غزوہ خندق, معركة الخندق، غزوہ احذاب (ذی قعد پانچ ہجری)
Ghazwa e Al Khandaq | Ghazwa e Ahzab | Marakah Al Khandaq | Battle of the Trench
غزوہ خندق یا معركة الخندق ۵ ہجری کی تمام لڑائیوں میں سب سے زیادہ مشہور اور فیصلہ کن جنگ ہے چونکہ دشمنوں سے حفاظت کے لئے شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی۔ اس لئے یہ لڑائی ” جنگ خندق ” کہلاتی ہے اور چونکہ تمام کفار عرب نے متحد ہو کر اسلام کے خلاف یہ جنگ کی تھی۔ اس لئے اس لڑائی کا دوسرا نام "جنگ احزاب” ( تمام جماعتوں کی متحدہ جنگ) ہے۔ قرآن مجید میں اس لڑائی کا تذکرہ اسی نام کے ساتھ آیا ہے۔
” قبیلہ بنو نضیر ” کے یہودی جب مدینہ سے نکال دیئے گئے تو ان میں سے یہودیوں کے چند رؤسا ” خیبر ” میں جا کر آباد ہو گئے اور خیبر کے یہودیوں نے ان لوگوں کا اتنا اعزاز و اکرام کیا کہ سلام بن الحقیق، وحی بن اخطب و کنانہ بن الربيع کو اپنا سردار مان لیا۔ یہ لوگ چونکہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب میں بھرے ہوئے تھے اور انتقام کی آگ ان کے سینوں میں دہک رہی تھی۔ اس لئے ان لوگوں نے مدینہ پر ایک زبر دست حملہ کی اسکیم بنائی۔ چنانچہ یہ تینوں اس مقصد کے پیش نظر مکہ گئے اور کفار قریش سے مل کر یہ کہا کہ اگر تم لوگ ہمارا ساتھ دو تو ہم لوگ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ کفار قریش تو اس کے بھوکے ہی تھے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی۔
کفار قریش سے ساز باز کر لینے کے بعد ان تینوں یہودیوں نے “ قبیلہ بنو غطفان “ کا رخ کیا اور خیبر کی آدھی آمدنی دینے کا لالچ دے کر ان لوگوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیا پھر بنو غطفان نے اپنے حلیف ” بنو اسد ” کو بھی جنگ کے لئے تیار کر لیا۔ ادھر یہودیوں نے اپنے حلیف قبیلہ بنو اسد کو بھی اپنا ، ہمنوا بنا لیا اور کفار قریش نے اپنی رشتہ داریوں کی بنا پر ” قبیلہ بنوسلیم” کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا غرض اس طرح تمام قبائل عرب کے کفار نے مل جل کر ایک لشکر جرار تیار کر لیا۔ جس کی تعداد دس ہزار تھی اور ابوسفیان اس پورے لشکر کا سپہ سالار بن گیا۔
جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضور اقدس نے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی نے یہ رائے دی کہ جنگ احد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ و میدانی لڑائی میں لڑنا مصلحت کے خلاف ہے۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بہ یک وقت حملہ آور نہ ہو سکے۔ مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات، تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے۔ اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا۔ مدینہ کا صرف ایک رخ کھلا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اس طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے۔ چنانچہ ۸ ذو قعدہ ۵ ھ کو حضور تین ہزار صحابہ کرام کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے ۔
حضور نے خود اپنے دست مبارک سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرمادی اور تقریبا بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ حضور خندق کے پاس تشریف لائے اور جب یہ دیکھا کہ انصار و مہاجرین کڑ کڑاتے ہوئے جاڑے کے موسم میں صبح کے وقت کئی کئی فاقوں کے باوجود جوش و خروش کے ساتھ خندق کھودنے میں مشغول ہیں تو انتہائی متاثر ہو کر آپ نے یہ رجز پڑھنا شروع کر دیا۔
ترجمہ: "اے الله! بلا شبہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ لہذا تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔“
اس کے جواب میں انصار و مہاجرین نے آواز ملا کر یہ پڑھنا شروع کر
