غزوہ تبوک (رجب المرجب ۹ ہجری)
The Expedition of Tabuk | Battle of Tabuk | Ghazwa e Tabuk
تبوک ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ طیبہ اور شام کے درمیان مدینہ منورہ سے چودہ میل کے فاصلہ پر ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ایک قلعہ کا نام ہے اور قاموس میں ہے کہ مدینہ اور شام کے درمیان ایک خطہ ارضی کا نام ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک چشمہ کا نام ہے جو اس جگہ واقع ہے چونکہ اس سفر میں لشکر کی آخر مسافت اس چشمہ تک ہوئی تھی اس بنا پر اس کو اس نام سے موسوم و منسوب کیا گیا۔ جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرمایا:
” آخری حد وہ ہے جب تم تبوک کے چشمہ پر پہنچو “
تبوک کے لغوی معنی لکڑی وغیرہ سے اتنی گہری زمین کھودنا کہ پانی نمودار ہو جائے کے ہیں ۔ اور حضور اکرم نے فرمایا کہ بہت سے صحابہ اس چشمہ پر پہنچ کر اپنے پیالوں کو اس میں ڈال کر پانی کو بلاتے ہیں تاکہ پانی نکل آئے اور فرمایا:
” تم اترو گے اور پانی کو بلا کر چشمہ سے نکالو گے اسی بنا پر اس غزوہ کا نام تبوک رکھا گیا “ صحاح میں اسی طرح مذکور ہے۔
اس غزوے کو غزوہ خاضحہ بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس میں منافقوں کی فضیحت و رسوائی بہت زیادہ ہوئی تھی ۔ غزوۂ عسرت اور جیش عسرت بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس میں لشکر والوں کو مشقت بھوک و پیاس محسوس ہوئی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ مسافت طویل تھی اور ہوا بہت گرم، دشمن کا لشکر قوی تھا اور قحط سالی تھی لشکر بہت زیادہ تھا اور زادراہ اور سامان بہت کم تھا لشکر اسلام کی عسرت وتنگی کا یہ عالم تھا کہ فقرا صحابہ میں سے اٹھارہ اصحاب کے لئے ایک اونٹ سے زیادہ نہ تھا۔
جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے اور کرم خوردہ کھجوروں کا آٹا اور مکھن لگے جوار اور بو دارگھی سفر کا توشہ تھا۔ اور پانی تو انتہائی کمیاب تھا باوجود سواری کی قلت کے اونٹوں کو ذبح کرتے اور اس کی آنتوں اور رگوں کی تری سے ہونٹوں کی خشکی دور کرتے تھے درختوں کے پتے کھاتے تھے جس سے مسوڑے سوج گئے اور ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی مانند ہو گئے تھے ۔ اغنیاء صحابہ بھی مدینہ سے باہر جانے میں با حکم طبع ناگواری محسوس کرتے تھے کیوں کہ میوؤں کے پکنے کا زمانہ تھا اور انہیں درختوں کے سایوں میں بیٹھنا اور پھلوں سے لطف اندوز ہونا طبعی طور پر مطلوب و مرغوب تھا۔
اس پر یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی۔
” اے ایمان والو تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جائے کہ خدا کی راہ میں کوچ کرو تو تم بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کرلی اور جیتی دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا “
