العبقعی الحب الطبری ، ص ۳۰ ، باب ذکر تر و یج فاطمه ،ص۳۰)
طبقات ابن سعد اور مسند احمد کی روایات کی روشنی میں رخصتی سیدہ فاطمتہ الزہراء کے موقع پر آپ کو جو جہیز دیا گیا وہ ایک چارپائی، ایک بڑی چادر، چڑے کا تکیہ ( جو کھجور کی چھال یا خوشبودار گھاس اذخر سے بھرا ہوا تھا) ایک مشکیزہ، دوکوزے اور ایک آٹا پینے کی چکی پرمشتمل تھا۔
حضرت علیؓ المرتضیٰ کے خانہ مبارک میں شادی کے موقعہ پر یہ مختصر سامان زاہدانہ معیشیت کے لئے کافی اور مکفی تھا۔ جہانداری کی زیب و زینت کا کوئی نشان تک نہ تھا اور اہل ثروت کا سامان تعیش مفقود تھا اور متمولین جیسی آرائش معدوم تھی ۔ (مسند احمد ، ج ۱، ص ۱۰۴، تحت مسندات علوی)
حصول مکان اور رخصتی
نبی اقدس صلى الله عليه وسلم نے حضرت علیؓ کے سکونتی مکان کے لئے اپنے ایک صحابی حارثہ بن نعمان کے مکان کا ذکر فرمایا۔ حارثہ پہلے بھی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خاطر ایک مکان پیش کر چکے تھے تو اس دفعہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے لئے حارثہ بن نعمان سے پھر ایک مکان لینے میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو تر در ہوا۔ یہ باب جب حارثہ تک پہنچی تو حارثہ بن نعمان نے خود آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض داشت پیش کی کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ! میں اور میرا مال اللہ اور اس کے رسول ہی ہے کے لئے حاضر ہے جو مکان آپ صلى الله عليه وسلم مجھ سے حاصل فرمائیں گے وہ میرے لئے اس مکان سے زیادہ پسندیدہ ہو گا جو آپ صلى الله عليه وسلم میرے لئے چھوڑ دیں گے ۔ تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ان کا مکان حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے لئے قبول فرمایا اور دعائے خیر کے کلمات کہتے ہوئے فرمایا: بارک الله علیک یا فرمایا بارک اللہ فیک۔
اس کے بعد مکان میں سیدہ فاطمتہ الزہرا کی رخصتی کا انتظام کیا گیا اور مکان کی تیاری کے سلسلہ میں صفائی اور دیگر ضروری انتظامات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضرت ام سلمہ کی معاونت سے مکمل فرمائے ۔ مکان کی تیاری کے بعد ذو الحجہ ۲ ہجری میں سردار دو جہاں صلى الله عليه وسلم نے اپنی لخت جگر فاطمہؓ کو حضرت علیؓ کے اس مکان کی طرف اپنی خادمہ ام ایمن کی معیت میں پیادہ پا روانہ فرمایا اور اس طرح خاتون جنت کی رخصتی اس سادہ سی تقریب کی صورت میں مکمل ہوئی۔ جس میں مروجہ رسومات کا کوئی شائبہ تک نہ تھا اور یہ عمل امت کے لئے تعلیم کا بے مثل نمونہ تھا۔
اس موقعہ کے متعلق حضرت عائشہ اور حضرت جابر فرمایا کرتے تھے وما ارينا عرسا احسن من عرس فاطمةً یعنی فاطمہؓ کی شادی سے بہتر اور عمدہ ہم نے کوئی شادی نہیں دیکھی ۔
دعوت ولیمہ
رخصتی کی اس مبارک تقریب کے بعد دعوت ولیمہ کا مختصر سا انتظام کیا گیا جس میں جو کی روٹی ، کچھ کھجور اور پنیر سے اپنے احباب کے لئے دعوت طعام ترتیب دی گئی۔ یہ اس بابرکت شادی کا متبرک ولیمہ تھا جس میں نہ تکلف تھا نہ تصنع اور نہ ہی قبائلی تفاخر مدنظر تھا۔ دعوت ولیمہ ایک سنت طریقہ ہے۔ اس سنت کو نمود و نمائش کے بغیر نہایت سادگی سے ادا کیا گیا اور اہل اسلام کے لئے اس میں عملی نمونہ پیش کیا گیا۔ (تاریخ الخمیس ، ج ۱، ص ۴۱۱ ، تحت بناء علیؓ به فاطمه)
دعائیہ کلمات
جب انتظامی مراحل مکمل ہو گئے اور رخصتی بھی ہو چکی تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم ، حضرت علیؓ المرتضیٰ اور سیدہ فاطمہؓ کے مکان پر تشریف لےگئے ۔اس موقعہ پر مناسب حال نصائح و ہدایات ارشادفرما ئیں اور زوجین کے لئے یہ دعائیہ کلمات کہے: اللهم بارك فيها وبارك عليهما وبارك لهما والنسلهما
اے اللہ ! زوجین کے مال و جان میں برکت عطا فرما اور ان کی اولاد کے حق میں بھی برکت فرما۔
(الاصابه لابن حجر ” ، ج ۴، ص ۳۶۶، تحت فاطمتہ الزہراء)
حضرت علیؓ المرتضی … خلفاء ثلاثہ کے دور میں