ترجمہ : ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جہاد پر حضرت محمد کی بیعت کرلی ہے۔ جب تک ہم زندہ رہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے "
حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ حضور تم خود بھی خندق کھودتے اور مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے شکم مبارک پر غبار کی تہ جم گئی تھی اور مٹی اٹھاتے ہوئے صحابہ کو جوش دلانے کے لئے رجز کے اشعار پڑھتے تھے کہ ۔
ترجمہ: ” الله کی قسم! اگر الله کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ یتے ، نہ نماز پڑھتے لہذا اے الله! تم ہم پر قلبی اطمینان اتار دے۔ جنگ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ ۔ یقیناً ان (کافروں) نے ہم پر ظلم کیا ہے اور جب بھی لوگوں نے فتنہ کا ارادہ کیا تو ہم لوگوں نے انکار کر دیا لفظ ” ابینا ” حضور بار بار یہ تکرار بلند آواز سے دہراتے تھے ”
حضرت جابر نے بیان فرمایا کہ خندق کھودتے وقت ناگہاں ایک ایسی چٹان نمودار ہو گئی جو کسی سے بھی نہیں ٹوٹی۔ جب ہم نے بارگاہ رسالت یہ ماجرا عرض کیا تو آپ اٹھے۔ تین دن کا فاقہ تھا اور شکم مبارک پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے پھاوڑا مارا تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے پہلے کی طرح بکھر گئی۔
اور ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے اس چٹان پر تین مرتبہ پھاوڑا مارا۔ ہر ضرب پر اس میں سے ایک روشنی نکلتی تھی اور اس روشنی میں آپ نے شام و ایران اور یمن کے شہروں کو دیکھ لیا اور تینوں ملکوں کے فتح ہونے کی صحابہ کرام کو بشارت دی ۔
اور نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ نے مدائن کسری و مدائن قیصر و مدائن حبشہ کی فتوحات کا اعلان فرمایا۔
حضور اقدس تم نے خندق تیار ہو جانے کے بعد عورتوں اور بچوں کو مدینہ کے محفوظ قلعوں میں جمع فرما دیا اور مدینہ پر حضرت ابن ام مکتوم کو اپنا خلیفہ بنا کر تین ہزار انصار و مہاجرین کی فوج کے ساتھ مدینہ سے نکل کر سلع پہاڑی کے دامن میں ٹھہرے سلع آپ کی پشت پر تھا اور آپ کے سامنے خندق تھی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ کے ہاتھ میں تھا اور انصار کا علم بردار حضرت سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھا۔
کفار قریش اور ان کے اتحادیوں نے دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر ہلہ بول دیا اور تین طرف سے کافروں کا لشکر اس زور و شور کے ساتھ مدینہ پر امنڈ پڑا کہ شہر کی فضاؤں میں گردو غبار کا طوفان اٹھ گیا۔ منافقین جو مسلمانوں کے دوش بدوش کھڑے تھے۔ وہ کفار کے اس لشکر کو دیکھتے ہی بزدل ہو کر پھسل گئے اور اس وقت ان کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔
چنانچہ ان لوگوں نے حضور اکرم سے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگنی شروع کردی لیکن اسلام کے سچے جاں نثار مہاجرین و انصار نے جب لشکر کفار کی طوفانی یلغار کو دیکھا تو اس طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے کہ “ سلع “ اور ” احد ” کی پہاڑیاں سر اٹھا اٹھا کر ان مجاہدین کی اولوالعزمی کو حیرت سے دیکھنے لگیں۔
قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی اب تک غیر جانب دار تھے لیکن بنو نضیر کے یہودیوں نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا کر لشکر کفار میں شامل کر لینے کی کوشش شروع کر دی۔ چنانچہ حی بن اخطب ابو سفیان کے مشورہ سے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ پہلے تو اس نے اپنا دروازہ نہیں کھولا اور کہا کہ ہم محمد کے حلیف ہیں اور ہم نے ان کو ہمیشہ اپنے عہد کا پابند پایا ہے۔ اس لئے ہم ان سے عہد شکنی کرنا خلاف مروت سمجھتے ہیں۔ مگر بنو نضیر کے یہودیوں نے اس قدر شدید اصرار کیا اور طرح طرح سے ورغلایا کہ بالآخر کعب بن اسعد معاہده توڑنے کے لئے راضی ہو گیا۔ بنو قریظہ نے جب معاہدہ توڑ دیا اور کفار سے مل گئے تو کفار مکہ اور ابوسفیان خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔
حضور اکرم کو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کو تحقیق حال کے لئے بنو قریظہ کے پاس بھیجا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ جب ان دونوں معزز صحابیوں نے بنو قریظہ کو ان کا معاہدہ یاد دلایا تو ان بدذات یہودیوں نے انتہائی بے حیائی کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ محمد کون ہیں؟ اور معاہدہ کس کو کہتے ہیں؟ ہمارا کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ سن کر دونوں حضرات واپس آگئے اور صورت حال سے حضور کو مطلع کیا تو آپ نے بلند آواز سے “ الله اکبر “ کہا اور فرمایا کہ مسلمانو، تم اس سے نہ گھبراؤ۔ نہ اس کا غم کرو۔ اس میں تمہارے لئے بشارت ہے۔
کفار کا لشکر جب آگے بڑھا تو سامنے خندق دیکھ کر ٹھہر گیا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً ایک مہینے تک کفار شہر مدینہ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے پڑے رہے اور یہ محاصرہ اس سختی کے ساتھ قائم رہا کہ حضور نے صلى الله عليه وسلم اور صحابہ پر کئی کئی فاقے گزر گئے۔ کفار نے ایک طرف تو خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس لئے حملہ کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی عورتیں اور بچے قلعوں میں پناہ گزین تھے۔ مگر حضور نے جہاں خندق کے مختلف حصوں پر صحابہ کرام کو مقرر فرما دیا تھا کہ وہ کفار کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہیں۔ اسی طرح عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے کچھ صحابہ کرام کو متعین کر دیا تھا۔
محاصرہ کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی دیکھ کر حضور نے خیال کیا کہ کہیں مہاجرین و انصار ہمت نہ ہار جائیں اس لئے آپ نے ارادہ فرمایا کہ قبیلہ غطفان کے سردار عینیہ بن حصن سے اس شرط پر معاہدہ کرلیں کہ وہ مدینہ کی ایک تہائی پیداوار لے لیا کرے اور کفار مکہ کا ساتھ چھوڑ دے۔ مگر جب آپ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے عرض کیا یا رسول الله اگر اس بارے میں الله تعالیٰ کی طرف سے وحی اتر چکی ہے جب تو ہمیں اس سے انکار کی مجال ہی نہیں ہو سکتی اور اگر یہ ایک رائے ہے تو یا رسول الله جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت تو قبیلہ غطفان کے سرکش کبھی ہماری ایک کھجور نہ لے سکے اور اب جب کہ الله تعالیٰ نے ہم لوگوں کو اسلام اور آپ کی غلامی کی عزت سے سرفراز فرما دیا ہے تو بھلا کیوں کر ممکن ہے کہ ہم اپنا مال ان کافروں کو دے دیں گے؟
ہم ان کفار کو کھجوروں کا انبار نہیں۔ بلکہ نیزوں اور تلواروں کی مار کا تحفہ دیتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ الله تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ یہ سن کر حضور خوش ہو گئے اور آپ کو پورا پورا اطمینان ہو گیا۔
خندق کی وجہ سے دست بدست لڑائی نہیں ہو سکتی تھی اور کفار حیران تھے کہ اس خندق کو کیونکر پار کریں۔ مگر دونوں طرف سے روزانہ برابر تیر اور پتھر چلا کرتے تھے۔ آخر ایک روز عمر بن عبدود و عکرمہ بن ابو جہل و ہیره بن وہب و ضرار بن الخطاب وغیرہ کفار کے چند بہادروں نے بنو کنانہ سے کہا کہ اٹھو۔ آج مسلمانوں سے جنگ کر کے بتا دو کہ شہسوار کون ہے؟ چنانچہ یہ سب خندق کے پاس آگئے اور ایک ایسی جگہ سے جہاں خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی گھوڑا کود کر خندق کو پار کر لیا۔