اس طرح تن آسانوں اور فراغت طلب کرنے والوں پر طعن و تشنیع کا کوڑا رسید کیا۔ اس غزوہ کے لئے مدینہ طیبہ سے روانہ ہونے کی تاریخ بلا اختلاف روز پنجشنبہ ماہ رجب ۹ ہجری تھی۔ اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ ان دنوں ایک قافلہ شام سے مدینہ طیبہ آیا اور انہوں نے خبر پہنچائی کہ شاہ روم بہت بڑا لشکر جمع کر چکا ہے اور قبائل کثیرہ مثلاً لحم ، جذام، عاملہ اور غسان وغیرہ قبائل عرب میں سے جو نصرانی تھے ہرقل سے بڑے خوش ہیں اور وہ سب دین نصاری کے غلبہ کے لئے جمع ہو کر نکل آئے تھے اور وہ سب متفق و مجتمع ہو کر مدینہ کا ارادہ رکھتے تھے۔
جب حضور اکرم نے شام کی طرف لشکر کشی کا مصمم ارادہ فرمالیا تو صحابہ کرام کو قبائل کی طرف لشکر جمع کرنے کے لئے بھیجا اور ہر اس شخص کو جو جس قبیلہ کی طرف منسوب تھا اسے اس قبیلہ کی طرف لشکر اور ساز و سامان جمع کرنے کے لئے بھیجا۔ اور صحابہ کو سپاہ کی تیاری اور فقر او مساکین پر تصدق و انفاق اور راہِ خدا میں اعانت و جہاد کی ترغیب و تحریض فرمائی ہر شخص نے اپنی ہمت و طاقت اور حوصلہ و امکان کی حد تک لشکر کی تیاری میں امداد کی اور مال و متاع خرچ کیا چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق اپنا تمام مال و اسباب اٹھا کر لے آئے اور جو اپنا کچھ تھا راہ خدا میں صرف کر دیا اور حضرت عمر فاروق جتنا بھی ان کی ملکیت میں تھا اس میں آدھا حصہ جدا کر کے لے آئے۔
حضرت فاروق اعظم سے ہی مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول خدا نے لشکر تبوک کی تیاری کا شوق دلایا تو میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ آج تو میں حضرت ابو بکر صدیق پر سبقت لے جاؤں گا آج تو میرے پاس بہت مال ہے جس میں سے آدھے مال کو حضور اکرم کی خدمت میں لے آیا ہوں۔ حضور نے مجھ سے دریافت فرمایا:
” اپنے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑا ہے “
میں نے عرض کیا : “ اتنی ہی مقدار میں ان کے لئے چھوڑ دیا ہے “
اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق آئے اور جتنا کچھ مال ان کے پاس تھا سب لے آئے ۔ ان سے بھی حضور اکرم نے پوچھا : " اپنے اہل وعیال کے لئے کتنا ذخیرہ چھوڑا ہے؟ “
انہوں نے کہا :- میں نے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے۔
اس پر حضور اکرم نے فرمایا : مَا بَيْنَكُما مَا بَين كَلِمَتَيكُما
تمہارے درمیان فرق مراتب اور تفاوت اتنا ہی ہے جتنا تمہاری ان دو باتوں کے درمیان
پھر میں نے حضرت ابو بکر صدیق عرض کیا : ” میں آپ سے کسی بات میں سبقت نہیں کر سکتا “
اس غزوے میں انفاق فی سبیل اللہ میں شریک غالب حضرت عثمان بن عفان تھے اور ( جیش عسرت کا سامان مہیا کرنے والے) ان کے مدائح اور مناقب میں سے ہے ، مروی ہے کہ حضرت عثمان ذوالنورین ایک قافلہ مرتب فرما رہے تھے تا کہ تجارت کے لئے شام بھیجیں۔ انہوں نے یہ ارادہ ترک فرما دیا اور حضور اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
” یا رسول اللہ! یہ دوسو اونٹ جن پر پالان ، پوششس اور چادر میدن وغیرہ پڑے ہوئے ہیں ہر طرح مکمل میں مع دو سو اوقیہ چاندی پیش خدمت ہیں ۔ ان سے لشکر کی ضروریات مکمل فرمائیے “
ایک روایت میں ہے کہ تین سو اونٹ چہار بستہ مکمل اور ایک مثقال سونا لائے اور حضور اکرم کے آگے ڈال دیا۔ حضور اکرم نے فرمایا:۔