عہد صدیقؓ
نبی اقدس صلى الله عليه وسلم کے وصال کے بعد صدیقؓ کا دور عہد اسلام میں سب سے اعلیٰ دور ہے۔ اس وقت احیائے دین اور بقائے ملت کے استحکام کی شدید ضرورت تھی ۔ ان مراحل میں دیگر صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ سیدنا علیؓ نے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ان میں سے یہاں ہم نے یہ چند ذکر کر دی ہیں ۔ مثلاً
مرکز اسلام مدینہ طیبہ کی نگرانی اور سید نا علیؓ کا کردار ۔
مقام ذوالقصہ کی طرف خلیفہ اول کا اقدام اور علوی تعاون ۔
خلیفہ کے ساتھ علوی روابط ۔
تقسیم اموال وغنائم میں حضرت علیؓ کی تولیت ۔
اہم دینی مسائل اور دیگر انتظامی امور میں آپ سے مشاورت ۔
تدوین قرآن کے کانامے کی تائید و توثیق ۔
اموال غنائم کا حصول اور حضرت علیؓ کا کنیزوں کا قبول کرنا۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ صدیقؓ دور میں اسلام کے تمام اہم امور میں خلیفہ اول حضرت ابو بکرؓ صدیقؓ کے ساتھ رہے اور ان سے پوری طرح متفق رہے اور ان کے کارناموں میں ان کے ساتھ متحد و متعاون رہے۔ حضرت علیؓ کی قولی و فعلی زندگی عہد صدیقؓ ی میں واضح طور پر شہادت دیتی ہے کہ اس دور کے تمام دینی و انتظامی مسائل بالکل درست تھے اور حضرت علیؓ کا ان کے ساتھ کاملاً اتفاق تھا اور ابو بکر صدیقؓ کی خلافت ان کے نزدیک باطل نہیں تھی ، برحق تھی ۔
( از سیرۃ علیؓ المرتضی ص ۱۶۳)
حضرت علیؓ امیر معاویہؓ کی نظر میں
حضرت امیر معاویہؓ ، حضرت علیؓ کو خلافت کا اہل سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قاتلین حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ کی فوج میں گھسے بیٹھے ہیں ۔ حضرت علیؓ اگر ان سے قصاص لیں تو اہل شام میں سے سب سے پہلے میں علیؓ المرتضیٰ کی بیعت کروں گا۔
حضرت معاویہ کی سیاسی بصیرت اور نظر وفکر سے کون انکار کر سکتا ہے۔ جب ان کے ذہن میں تھا کہ حضرت علیؓ میں تمام شرائط خلافت موجود ہیں ، صرف ایک مطالبہ ان کی بیعت میں حائل ہے تو اب کے حق پہنچتا ہے کہ وہ حضرت علیؓ کے بارے میں کہے کہ آپ سیاسی حیثیت سے کمزور تھے اور آپ کا سیاسی وزن نسبتا کم تھا۔ حضرت ابوالدرداء اور حضرت ابو امامہ جب فریقین میں رفع نزاع کی کوشش کر رہے تھے تو آپ نے انہیں کہا کہ حضرت علیؓ کو میری طرف سے جا کر بتلا دو
فقولا لاله فليقد من قتله عثمانؓ ثم انا اول من بايعه من الشام
آپ کہیں کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا دیں، پھر پہلا میں ہوں جو اہل شام میں سے ان کی بیعت کرے گا۔ آپ (حضرت معاویہؓ ) جب کبھی حضرت علیؓ کا ذکر کرتے تو انہیں ان عمی ( میرے چچا زاد بھائی ) کہہ کر ذکر کرتے ۔
جولوگ اصطلاحات عرب سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ کس پیار کے انداز میں کہے جاتے ہیں اور یہ کس نظر وفکر کا پتہ دیتے جب حضرت معاویہؓ اور سید نا حضرت علیؓ میں اختلافات چل رہے تھے تو شاہ روم نے سلطنت اسلامی پر حملے کی ٹھانی اور سمجھا کہ حضرت علیؓ کے مقابلہ میں حضرت معاویہؓ میرا ساتھ دیں گے۔ حضرت معاویہؓ نے اسے وہ مشہور پیغام لکھا جس کا آغاز اور رومی کتے سے ہوتا ہے۔
والله لمن لم تنتعه وتجع الى بلارك بالعين لاصطلحن انا وابن عمى
بخدا اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے علاقے کو واپس نہ لوٹا تو اے لعین میں اور میرا میرا چچا زاد بھائی ( علیؓ ) مل جائیں گے اور میں تجھے تیرے ملک سے نکال کر دم لوں گا اور زمین جو وسیع پھیلی ہے تجھ پر تنگ کر دوں گا ۔
حضرت معاویہؓ کا حضرت علیؓ کے علم وفضل کا اقرار
حافظ اب اکثیر لکھتے ہیں
لماجاء خبر قتل على الى معاويية جمل يبكى فقالت له امرائته تبكميه وقد قاتلته؟ فقال ویحک انک لا تلدين ما فقد الناس من الفضل والفقه والعلم