سب سے آگے عمرو بن عبدود تھا۔ یہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بڈھا تھا۔ مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھا۔ جنگ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا۔ تین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ حضرت علی المرتضی شیر خدا نے اٹھ کر جواب دیا کہ ”میں“ حضور نے روکا کہ اے علی، یہ عمرو بن عبدود ہے ۔ حضرت علی المرتضی نے عرض کیا کہ جی ہاں، میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے۔ لیکن میں اس سے لڑوں گا۔ یہ سن کر تاجدار نبوت نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرار کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھا اور یہ دعا فرمائی کہ یا الله! تو علی کی مدد فرما۔
حضرت علی المرتضی اور عمرو بن عبدود کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ان جملوں کو سن کر عمرو بن عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیا۔ حضرت علی المرتضی پیدل تھے اور یہ سوار تھا۔ اس پر جو غیرت سوار ہوئی تو گھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اور حضرت علی المرتضی پر تلوار کا بھرپور وار کیا ۔ حضرت علی المرتضی نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا۔
یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی۔ گو بہت گہرا زخم نہیں لگا مگر پھر بھی زندگی بھر یہ طغری آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیا۔ حضرت علی شیر خدا نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو! سنبھل جا۔ اب میری باری ہے۔ یہ کہہ کر اسد الله الغالب نے ذوالفقار کا ایسا جچا تلا ہاتھ مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی اور وہ تلملا کر زمین پر گرا اور دم زدن میں مرکر فی النار ہو گیا اور میدان کار زار زبان حال سے پکار اٹھا کہ ؎
شاہ مرداں، شیر یزداں قوت پروردگار
لأفتى الأعلى لأ سَيْفَ إِلا ذُو الْفِقَارِ
حضرت علی نے اس کو قتل کیا اور منہ پھیر کر چل دیئے۔ حضرت عمر نے کہا کہ اے علی! آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں کہ اتار لی۔ سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی ذرہ نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمر! ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی الله شرمگاہ کھل گئی۔ اس لئے حیا کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔
اس کے بعد نوفل غصہ میں بپھرا ہوا میدان میں نکلا اور پکارنے لگا کہ کیا میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے؟ حضرت زبیر بن العوام اس پر بجلی کی طرح جھپٹے اور ایسی تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار زمین کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی کمر تک پہنچ گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اے زبیر! تمہاری تلوار کی تو مثال نہیں مل سکتی ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ تلوار کیا چیز ہے؟ کلائی میں دم خم اور ضرب میں کمال چاہئے ۔ ہیرہ اور ضرار بھی بڑے طنطنہ سے آگے بڑھے مگر جب ذوالفقار کا وار دیکھا تو لرزہ براندام ہو کر فرار ہو گئے۔ کفار کے باقی شہوار بھی جو خندق کو پار کر کے آگئے تھے وہ سب بھی بھاگ کھڑے ہوئے اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ تو اس قدر بدحواس ہو گیا کہ اپنا نیزہ پھینک کر بھاگا اور خندق کے پار جا کر اس کو قرار آیا۔