” اے اللہ تعالیٰ عثمان سے راضی ہو جائے بلاشبہ میں تو ان سے راضی ہو گیا “
ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ صحابہ میں سے ایک صحابی جن کا نام عتبہ بن زید تھا حضور صلى الله عليه وسلم کی بارگاہ میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں مال و زر تو رکھتا نہیں کہ راہ خدا میں پیش کر سکوں البتہ اپنی عزت و آبرو کو لوگوں پر حلال کرتا ہوں وہ جس طرح چاہیں میرے ساتھ پیش آئیں ان سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور جو خدمت چاہیں مجھ سے لیں اور جس طرح مدد چاہیں لیں انہیں معاف ہوگا ۔
فرمایا ” حق تعالیٰ نے تمہارے صدقہ کو قبول کر لیا “
حضور اکرم نے ان اموال کو ضرورت مندوں پر خرچ فرمایا تا کہ وہ اپنی تیاری کریں اور فرمایا بہت سی تعلین (جوتیاں) ساتھ لو کیونکہ جوتیاں پہننا سواری کا حکم رکھتا ہے مروی ہے کہ کچھ صحابہ کرام حاضر ہوئے جن کے نام سیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ انہوں نے عرض کیا ہم پا پیادہ ہیں سواری نہیں رکھتے ہمارے لئے سواری کا انتظام فرما دیجئے تا کہ سوار ہو کر جہاد میں شریک ہوں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تمہارے لئے سواری کی قسم میں سے کچھ موجود نہیں پاتا اور نہ اس وقت اتنا صدقہ کا مال ہے جس سے تمہاری ضرورت پوری ہو سکے۔ اس پر یہ ضرورت مند اصحاب مجلس مبارک سے غمگین ہو کر حسرت سے روتے ہوئے نکلے کیوں کہ وہ ایسی کوئی چیز نہ پاسکے جو خرچ کر سکتے ۔
اس جماعت کا نام ” گروہ بکائین “ ہوا۔
نیز مروی ہے کہ ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ مجھے میرے ساتھیوں نے یعنی اشعریوں نے رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا کہ میں ان کے لئے حضور سے سواری حاصل کروں ۔ میں حضور کی بارگاہ عالی میں آیا اور عرض کیا
” یا نبی اللہ! مجھے آپ نے یہ کی خدمت میں بھیجا گیا ہے کہ آپ ان کی سواری مرحمت فرمائیں۔“
حضور نے فرمایا "واللہ میں ان کی سواری کا انتظام نہیں کر سکتا “ اس پر میں حضور اکرم کے منع فرمانے سے غمزدہ ہو کر لوٹا اور یہ بھی خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں حضور اکرم میرے مانگنے پر دلگیر نہ ہوئے ہوں اور مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں۔ اس کے بعد میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور جو کچھ حضور اکرم نے جواب مرحمت فرمایا تھا ان سے بیان کیا۔ پھر زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اچانک میں نے حضرت بلال کو آواز دیتے سنا کہ عبداللہ بن قیس کہاں ہیں؟ یہ ابو موسی اشعری کا نام ہے میں نے جواب دیا کہ میں یہاں ہوں تو انہوں نے کہا کہ رسول خدا تمہیں بلا رہے ہیں۔
جب میں بارگاہ رسالت پناہ میں حاضر ہوا تو فرمایا لو یہ چھ اونٹ ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو سوار ہونے کے لئے دیدو۔ حضور اکرم نے ان اونٹوں کو حضرت سعد سے خرید فرمایا تھا حضرت ابو موسی فرماتے ہیں کہ میں نے وہ اونٹ اپنے ساتھیوں کو دیدئیے میں اپنی جگہ بے حد پیشمان اور شرمندہ تھا کہ میں نے اس کے لئے حضور اکرم کو پریشان کیا حضور اکرم نے عطا نہ فرمانے پر قسم یاد کی تھی۔
میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ نے تو عطا نہ فرمانے پر قسم یاد کی تھی اب آپ صلى الله عليه وسلم نے عطا فرما کر قسم کو توڑا ہے یہ کیا بات ہے؟ فرمایا " خدا نے تمہیں سوار کیا ہے اور اس کا مجھے حکم دیا ہے کہ میں جب کسی معاملہ میں قسم یاد کرلوں اور میں دیکھوں کہ قسم توڑنے میں بھلائی اور خیر ہے تو میں قسم کا کفارہ دیدوں “
چونکہ اس سفر میں محنت و مشقت اور سختیاں زیادہ تھیں منافقوں کی اس جماعت نے جن کو معذورین کہتے ہیں عذر ظاہر کئے تھے اور ایک جماعت نے بغیر عذر کے تخلف اختیار کیا اور بیٹھے رہے اور یہ دوسروں کو بھی ہوا کی سخت گرمی و مشقت وغیرہ سے خوف دلا کر روکتے رہے ان کا تذکرہ اور تفصیل سورۃ توبہ میں واقع ہوئی ہے۔ ان منافقوں میں ایک شخص جد بن قیس تھا اس نے آ کر کہا:
"یا رسول اللہ! مجھے مدینہ میں رہنے کی اجازت دیجئے۔“
اور نا معقول عذر پیش کیا کہ میں عورتوں کا دلدادہ ہوں جب میں بنی الا صفر کی عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہ ہو سکے گا اور میں فتنہ میں پڑ جاؤں گا۔ حضور اکرم نے فرمایا میں نے تجھے اجازت دی اور اپنا رخ انوار اس کی طرف سے پھیر لیا اور یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی۔
” ان میں سے کوئی تم سے یوں عرض کرتا ہے کہ مجھے رخصت دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالئے سن لو وہ فتنہ میں ہی پڑے اور بے شک جہنم گھیرے ہوئے ہےکافروں کو “
منافقوں کا ایک گروہ طمع غنیمت اور دنیاوی مال کی لالچ میں ہمراہ ہوا اور ان کی روانگی اور واپسی کے دوران حرکات شنیعہ اور کلمات ناپسندیدہ وجود میں آئے جب لشکر اسلام مرتب ہو گیا تو حکم ہوا کہ سب لوگ مدینہ طیبہ کے باہر " ثنیتہ الوداع “ میں جمع ہو گئے اور حضرت ابو بکر صدیق اس لشکر کے امیر ہوئے۔
عبد اللہ بن سلول منافق اپنے حلیفوں اور ساتھیوں کے ساتھ لشکر سے باہر نکلا اور ذباب کے مقابل ( جو ایک جگہ کا نام ہے ) علیحدہ ہو کر اس نے پڑاؤ کیا اور کہنے لگا کہ " محمد “ بنی الاصفر سے جنگ کرنے جا رہے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ جنگ کرنا آسان نہیں ہے۔ خدا کی قسم! میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے ساتھی و اصحاب، پابند طوق وسلاسل ہیں اور اطراف و اکناف عالم میں متفرق ہو گئے ہیں جب ان منافقوں کے لوٹنے کی خبر حضور اکرم کے پاس پہنچی تو فرمایا اگر اس میں کچھ ہوتا تو وہ ہم سے پیچھے نہ رہ جاتا اور فرمایا خدا کا شکر کرو کہ رسول الله کے غزوات شریروں کے شر سے نجات پاگئے ۔
بخاری و مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ نے مدینہ طیبہ سے تشریف لے جانے کا عزم فرمایا تو حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو اپنے اہل میں خلیفہ بنایا اس پر علی المرتضیٰ نے عرض کیا
