غزوہ بنو نضیر (ربیع الاول ۴ ہجری)
Ghazwa e Banu Nazeer | Invasion of Banu Nadir | Battle of Bani Nazir
حضور اکرم نے ان اکابر صحابہ کرام مثلاً حضرت ابو بکر، عمر، علی، طلحہ اور زبیر وغیرہ مہاجرین میں سے اور حضرت سعد بن معاذ ، اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ وغیرہ انصاری میں سے کے ساتھ بنی نضیر یہودیوں کی بستی کی طرف تشریف لائے۔ بنی نضیر ( بفتح نون و کسر ضاد ) یہودی قبیلوں میں سب سے بڑا قبیلہ تھا۔ اس قضیہ کا وقوع چوتھے سال میں بیر معونہ کے بعد ہوا۔ جیسا کہ اسے ابن اسحاق نے بیان کیا ہے ۔ جب رسول کریم ان تمام صحابہ کبار کے ساتھ یہودیوں کی بستی میں پہنچے تو یہودیوں نے کہا اے ابو القاسم! کچھ دیر تشریف رکھے تا کہ ہمیں آپ کی اور آپ کے صحابہ کی مہمان نوازی کا موقعہ ملے ۔
یہودی حضور کو پہلے سے ہی آپ کی کنیت ابو القاسم سے مخاطب کرتے تھے تاکہ لازم نہ آئے جو آپ کا اسم شریف محمد ان کی کتابوں اور صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور اس کے ملزم نہیں اس کے بعد حضور ان کے گھر کی دیوار سے پشت کی ٹیک لگا کر تشریف فرما ہو گئے پھر یحیی بن اخطب یہودی جو کہ حضور کا شدید ترین دشمن تھا یہود سے کہنے لگا اے گروہ یہود ایسا اتفاق کبھی ہاتھ نہ آئے گا کہ ہمارے اور محمد کے درمیان ایسی تنہائی ہو۔ کوئی ایسا نہیں ہے کہ وہ گھر کے اوپر جا کر بڑا سا پتھر آپ کے سر مبارک پر گرائے اور اس سے (معاذ الله ) آپ کو ہلاک کرے ، تاکہ ہم آپ کی زحمت سے نجات پائیں۔
عمرو بن حجاش ( بضم جیم و تخفیف حاء ) نے کہا میں اس کو سر انجام دوں گا سلام بن اشکم اور کچھ اور لوگوں نے اس کو اس خیال بد سے منع کیا اور کہا فوراً ہی آپ کو آسمان سے تمہارے ارادے کی خبر دیدی جائے گی اور یہ ہمارے اور ان کے مکرو فریب سے آگاہ کیا۔ حضور بغیر اس کے کہ اپنے صحابہ سے کچھ فرمائیں اس طرح جیسے کسی شدید ضرورت سے اٹھتا ہے کھڑے ہو گئے اور مدینہ منورہ کی طرف چل دیے صحابہ نے جب یہ دیکھا کہ حضور کی واپسی میں دیر ہو گئی تو وہ بھی آپ کے عقب میں چل دیے ۔ اور حضور کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ حضور نے ان کو حقیقت حال سے باخبر فرمایا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے نزول کا سبب یہی واقعہ ہے۔
"اے ایمان والو! یاد کرو الله کی اس نعمت کو جو تم پر ہوئی کہ جب قوم نے ارادہ کیا کہ دست درازی کرے تو اللہ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا”
جب یہود کو حضور کے تشریف لے جانے کی خبر ہوئی تو کنانہ نے جو ان کے احبار و علماء میں سے تھا ان سے کہا اے میری قوم میں جانتا ہوں کہ الله تعالی نے محمدکو تمہاری غداری سے خبر دار کر دیا ہے ۔ اے قوم تم خود کو فریب نہ دو کیوں کہ وہ الله کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور تم طمع رکھتے ہو ؟ کہ وہ خاتم الانبیاء حضرت ہارون کی نسل سے ہوں گے حالانکہ حق تعالی اس نعمت سے جسے چاہے نوازے اور اس سعادت سے جس کو چاہے سرفراز فرمائے ہم نے توریت میں نبی آخر الزماں کے جو صفات پڑھے میں وہ سب حضور کی ذات شریف میں موجود ہیں ۔
مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ وہ تمہیں جلا وطنی کا حکم فرمائیں گے اب مناسب یہی ہے کہ تم دو کاموں میں سے ایک کام کرو۔ سب سے بہتر و افضل تو یہ ہے کہ تم سب محمد پر ایمان لے آؤ کیوں کہ اس میں دنیا و آخرت کی صلاح ہے اور ان شہروں سے باہر نہ نکلو یا جزیہ وینا مان لو تا کہ تمہارے جان و مال محفوظ رہیں۔ یہود نے کہا ہم جلا وطنی کو قبول کرتے ہیں لیکن موسیٰ علیہ السلام کے دین کو ترک کرنا گوارا نہیں۔