جب حضرت معاویہؓ کو حضرت علیؓ کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو بے اختیار رو پڑے ۔ آپ کو آپ کی بیوی نے کہا آپ ان پر رور ہے ہیں ،آپ تو ان سے لڑتے رہے ہیں ۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا تیرا برا ہو تجھے کیا پتہ آج دنیا کس قدر علم وفضل اور ذخیرہ فقہ سے محروم ہوگئی ہے
اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت علیؓ فقہاء صحابہ میں سے تھے اور فقہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے کیونکہ حضرت امیر معاویہؓ جو خود بڑے فقیہ تھے جب آپ حضرت علیؓ کی فقاہت کے قائل اور اس درجہ معترف ہیں تو اندازہ کریں اہل فن کی شہادت مشہو دلہ کی فنی شان کو کس قدر دو بالا کرتی ہے۔
حضرت علیؓ کے شاگردوں میں ضرار اسدی سے کون واقف نہیں ۔ ضرار حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت امیر معاویہؓ کی خدمت میں پہنچے تو حضرت معاویہؓ نے کہا : کچھ حضرت علیؓ کے بارے میں کہیں ۔ اس نے کہا مجھے معاف رکھیں تو بہتر ہوگا۔ حضرت معاویہؓ نے پھر اصرار کیا کہ تجھے کچھ نہ کچھ بتلانا ہی ہوگا پھراس نے آپ کے کچھ اوصاف بیان کئے اور حضرت معاویہؓ رو پڑے یہاں تک کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی ، تقریباً سبھی شارحین نہج البلاغہ نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔
وكان ضرار من اصحابه عليه السلام قدخل على معاويه بعد موة فقال صفلی عبا فقال اور تعافيني عن ذلك فقال والله لتفعلن فتكلم بهذا الفضل قبلى معاويه حتى خصلت لحية
ضرار حضرت علیؓ کے اصحاب میں سے تھے ۔ آپ کی وفات کے بعد وہ معاویہؓ کے پاس آئے ۔ امیر معاویہؓ نےاسے کہا حضرت علیؓ کی کوئی صفت بیان کرو۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھے اس سے معاف رکھیں ۔ آپؓ نے کہا تجھے ایسا کرنا ہوگا۔ اس پر اس نے (ضرار نے ) آپ کے علم وفضل کو بیان کیا یہاں تک کہ معاویہؓ رو پڑے اور آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔
نہایت افسوس ہے کہ کوفہ کے لوگوں نےتقیہ کا مسئلہ ایجاد کر کے علم کے اس بیش بہاؤ خیرہ کو یونہی ضائع کر دیا۔ ہر باب میں ان سے دودو روایتیں چلنے لگیں۔ خود حضرت علیؓ کے شاگردوں کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ کس قدر علم صحیح مشتبہ کر دیا گیا۔
امام مسلم صحیح مسلم کے مقدمہ میں لکھتے ہیں
عن الاعمش عزابى اسحق قال لما احدثو اتلك الاشياء يعد على قال رجل من اصحاب على قاتلهم الله اتعلم افسدوا
حضرت علیؓ کے بعد جب لوگوں نے ان کے نام ایسی باتیں گھڑیں تو حضرت علیؓ کے ایک شاگرد نے کہا خدا ان لوگوں کو غارت کرے کتنا علم ان لوگوں نے فاسد کر دیا ہے ۔ ان لوگوں نے آپ کے علم کو اس درجہ مشتبہ کر دیا کہ اب ان کی وہی روایات لائق اعتبار کی جاتی ہیں جو حضرت عبد اللہ بن مسعود کے شاگرد حضرت علیؓ سے روایت کریں۔ کوفہ میں محفوظ علمی مسند حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ہی رہ گئی تھی ۔
حضرت علیؓ کا دارالحکومت ہی کوفہ تھا۔ آپ جن لوگوں میں گھرے تھےانہوں نے آپ کی طرف وہ کچھ منسوب کرڈالا کہ حضرت ابن عباسؓ ان مسائل کو دیکھتے تو صاف کہہ دیتے کہ حضرت علیؓ نے یہ فیصلہ ہر گز نہ کیا ہوگا یہ تو غلط ہے ۔
حضرت مغیرہ کہتے ہیں
لم يكن يصلق على فى الحلديث الا من اصحاب عبدالله بن مسعود
حضرت علیؓ کی وہی حدیث صحیح سمجھی جاتی ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود کے شاگرد سے روایت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی باب علم علم کا دروازہ تھے۔
حضور صلى الله عليه وسلم سے روایت
انا مدينة العلم وعلى بابها يا انا دارالحکمته على بابها ثابت ہو یا نہ ہولیکن اس حقیقت کے اعتراف سے چارہ نہیں کہ آپ واقعی علم کا دروازہ تھے ۔
یہ گمان نہ کیا جائے کہ یہ صرف یکطرفہ ٹریفک تھی ، نہیں ! حضرت امیر معاویہ بھی بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے اور حضرت علیؓ بھی کھلے طور پر کہتے تھے کہ ہم ایمان میں ان سے بڑھ کر نہیں اور وہ ایمان میں ہم سے زیادہ نہیں معاملہ برابر کا سا ہے۔ ہمارا اختلاف صرف خون عثمانؓ کے بارے میں ہوا اور خدا جانتا ہے کہ ہم اس سے بری ہیں۔ اس میں یعنی ان کے قاتلوں کو پناہ دینے میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے۔