” یا رسول اللہ میں کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا ہوں کیا وجہ ہے کہ اس مرتبہ حضورِ اکرم مجھے چھوڑے جارہے ہیں اور عرض کیا یا رسول الله! مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ رہے ہیں ؟ “
فرمایا ” اے علی! کیا تم اس سے راضی نہیں کہ تمہاری بمنزلہ ہارون کے جو موسیٰ سے نسبت ہے مجھے نسبت ہو لیکن فرق یہ ہے کہ ہارون نبی تھے اور میرے بعد کسی کو نبوت نہ ہوگی چونکہ موسیٰ نے میقات جاتے وقت اپنے بھائی ہارون علیہ اسلام کو اپنی قوم پر خلیفہ بنایا تھا “
جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا:
” اور جب کہا موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہ میری قوم میں خلیفہ بنو “
اس کے بعد حضور اکرم مدینہ طیبہ سے باہر تشریف لائے اور " ثنیتہ الوداع “ میں علم اور جھنڈوں کی ترتیب میں مشغول ہوئے اور بڑا علم حضرت ابو بکر صدیق کو دیا اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت زبیر بن العوام کو دیا۔ اسی طرح انصار کے ہر قبیلہ سے فرمایا کہ اپنا اپنا علم تیار کریں اور حضرت عمارہ ابن حذم ایک انصاری شخص تھے حضور اکرم نے پہلے انہیں علم عطا فرمایا اس کے بعد ان سے لے کر حضرت زید بن ثابت کو مرحمت فرما دیا۔
حضرت عمارہ نے عرض کیا ” یا رسول اللہ غالباً حضور مجھ سے ناراض ہو گئے ؟ “
حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ” نہیں ۔ خدا کی قسم لیکن قرآن والے کا حق مقدم ہے۔ کیوں کہ حضرت زید تم سے زیادہ قرآن کو سینہ میں لئے ہوئے ہیں اور قرآن ہی انسان کو مقدم کرنے والا ہے اگر چہ گوش برید و سیاہ فام غلام ہو “
جب اس مقام میں لشکر کا شمار کیا گیا تو ایک قول کے بموجب تیس ہزار کی تعداد شمار میں آئی جیسا کہ مذکور ہوا اور بعض نے ستر ہزار کہا ہے اور یہ بہت زیادہ مشہور روایت ہے اور ایک گروہ تو ایک لاکھ بتاتا ہے اور ایک روایت میں چالیس ہزار ہے اس لشکر میں دس ہزار گھوڑے سوار اور بارہ ہزار اونٹ سوار تھے ۔
حضرت خالد بن ولید کو مقدمہ پر حضرت طلحہ بن عبید اللہ کو میمنہ پر حضرت عبدالرحمن بن عوف و میسرہ پر مقرر فرمایا۔ اور جب ثینتہ الوداع سے لشکر نے کوچ کیا تو اس منزل میں بھی منافقوں کی ایک جماعت نے اختلاف کیا جب لشکر اسلام یہاں سے موضع جرف میں پہنچا تو عبد اللہ بن ابی ابن سلول منافق اپنے حلیفوں اور فرمانبرداروں کے ساتھ نکل آیا۔ اور لشکر اسلام قطع منازل اور طے مراحل کے بعد تبوک میں پہنچا تو وہاں دو ماہ ایک روایت میں ہے بارہ دن ایک روایت میں ہے بیس دن ٹھہرا رہا۔ تا کہ شب و روز مسافت کی کوفت سے آسودہ ہوجائیں۔
قیصر روم اور لشکر نصاری نے مسلمانوں کے شوکت کی خبر سنی اور مسلمانوں کے دین کی عزت اور سید عالم کی قوت اعجاز کا تصور کیا تو ان کے دلوں میں ایک خوف اور رعب طاری ہو گیا۔ اور ان کی طرف سے کوئی حرکت اور کوچ کرنا فاروق وجود میں نہ آیا۔
مواہب میں، صحیح بن حبان سے منقول ہے کہ حضور اکرم نے اس غزوے میں بھی ایک مکتوب گرامی ہرقل کے نام بھیجا اور اسے اسلام کی دعوت دی قریب تھا کہ وہ اسلام قبول کرلے مگر نہ کر سکا مسند امام احمد میں مروی ہے کہ ہرقل نے لکھا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