بعض مورخین کا قول ہے کہ نوفل کو حضرت علی بیانیہ نے قتل کیا اور بعض نے یہ کہا کہ نوفل حضور پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے گھوڑے کو کودا کر خندق کو پار کرنا چاہتا تھا کہ خود ہی خندق میں گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا۔ بہرحال کفار مکہ نے دس ہزار درہم میں اس کی لاش کو لینا چاہا تا کہ وہ اس کو اعزاز کے ساتھ دفن کریں۔ حضور نے پیام نے رقم لینے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم کو اس لاش سے کوئی غرض نہیں۔ مشرکین اس کو لے جائیں اور دفن کریں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اس دن کا حملہ بہت ہی سخت تھا۔ دن بھر لڑائی جاری رہی اور دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کا سلسلہ برابر جاری رہا اور کسی مجاہد کا اپنی جگہ سے ہٹانا ناممکن تھا۔ خالد بن ولید نے اپنی فوج کے ساتھ ایک جگہ سے خندق کو پار کر لیا اور بالکل ہی نا گہاں حضور کے خیمہ اقدس پر حملہ آور ہو گیا مگر حضرت اسید بن حفیر نے اس کو دیکھ لیا اور دو سومجاہدین کو ساتھ لے کر دوڑ پڑے اور خوب جم کر لڑے۔ اس لئے کفار خیمہ اطہر تک نہ پہنچ سکے۔
اس گھمسان کی لڑائی میں حضورکی نماز عصر قضا ہو گئی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر جنگ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول الله! میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا تو حضور نے فرمایا کہ میں نے بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی ہے پھر آپ نے وادی بطحان میں سورج غروب ہو جانے کے بعد نماز عصر قضا پڑھی۔ پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی اور کفار کے حق میں دعا مانگی:
حضور صلى الله عليه وسلم نے جنگ خندق کے موقع پر جب کہ کفار مدینہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور کسی کے لئے شہر سے باہر نکلنا دشوار تھا تین دفعہ ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو قوم کفار کی خبر لائے؟ تینوں مرتبہ زبیر بن العوام نے جو حضور نے ایم کی پھوپھی حضرت صفیہ کے فرزند ہیں یہ کہا کہ ” میں یا رسول الله خبر لاؤں گا “ حضرت زبیر کی اس جان نثاری سے خوش ہو کر تاجدار عالم نے فرمایا ” ہر نبی کیلئے حواری ( مدد گار خاص ) ہوتے ہیں اور میرا "حواری” زبیر ہے ” اسی طرح حضرت زبیر علی الله کو بارگاہ رسالت سے ” حواری“ کا خطاب ملا جو زبیر کسی دوسرے صحابی کو نہیں ملا۔
اس جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان بہت ہی کم ہوا۔ یعنی کل چھ مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے مگر انصار کا سب سے بڑا بازو ٹوٹ گیا۔ یعنی حضرت سعد بن معاذ جو قبیلہ اوس کے سردار اعظم تھے۔ اس جنگ میں ایک تیر سے زخمی ہو گئے اور پھر شفا یاب نہ ہو سکے۔
آپ کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی ذرہ پہنے ہوئے جوش میں بھرے ہوئے نیزہ لے کر لڑنے کے لئے جارہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا کہ جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام اکحل ہے وہ کٹ گئی جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے لئے حضور نے مسجد نبوی میں ایک خیمہ گاڑا اور ان کا علاج کرنا شروع کیا۔ خود اپنے دستِ مبارک سے ان کے زخم کو دو مرتبہ داغا اور ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھا۔
لیکن انہوں نے شوق شہادت میں الله تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ ” یا الله! تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے جنگ کرنے کی مجھے اتنی زیادہ تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے۔ جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا۔ اے الله! میرا تو یہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہو۔ جب تو مجھے زندہ رکھتا کہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جہاد کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو میرے اس زخم کو تو پھاڑ دے اور اس زخم میں تو مجھے موت عطا فرمادے ”