شریف رضی (۴۰۴ ھ ) لکھتا ہے کہ آپ نے فرمایا
ان ربنا واحد ونبيا واحد ودعوتنا في الاسلام واحدة لانستزيد هم فى الايمان بالله والتصديق برسوله ولا يستزيمونا الامر واحد
ہم دونوں ایک رب اور ایک نبی کے ماننے والے ہیں۔ اسلام میں ہم دونوں فریق کی دعوت ایک ہے ۔ ہم ان سے ایمان باللہ اور تصدیق رسالت محمدیہ میں کسی اور چیز کے طالب نہیں اور نہ وہ ہم سے ایمانیات میں کسی اور چیز کا اضافہ چاہتے ہیں ۔ ہمارا اور ان کا امیر معاویہ اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ ایک ہے۔
دیکھئے حضرت علیؓ المرتضیٰ نے کس دل سے اپنے آپ کو اور حضرت معاویہ کو ایک مقام پر لاکھڑا کیا ہے اور کس صفائی سے اپنے ایمان کو اور اہل شام کے ایمان کو یکساں بتلایا ہے۔ آپ فرما رہے ہیں کہ رسالت محمدیہ کا پروانہ ہونے میں ہم دونوں ایک ہیں اور ہمارا امیر معاویہ اوران کے ساتھیوں سے کوئی دینی اختلاف نہیں۔ امور سلطنت میں جو اختلاف ہے وہ اور نوع کا ہے۔
حضرت علیؓ کے فضائل و مناقب
حضرت علیؓ المرتضیٰ جب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے گھر تربیت کے لئے تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک دو سال تھی ۔ وفات رسول صلى الله عليه وسلم کے وقت آپ ۲۹ سال کے تھے۔ اس طرح ۲۷ سال تک آپ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی صحبت فیض سے اعلیؓ ٰ کمالات اور عمدہ صفات کا حظ وافر پایا۔ بچوں میں سب سے پہلے آپ مسلمان ہوئے ، آپ اسلام کے اولین مسلمانوں میں تیسرے نمبر پر تھے ۔
تمام قرآنی آیات جن میں صحابہ کرام کے سابقین اور اولین گروہ کے فضائل ہیں، ان تمام سے آپ کی فضیلت آشکار ہو رہی ہے۔
جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جنت ، رضا مندی اور اعلی نعمتوں کی بشارت دی گئی ہے اس میں آپ براہ راست شامل ہیں
والسابقون الاولون من المهاجرين والانصار والذين اتبعوهم باحسان رضى الله ورضوانه … الخ
جو لوگ اول قبول اسلام کرنے والے ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ہیں سب سے پہلے مدد کرنے والے ہیں اور جوان کے پیروکار ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ سے راضی ہوئے ، ان کے واسطے اللہ نے باغات اور بہتی نہریں تیار کر رکھی ہیں
اسی طرح جس آیت کریمہ میں خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں بھی آپ براہ راست شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں صحابہ کرام کے بارے میں کامیابی کامرانی اور رشد و ہدایت کا کھلا اعلان ہے جس کے باعث یہ تمام احکامات اور اعلانات آپ کی عظمت پر شاہد ہیں ۔
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی احادیث
اما ترنی یا علیؓ ان تكون منى بمنزله هارون من موسى الا انر لانبی بعدی (بخاری شریف، ج ۱، ص ۵۲۶)
من كنت مولاه فهذا على مولاه
اے علیؓ ! میری امت میں تیری مثال عیسی بن مریم کی ہے جس کے ساتھ یہودیوں نے دشمنی میں غلو کیا اورعیسائیوں نے محبت میں غلو کیا لیکن صرف مسلمانوں نے ان سے خدا کی طرف سے بیان کردہ فضیلت کے مطابق پہچانا ۔ تیری وجہ سے دو گروہ گمراہ ہوں گے لیکن جومیرے طریقے پر ہوگا وہی حق پر ہوگا ۔
قول حضرت عمرؓ
عن عمرؓ قال ما احد احق بهذا الامر من هئو لا البقر الذين توفى رسول الله الا الله وهو راضي قسمى عليا وعثمانؓ ولذبيروطلحة وسعد وعبد الرحمن
حضرت عمرؓ نے فرمایا: "علیؓ ، عثمانؓ ، زبیرؓ طلحہ ، سعد ، عبدالرحمن سے بہتر کوئی شخص نہیں کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جن سے نبی صلى الله عليه وسلم راضی ہو کردنیا سے رخصت ہوئے ۔
فضائل علیؓ کا مختصر خاکہ
حضرت علیؓ ماں اور باپ دونوں طرف سے حضور صلى الله عليه وسلم کے رشتہ دار ہیں ۔