حضور نے فرمایا : ” جھوٹ کہتا ہے وہ دشمن خدا اپنی نصرانیت پر قائم و باقی ہے “
القصہ حضور اکرم نے ولایت شام جانے اور وہاں سے سربراہوں اور حاکموں کے ساتھ بات کرنے کے بارے میں اعیان انصار و مہاجرین سے مشورہ فرمایا اور ان صحابہ میں حضرت عمر بن الخطاب بھی تھے اور حضور کا یہ مشورہ فرمانا بحكم الہى وَشَاوِرُهُمْ فِي الْآمر کے تحت تھا۔
حضرت عمر فاروق نے عرض کیا ” یا رسول اللہ! اگر حضور تشریف لے جانے پر مامور ہیں تو تمام آپ کے ملازم رکاب فلک فرسا ہوں گے اور جہاں آپ توجہ فرمائیں گے اور قدوم اجلال فرمائیں گے ۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہوں گے ” حضور اکرم نے فرمایا اگر میں خدا کی جانب سے مامور ہوتا تو تم سب سے کیوں مشورہ کرتا۔
حضرت عمر رضی اللہ نے عرض کیا ” یا رسول اللہ شاہ روم کا شکر بہت بڑا اور بہت زیادہ ہے اور لشکر اسلام کی حالت سے حضور باخبر ہیں اور قیصر روم اپنے کئے کہے پر شرمندہ و پیشمان بھی ہو چکا ہے اور آپ کی ہیبت و شوکت کا غلغلہ ان شہروں میں خوب پھیل چکا ہے آپ کا خوف و رعب ان رومیوں کے دلوں پر غالب آچکا ہے اگر امسال لوٹ کر دوسرے سال قصد فرمائیں تو انسب و اولی ہو گا۔ اور حکم حضور ہی کا بلند و برتر ہے “
چونکہ فاروق اعظم کی رائے درست و صواب تھی حضور اکرم نے عنان مراجعت بجانب مستقر عزت و کرامت منعطف فرمائی منقول ہے کہ منزل تبوک کے قیام کے زمانہ میں بحیر بن رویہ جو ایلہ کا بادشاہ تھا بارگاہ سید عالم میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کیا باہمی مصالحت واقع ہوئی اور اسے ایک عہد نامہ میں لکھا گیا۔
ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الله مزنیہ قبیلہ کے باشندوں میں سے تھے اور وہ اپنے والد سے یتیم ہو گئے تھے۔ مسلمان ہونے سے پہلے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ اور ان کے چچا ان کی کفالت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ جوان ہوئے اور ان کے پاس کئی اونٹ و بکریاں اور غلام پیدا ہوئے۔ ان کے دل میں اسلام کی محبت مرکوز تھی اور ہمیشہ چاہتے تھے اسلام قبول کر کے مسلمانوں کے زمرہ میں داخل ہو جائیں لیکن اپنے چچا کے خوف سے ایمان نہ لا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا کہ رسول خدا فتح مکہ سے واپس آگئے ۔
اس وقت عبد الله نے اپنے چچا سے کہا:
” اے چچا ! میں ساری عمر تیرے اسلام لانے کا منتظر رہا مگر تیری طرف سے محمد کی متابعت کا شوق اور جذبہ نہیں پایا ۔ اب میں مزید اپنی عمر کا بھروسہ نہیں رکھتا مجھے اجازت دے کہ میں جا کر مسلمان ہو جاؤں؟ “
اس کے چانے کہا خدا کی قسم! اگر تو ایمان لے آیا اور محمد کی متابعت کی تو جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا ہے سب چھین لوں گا حتی کہ تمہارے جسم پر جو کپڑے ہیں انہیں بھی اتارلوں گا۔
حضرت عبد اللہ نے فرمایا ” خدا کی قسم! میں مسلمان ہوتا ہوں اور شرک و بت پرستی کو چھوڑتا ہوں اور میرے ہاتھ میں جو مال و اسباب ہے تو سب لے لو میں اس سے دست کش ہوتا ہوں آخری وقت میں تو ہر چیز یوں بھی چھوڑنی ہوگی میں اس کی خاطر دین حق سے باز نہیں آسکتا “