آپ کی ان کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیا اور خون بہ کر مسجد نبوی کے اندر بنی غفار کے خیمہ میں پہنچ گیا۔ ان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو! یہ کیسا خون ہے جو تمہارے خیمہ سے بہہ کر ہماری طرف آرہا ہے؟ جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ ہی ان کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ اسی زخم میں ان کی وفات ہوگئی۔
حضور اقدس نے فرمایا کہ سعد بن معاذ کی موت سے عرش الہی ہل گیا اور ان کے جنازہ میں ستر ہزار ملائکہ حاضر ہوئے اور جب ان کی قبر کھودی گئی تو اس میں مشک کی خوشبو آنے لگی۔
عین وفات کے وقت حضور انور ان کے سرہانے تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آنکھ کھول کر آخری بار جمال نبوت کا نظارہ کیا اور کہا کہ السّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُول الله – پھر با آواز بلند یہ کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ الله کے رسول ہیں اور آپ نے تبلیغ رسالت کا حق ادا کر دیا۔
جنگ خندق میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ جب یہودیوں نے یہ دیکھا کہ ساری مسلمان فوج خندق کی طرف مصروف جنگ ہے تو جس قلعہ میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے پناہ گزین تھے۔ یہودیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیا اور ایک یہودی دروازہ تک پہنچ گیا۔ حضورکی پھوپھی حضرت صفیہ نے اس کو دیکھ لیا اور حضرت حسان بن ثابت سے کہا کہ تم اس یہودی کو قتل کردو۔ ورنہ یہ جا کر دشمنوں کو یہاں کا حال و ماحول بتا دے گا۔ حضرت حسان کی اس وقت ہمت نہیں پڑی کہ اس یہودی پر حملہ کریں۔ یہ دیکھ کر خود حضرت صفیہ نے خیمہ کی ایک چوب اکھاڑی اس یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ پھر خود ہی اس کا سر کاٹ کر قلعہ کے باہر پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر حملہ آور یہودیوں کو یقین ہو گیا کہ قلعہ کے اندر بھی کچھ فوج موجود ہے۔ اس ڈر سے انہوں نے پھر اس طرف حملہ کرنے کی جرات ہی نہیں کی۔
حضرت نعیم بن مسعود اشجعی قبیلہ غطفان کے بہت ہی معزز سردار تھے اور قریش و یہود دونوں کو ان کی ذات پر پورا پورا اعتماد تھا۔ یہ مسلمان ہو چکے تھے لیکن کفار کو ان کے اسلام کا علم نہ تھا۔ انہوں نے بارگاہ رسالت میں یہ درخواست کی کہ یا رسول الله اگر آپ نے تم مجھے اجازت دیں تو میں یہودیوں اور قریش دونوں سے ایسی گفتگو کروں کہ دونوں میں پھوٹ پڑ جائے ۔ آپ نے اس کی اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے یہود اور قریش سے الگ الگ کچھ اس قسم کی باتیں کیں جس سے واقعی دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔
ابوسفیان شدید سردی کے موسم، طویل محاصرہ، فوج کا راشن ختم ہو جانے سے حیران و پریشان تھا۔ جب اس کو یہ پتا چلا کہ یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور وہ بالکل ہی بد دل ہو گیا۔ پھر نا گہاں کفار کے لشکر پر قہر و قہار و غضب جبار کی ایسی مار پڑی کہ اچانک مشرق کی جانب سے ایسی طوفان خیز آندھی آئی کہ دیگیں چولھوں پر سے الٹ پلٹ ہوگئیں۔
خیمے اکھڑ اکھڑ کر اڑ گئے اور کافروں پر ایسی وحشت سوار ہوگئی کہ انہیں راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں رہا۔ ابو سفیان نے اپنی فوج میں اعلان کر دیا کہ راشن ختم ہو چکا۔ موسم انتہائی خراب ہے۔ یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ لہذا اب محاصرہ بے کار ہے۔ یہ کہہ کر کوچ کا نقارہ بجا دینے کا حکم دے دیا اور بھاگ نکا قبیلہ غطفان کا لشکر بھی چل دیا۔ بنو قریظہ بھی محاصرہ چھوڑ کر اپنے قلعوں میں چلے آئے اور ان لوگوں کے بھاگ جانے سے مدینہ کا مطلع کفار کے گرد و غبار سے صاف ہو گیا۔