حضرت علیؓ ، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد تھے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ ، آپ کی زوجہ تھیں ۔
ہجرت کی شب آپ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے ۔
آپ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔
آپ کے بارے میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں ۔
حضرت علیؓ المرتضیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے آخری وقت میں تیمار داری کے فرائض انجام دیئے۔
حضرت علیؓ المرتضیٰ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خلافت راشدہ کے اعلی مقام پر فائز ہوئے ۔
دیگر صحابہ کرام کے ہمراہ آپ غسل نبوی صلى الله عليه وسلم کی سعادت میں شریک ہوئے۔
علیؓ کا دور خلافت
حضرت علیؓ المرتضیٰ کا دور حکومت ساڑھے پانچ سال تک ۲۲ لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے تک محیط رہا۔
آپ کے دور میں مسلمانوں کے مابین حضرت عثمانؓ ذوالنورین کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لئے جنگ جمل اور جنگ صفین کے روح فرسا واقعات پیش آئے ۔ تاہم حکومت و خلافت مصطفوی کی اصلی روح ، عدل، اجتماعی مساوات حقیقی خلیفہ چہارم کے دور حکومت میں مصطفوی شریعت اور خلفاء ثلاثہ کے منہاج پر قائم رہی ۔ آپ نے خلافت اسلامیہ کے باب میں جس درخشندہ عہد کو فروغ دیا وہ حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے مشابہت اور مطابقت رکھتا ہے ۔
مسلمانوں کے باہمی اختلاف اور قاتلان عثمانؓ کی چیرہ دستیوں نے خود حضرت علیؓ کو اپنے گرد گھومنے والے ایک طبقے سے بیزار کر دیا تھا۔ حضرت اسد اللہ الغالب کے دور حکومت کے اصول وضوابط کو سمجھنے کے لئے گورنر مصر کے نام لکھے جانے والے ایک خط پر غور کرنا ضروری ہے
حضرت علیؓ کی طرف سے ارسال کیا جانے والا یہ خط ایک طرف حکومتی اصولوں کا شاہکار ہے دوسری طرف خلافت راشدہ کے زریں عہد کا آئینہ دار ہے۔ یہ خط حضرت علیؓ کے نظام سلطنت کا روشن آئینہ ہے۔
یہ ہے وہ وصیت جس کو اللہ کے بندے علیؓ امیر المومنین نے مالک اشتر کو جب اسے مصر کا گورنر بنایا روانہ کیا تا کہ ملک کا خراج جمع کرے۔ اس کے دشمنوں سے لڑے، اس کے باشندوں کے فلاح و بہبود کا خیال رکھے ۔ مالک کے تقویٰ اور اطاعت خداوندی کو مقدم رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ آدمی کی سعادت خدا اور رسول کے فرائض وسنن کی بجا آوری میں ہے۔ اس سے انکار بد بختی ہے ۔
رعایا میں دو قسم کے آدمی ہوں گے ۔ تمہارے دینی بھائی یا مخلوق خدا ہونے کے لحاظ سے تمہارے جیسے آدمی ۔ لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہی ہیں ۔ جان بوجھ کے یا بھولے چوکے سے ٹھوکریں کھاتے ہی رہتے ہیں ۔ تم اپنے عفو کا دامن خطا کاروں کے لئے اسی طرح پھیلا دینا جس طرح تمہاری آرزو ہے کہ خدا تمہاری خطاؤں کے لئے اپنا دامن عفو و کرم پھیلا دے۔ کبھی نہ بھولنا کہ تم رعایا کے افسر ہو، خلفیہ تمہارا افسر ہے اور خدا خلیفہ کے اوپر حاکم ہے۔ خلیفہ نے تمہیں گورنر بنایا ہے اور مصر کی ترقی و اصلاح کی ذمہ داری تمہیں سونپ دی ہے ۔ خدا سے لڑائی نہ مول لینا کیونکہ آدمی کے لئے خدا سے کوئی بچاؤ نہیں ۔ خدا کے عفو و رحمت سے کبھی بھی بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ عفو پر بھی نادم نہ ہونا۔ سزا دینے پر کبھی شیخی نہ بگھارنا ۔ غصہ آتے ہی دوڑ نہ پڑنا بلکہ جہاں تک ممکن ہو غصے سے بچنا اور غصے کو پی جانا۔
خبردار! رعایا سے کبھی نہ کہنا کہ میں تمہارا حاکم بنا دیا گیا ہوں اور اب میں ہی سب کچھ ہوں ۔ سب کو میری تابعداری کرنی چاہیے ۔ اس ذہنیت سے دل میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ دین میں کمزوری آتی ہے اور بربادی کے لئے بلاوا آتا ہے
وزراء اور مشیروں کے بارے میں فرمایا