یہ کہہ کر سب کچھ چھوڑ دیا اور کپڑے اتار کے اپنی والدہ کے پاس گئے ان کی ماں نے جب یہ حال دیکھا تو کیفیت پوچھی انہوں نے فرمایا:
” میں بت پرستی اور دنیا طلبی سے بیزار ہوں میری تمنا ہے کہ میں حضور صلى الله عليه وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مومن و موحد ہو جاؤں “
مجھے کچھ کپڑا دو جس سے میں اپنا ستر چھپاؤں ماں نے انہیں چادر دی انہوں نے اس کے دو حصے کئے ایک حصہ کا تہبند اور دوسرے کی چادر بنائی ۔ اس سبب سے ان کا لقب "ذو البجادین“ ہوا۔ بجاد کے معنی گلیم درشت (موٹی چادر ) کے ہیں۔ اس کے بعد وہ بارگاہ محمد صلى الله عليه وسلم کی طرف چل دئیے۔
سحر کے وقت عبد الله مدینہ طیبہ پہنچے اور مسجد نبوی شریف میں ٹہرے جب حضور اکرم نماز کے لئے باہر تشریف لائے اور حضور کی نظر مبارک ان پر پڑی تو فرمایا : ” تم کون ہو ؟ “
انہوں نے کہا : "میں فقیر و مسافر آپ کا عاشق جمال ہوں میرا نام عبد اللہ العزی ہے “
حضور اکرم نے فرمایا : ” تمہارا نام عبد اللہ اور تمہارا لقب ذوالبجادین ہے ہمارے کاشانہ اقدس کے قریب ہمارے پاس رہو “
اس کے بعد حضرت عبد اللہ اصحاب صفہ کے درمیان جہاں حضور اکرم کے مہمان رہا کرتے تھے رہنے لگے ۔ اور حضور اکرم سے قرآن کریم یاد کیا کرتے تھے اس زمانہ میں صحابہ لشکر تبوک کی تیار یوں میں مشغول تھے اور وہ مسجد شریف میں ذوق وشوق کے ساتھ بلند آواز سے قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عمر نے عرض کیا:
” یا رسول اللہ آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ یہ اعرابی بلند آواز سے قرآن کریم پڑھتے ہیں ان کی بلند آوازی لوگوں کی نماز و قراءت میں مزاحم ہوتی ہے۔“
حضور اکرم نے فرمایا:
” اے عمر ان کو اپنے حال میں چھوڑ دو ۔ اس لئے کہ وہ نکالا ہوا اور خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے والا ہے ۔“
اس کے بعد حضرت عبداللہ حضور کی خدمت کرتے ہوئے تبوک تک پہنچ گئے اس مقام میں انہیں بخار آیا اور وفات پائی۔
حضرت بلال بن حارث مزنی فرماتے ہیں کہ رات کا وقت تھا جبکہ انہیں دفن کے لئے لے گئے میں نے دیکھا حضرت بلال موذن، ایک چراغ ہاتھ میں لئے ہیں اور سید عالم ان کی قبر کے اندر تشریف فرما ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق اور فاروق اعظم ان کو قبر میں اتار رہے ہیں اور حضور فرما رہے ہیں اپنے بھائی کو عزت کے ساتھ لاؤ۔
اس کے بعد حضور نے ان کے لیے دعا مانگی :
"اے خدا یہ میری خدمت میں دن رات رہا ہے، میں اس سے راضی ہوں اور تو بھی اس سے راضی ہو جا“
حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ کاش کہ میں اس صاحب لحد کی جگہ ہوتا۔
ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے نویں ہم نے اکیدر اور مصاد کے خون سے درگزر فرمایا اور ان پر جزیہ قائم کر دیا اور ان کے لئے امان نامہ تحریر فرما دیا بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ جب وہ مدینہ آئے تو اسلام لے آئے۔