بدترین وزیر وہ ہے جو شریروں کی طرف داری کرے اور گناہوں میں ان کا سا بھی ہو ۔ ایسے آدمی کو اپنا وزیر نہ بنانا کیونکہ اس قسم کے لوگ گنہگاروں کے مددگار اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ تمہیں ایسے آدمی مدد دیں گے جو عقل و تدبیر میں ان کے برابر ہوں گے مگر گنا ہوں سے ان کی طرح برے نہ ہوں گے، نہ کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہوگی نہ کسی گناہ گار کا اس کے گناہ میں ساتھ دیا ہوگا۔ یہ لوگ تمہیں کم تکلیف دیں گے۔ تمہارے بہترین مددگار ثابت ہوں گے ۔ تم سے پوری ہمدردی رکھیں گے اور گناہ سے اپنے سب رشتے کاٹ دیں گے۔ ایسے ہی لوگوں کو تم صحبتوں اور عام درباروں میں اپنا مصاحب بنانا۔
پھر یہ بھی یادر ہے کہ خاص الخاص لوگوں میں بھی وہی تمہاری نگاہوں میں سب سے زیادہ مقبول ہوں جو زیادہ سے زیادہ کڑوی بات تم سے کہہ سکتے ہوں اور ان کاموں میں تمہارا ساتھ دینے سے انکار کر سکتے ہوں جو خدا اپنے بندوں کے لئے نا پسند فرما چکا ہے۔ اہل تقویٰ وصدق کو اپنا مصاحب بنانا ۔ انہیں ایسی تربیت دینا کہ تمہاری جھوٹی تعریف کبھی نہ کریں کیونکہ تعریف کی بھر مار سے آدمی میں غرور پیدا ہوتا ہے اور تمہارے سامنے نیکو کاراور خطا کار برابر نہ ہوں ۔ ایسا کرنے سے نیکوں کی ہمت پست ہو جائے گی اور خطا کا راور بھی شوخ ہو جائیں گے۔ ہر آدمی کو وہ جگہ دینا جس کا وہ اپنے عمل کے لحاظ سے مستحق ہے اور تمہیں جاننا چاہیے کہ رعایا میں اپنے حاکم کے ساتھ حسن ظن اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ حاکم رعایا پر رحم و کرم کی بارش کرتا رہے۔ اس کی تکلیفیں دور کرے اور کوئی ایسا مطالبہ نہ کرے جو اس کے بس سے باہر ہو ۔ یہ اصول تمہارے لئے کافی ہیں اس سے رعایا کا حسن ظن تمہیں بہت سی مشکلوں سے نجات دے گا۔
خود تمہارے حسن ظن کے سب سے زیادہ مستحق وہ ہوں جو تمہارے امتحان میں سب سے اچھے اتر یں ۔ اسی طرح تمہارے سوء ظن کے بھی سب سے زیادہ مستحق وہی ہوں جو آزمائش میں سب سے بڑے نکلیں۔
فوج کے بارے میں ہدایات
اپنی فوج کے معاملے میں ہوشیاری سے کام لینا۔ انہی لوگوں کو افسر بنانا جو تمہارے خیال میں اللہ اور رسول صلى الله عليه وسلم کے اور تمہارے امام کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہوں، صاف دل ہوں ، ہوشمند ہوں ، جلد غصے میں نہ آ جاتے ہوں ۔ عذر معذرت قبول کر لیتے ہوں ، کمزوروں پر ترس کھاتے ہوں ، ز بر دستوں پر سخت ہوں نہ بختی انہیں جوش میں لے آتی ہو نہ کمزوری انہیں بٹھا دیتی ہو۔
عدالت کے معاملات میں فرمایا
مشتبہ معاملات پیش آئیں اور تمہاری بصیرت و علم کام نہ دے تو انہیں اللہ کی طرف اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی طرف لوٹانا کیونکہ خدا مسلمانوں کی ہدایت کے لئے فرماتا ہے
يا ايها الذين امنو اطيعو الله واطيعو الرسول واولى الأمر منكم… الخ
اللہ کی طرف معاملے کو لوٹانا یہ ہے کہ کتاب محکم اور نص صریح کی طرف لوٹا جائے اور رسول کی طرف لوٹانا یہ ہے کہ جامع سنت نبوی کولیا جائے نہ کہ اسے جس میں اختلاف پڑ گیا ہے۔
پھر ملک میں انصاف قائم کرنے کے لئے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا جو تمہاری نظر میں سب سے افضل ہوں ۔ ہجوم معاملات سے تنگ دل نہ ہوتے ہوں ۔ اپنی غلطی پر اڑے رہنا ٹھیک نہ سمجھتے ہوں اور حق کے ظاہر ہو جانے پر باطل ہی سے چھٹے نہ رہتے ہوں ۔ طماع نہ ہو، اپنے فیصلوں پر غور کرنے کے عادی ہوں ۔ فیصلے کے وقت شکوک و شبہات پر رکنے والے ہوں ۔ صرف دلائل کو اہمیت دیتے ہوں ۔ مدعی اور مدعا علی سے بحث میں اکتا نہ جاتے ہوں ۔ واقعات کی تہہ تک پہنچنے سے جی نہ چراتے ہوں اور حقیقت کھل جانے پر اپنے فیصلے میں بے باک اور بے لاگ ہوں ۔ یہ ایسے لوگ ہوں جنہیں نہ تعریف بے خود کر دیتی ہونہ چاپلوسی مائل کر سکتی ہو۔ مگر ایسے لوگ کم ہوتے ہیں ۔
تمہارا فرض ہے کہ قاضیوں کے فیصلوں کی جانچ کرتے رہو ۔ اپنے دربار میں انہیں ایسا درجہ دو کہ تمہارے کسی مصاحب اور در باری کو ان پر دباؤ ڈالنے یا انہیں نقصان پہنچانے کی ہمت نہ ہو سکے۔ قاضیوں کو ہر قسم کے خوف سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔
گورنروں کے نام خط میں مزید فرمایا
عمال حکومت کے معاملات پر بھی تمہیں نظر رکھنا ہوگی ۔ اخراجات کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی ۔ رو رعایت سے یا صلاح ومشورے کے بغیرکسی کو عہدہ نہ دینا کیونکہ ایسا کرنے سے ظلم و خیانت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اچھے گھرانوں اور سابقین اسلام کے خدمت گزاروں میں تجربہ کار اور باحیا لوگوں ہی کو منتخب کرنا کہ ان کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔ اپنی آبرو کا خیال رکھتے ہیں۔ طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور انجام پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔ عہدے داروں کو بہت اچھی تنخواہیں دینا ۔ اس سے یہ لوگ اپنی حالت درست کرسکیں گے اور حکومت کے اس مال سے بے نیاز رہیں گے جو ان کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس پر کبھی حکم عدولی کریں یا امانت میں خلل ڈالیں تو تمہارے پاس ان پر حجت ہوگی مگر ضروری ہے کہ ان کاموں کی جانچ پڑتال کرتے رہنا۔ نیک لوگوں کو مخبر بنا کر ان پر چھوڑ دینا ۔ یہ اس لئے کہ جب انہیں معلوم ہوگا کہ خفیہ نگرانی بھی ہو رہی ہے تو امانت داری اور رعایا سے مہربانی میں اور زیادہ چست ہو جائیں گے پھر اگر ان میں سے کوئی شخص خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوسوں سے تصدیق ہو جائے تو بس یہ شہادت کافی ہے۔ تم بھی سزا کا ہاتھ بڑھانا جسمانی اذیت کے ساتھ خیانت کی رقم بھی اگلوالینا۔ خائن کو ذلت کی جگہ کھڑا کرنا اور پوری طرح اسے رسوا کر ڈالنا ۔ ( از کتاب علیؓ ابن ابی طالب ، ص ۱۷۳)
حضرت علیؓ المرتضیٰ کا یہ تاریخ ساز خط بلا شبہ حکومت و امارت اور خلافت وسلطنت کے باب میں عظیم الشان شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ عہد حاضر کے حکمران اگر حضرت علیؓ کی ان ہدایات کی پاسداری کر لیں تو ان کی حکومتیں صحیح معنی میں اسلامی فلاحی اور عوامی حکومتیں بن سکتی ہیں ۔
حضرت علیؓ کی شہادت
خوارج نے حضرت معاویہؓ، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت علیؓ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت مقرر کیا۔ منصوبہ سازوں نے حضرت علیؓ کے قتل کا ذمہ عبد الرحمن ابن ملجم پر ڈالا ۔ اس بدبخت نے رمضان کے مبارک مہینے میں ۲۱ رمضان المبارک صبح فجر کے وقت امیر المومنین اسد اللہ، حیدر کرار، سلسلہ تصوف کے امام، داماد نبی ، حضرت علیؓ کو کوفہ کی مسجد میں نماز کے لئے جاتے ہوئے شہید کر ڈالا اور اپنے دو پیش روؤں حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی طرح اسلام کے یہ خلیفہ چہارم بھی جام شہادت نوش کر کے سرفرازی کے اعلی مقام پر فائز ہو گئے اور فرمان ربانی کے مطابق حیات جاودانی کے حق دار ٹھہرے۔
حضرت علیؓ کا طرز خلافت و زندگی ہر مسلمان کے لئے نمونہ ہے خاص طور پر ان (شیعہ ) کے لئے جو محبت علیؓ واہل بیت ہونے کے دعویدار ہیں ۔ اگر آج بھی وہ لوگ خلیفہ چہارم کی تعلیمات اور زندگی کے مطابق عمل کرتے ہوئے مخالفت ثلاثہ و اصحاب رسول صلى الله عليه وسلم کی بجائے اطاعت ثلاثه و محبت اصحاب رسول صلى الله عليه وسلم کا اصول اپنا لیں اور جس طرح حضرت علیؓ ان کی عزت واحترام کے قائل تھے اور ان کی اتباع کرتے تھے اور انہیں نبی آخر الزماں صلى الله عليه وسلم کے حقیقی اور سچے جانشین خیال کرتے تھے ، یہ طبقہ بھی اسی طرح ان کو اپنی عقیدت کا مرکز ومحور بنالے تو امت مسلمہ میں شامل ہو کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتا ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے دلنشین اقوال مبارک
خندہ روئی سے پیش آنا سب سے پہلی نیکی ہے۔
عقیدہ میں شک رکھنا شرک کے برابر ہے۔
ادب بہترین کمالات اور خیرات افضل ترین عبادات سے ہے۔
موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔
عادت پر غالب آنا کمال فضیلت ہے۔
دوستی ایک خود پیدا کردہ رشتہ ہے۔
گناہوں پر نادم ہونا اُن کو مٹا دیتا ہے اور نیکیوں پر مغرور ہونا بر بادکر دیتا ہے۔
فاسق کی برائی بیان کرنا غیبت نہیں ۔
آدمی کی قابلیت زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔
معافی نہایت اچھا انتقام ہے۔
سچائی میں اگر چہ خوف ہے مگر باعث نجات ہے اور جھوٹ میں گواطمینان ہے مگر موجب ہلاکت ہے۔
غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔
تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے اور عقلمند وہ ہے جو ان میں ترقی کرتا رہے۔
جلدی معاف کرنا انتہائی شرافت اور انتقام میں جلدی کرنا انتہائی ذلالت ہے۔
علماء اس لئے غریب و بیکس ہیں کہ جاہل لوگ زیادہ ہیں جو ان کی قدر نہیں سمجھتے ۔
شریف کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی سختی کرے تو سختی سے پیش آتا اور جب اس سے کوئی نرمی کرے تو نرم ہو جاتا ہے اور کمینے سے جب کوئی نرمی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اور جب کوئی سختی کرے تو ڈھیلا ہو جاتا ہے۔
علم مال سے بہتر ہے کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی ۔
آدمی اگر عاجز ہو اور نیک کام کرتا ہے تو اس سے اچھا ہے کہ قوت رکھے اور برے کام نہ چھوڑے۔
حرام کاموں سے نفس کو روکنا بھی صبر کی دوسری قسم ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہےاللہ تعالیٰ اس کی اپنی جان بھی بھلا دیتا ہے۔
بخیل دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرے گا اور عاقبت میں امیروں کا سا حساب بھگتے گا۔ ہمسایہ کہ بدخواہی اور اقارب کے ساتھ برائی انتہائے شقاوت ہے۔
تیرے مال میں سے تیرا حصہ تو صرف اتنا ہے جسے تو نے آخرت کے لئے پہلے بھیج دیا اور جسے تو نے دنیا میں چھوڑ دیا وہ تیرے وارثوں کا ہے۔
اگر تو کسی کے ساتھ احسان کرے تو اس کو مخفی رکھ اور جب تیرے ساتھ کوئی احسان کرے تو اس کو ظاہر کر ۔
غیبت سننے والا غیبت کرنے والوں میں داخل اور برے کام پر راضی ہونے والا گویا اس کا فاعل ہے ۔ جب تک کسی شخص کا پوری طرح حال معلوم نہ ہو اس کی نسبت بزرگی کا اعتقاد نہ رکھا۔
جب تک کسی شخص سے بات چیت نہ ہوا اسے حقیر نہ سمجھ ۔
تھوڑا علم فساد عمل کا موجب ہے اور صحت عمل صحت علم پر منحصر ہے۔
اپنا واجبی حق لینے میں کوتاہی نہ کرو، البتہ دوسرے کے غصب حقوق سے بچو۔
امن کی طرف راستہ مل جانے کی صورت میں خوف کی حالت میں مقیم رہنا نا دانی ہے۔
فسق و فجور کے مقامات سے دوررہ کہ یہ خدا تعالیٰ کے غضب کے مقام اور اس کے عذاب کے محل ہیں ۔
ایک دفعہ کسی نے حضرت علیؓ سے درخواست کی کہ ہم دس آدمی ہیں اور سوال ایک ہی ہے مگر جواب جدا گانہ چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں کہو ۔
اس نے یہ سوال پیش کیا کہ علم بہتر ہے یا مال ؟ ۔ آپ نے اس طرح جواب دینا شروع کیا۔
علم اس لئے کہ مال کی تجھے حفاظت کرنی پڑتی ہے اور علم تیری حفاظت کرتا ہے۔
علم اس لئے کہ مال فرعون و ہامان کی ترکہ ہے اور علم انبیاء کی میراث ہے۔
علم اس لئے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور علم ترقی کرتا ہے۔
علم اس لئے کہ مال دیر تک رکھنے سے فرسودہ ہو جا تا ہے مگرعلم کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
علم اس لئے کہ مال کو ہر وقت چوری کا خطرہ ہے علم کو نہیں ۔
علم اس لئے کہ صاحب مال کبھی بخیل بھی کہلاتا ہے مگر صاحب علم کریم کہلاتا ہے۔
علم اس لئے کہ اس سے دل کو روشنی ملتی ہے اور مال سے دل تیرہ و تار ہو جاتا ہے۔
علم اس لئے کہ کثرت مال سے فرعون وغیرہ نے دعوی خدائی کیا مگر کثرت علم سے رسول پاک صلى الله عليه وسلم نے مـا عبـد نـاک حق عباد ، تک کہا۔
علم اس لئے کہ مال سے بے شمار دشمن پیدا ہوتے ہیں مگر علم سے ہر دلعزیزی حاصل ہوتی ہے۔ علم اس لئے کہ یوم قیامت کو مال کا حساب ہوگا مگر علم پر کوئی حساب نہ ہو گا ۔