حضور اکرم سے وہ اور بنی نضیر کے یہودیوں کے درمیان عہد و پیمان تھا۔ بدر میں جب مسلمانوں کو فتح ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ توریت میں جس نبی کا وعدہ کیا گیا ہے یہ وہی نبی ہیں۔ اور جب روز احد مسلمانوں پر ہزیمت کی شکل بنی تو وہ شک میں پڑ گئے۔ اور انہوں نے ابوسفیان کے ساتھ حلف کیا ، یعنی ان کے حلیف بن گئے۔ اس کے بعد حضور نے حضرت محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس بھیجا کہ تم سب میرے شہروں سے نکل جاؤ اس لئے کہ تم نے غداری کی ہے۔ تمہیں دس دن کی مہلت ہے جو کوئی دس دن کے بعد یہاں پایا جائے گا۔ اس کی گردن اڑا ہی جائے گی۔
اس پر یہودیوں نے جلاوطنی کی تیاری شروع کر دی صحرا سے اپنے اونٹوں کو لائے اور کچھ کرایے پر لے لئے تا کہ یہاں سے چلے جائیں۔ یکایک عبد الله بن سلول منافق ، جو رئیس المنافقین تھا اس نے بنی نضیر کے پاس کسی کو بھیجا اور کہلوایا کہ تم اپنے وطنوں سے نہ نکلو اور اپنے قلعوں میں ٹھہرے رہو اور بے فکر و بے غم بیٹھے رہو۔ میں دو ہزار آزمودہ کار جنگی جوانوں کے ساتھ تمہارا پشت پناہ ہوں اور بنی قریظہ اپنے حلیفوں کے ساتھ جو کہ بنی عطفان ہیں تمہارے معاون و مددگار ہوں گے ۔ یہ منافق نادان، بمقتضائے نفاق انتہائی عداوت و حماقت پر اتر آیا ۔ اور اس نے اپنی حماقت سے ایسی عداوت کا اظہار کیا۔ حالانکہ وہ اتنا نہ سمجھا کہ قریش کس قدر بہادر و شجاع ہیں ۔
وہ بے بس ہو کے رہ گئے ۔ ان کے قلعوں کی کیا حقیقت ہے ۔ بہرحال یہود بے بہبود اس احمق منافق کی بات سے مغرور و مسرور ہو گئے اور حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی بارگاہ میں قاصد بھیج دیا کہ ہم از خود اپنے گھروں سے نہ نکلیں گے جو آپ چاہیں کریں جب یہ بات حضور سے صلى الله عليه وسلم کی سماع مبارک میں پہنچی تو بآواز بلند تکبیر کہی اور صحابہ نے بھی حضور کی موافقت میں تکبیر بلند کی اور حضور اکرم کے ارشاد سے غزوہ کی تیاری میں مشغول ہو گئے ۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں حضرت ابن ام مکتوم کو خلیفہ مقرر فرمایا اور علم تیار کر کے حضرت علی المرتضی کے سپرد فرمایا اور مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے آئے۔
آپ نے عصر کی نماز بنی نضیر کی بستی کے میدان میں ادا فرمائی۔ ان کی بستی مدینہ منورہ سے قریب ہے جب یہود نے لشکر اسلام دیکھا تو قلعوں کے دروازے بند کر کے سنگ باری اور تیر اندازی شروع کر دی ۔ عشاء کے وقت تک یوں ہی جنگ ہوتی رہی۔ جب مسلمانوں نے نماز عشاء ادا کر لی تو حضور چند اصحاب کے ساتھ قیام گاہ مبارک میں تشریف لے آئے اور تمام صحابہ کو حضرت ابو بکر صدیق یا حضرت علی مرتضی کی سرداری میں دے دیا دونوں روایتوں میں اختلاف ہے کہ صبح تک یہودیوں کا محاصرہ کئے رہے۔
ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے ان کا خیمہ مبارک بنی حطمہ کے میدان میں نصب کیا گیا تھا۔ یہودیوں کے تیر اندازوں میں ایک شخص "غرورا” نامی تیر انداز تھا اس نے ایسا تیر پھینکا جو حضور کے خیمہ اقدس میں جا کر گرا۔ خیمہ کو وہاں سے لیجا کر دوسری جگہ نصب کیا۔ امیر المومنین سید نا علی مرتضی اس کی گھات میں رہے ۔ اچانک دیکھا کہ وہ چند آدمیوں کے ساتھ برہنہ شمشیر لئے باہر آیا۔ حضرت علی مرتضی نے اس پر حملہ کیا اور اس بدبخت کے نہیں سر کو اس کے ناپاک جسم سے جدا کر کے حضور کی خدمت میں لے آئے حضور نے حضرت سہیل اور ابو دجانہ کو کہا کہ بقیہ ساتھیوں کو بھی قتل کریں ۔
وہ سب کے سر کاٹ کر حضور کی خدمت میں لے آئے ۔ پاک۔ حضور نے پندرہ دن تک یہودیوں کا محاصرہ جاری رکھا۔ ابی ابن سلول منافق اور دیگر قبائل بنی نضیر کی کوئی مدد نہ کر سکے اس کے بعد حضور نے ابو بلوہ مازنی اور عبد الله بن سلام کو حکم فرمایا کہ یہودیوں کی کھجوروں کے درخت کاٹ ڈالے جائیں ایک روایت میں ہے کہ جلا دئیے جائیں ۔ اس پر ابو بلوہ مازنی تو ان کو کاٹتے تھے جنہیں ” عجوہ ” کہا جاتا ہے اور کہتے ان کا کاٹنا یہودیوں پر نہایت شاق اور گراں ہے عجوہ کھجوروں میں سب سے بہتر قسم کی کھجور ہے اور حضرت عبد الله بن سلام کمتر قسم کی کھجوروں کے درخت کو کاٹتے تھے ۔ وہ فرماتے مجھے معلوم ہے کہ عنقریب یہودیوں کے تمام املاک مسلمانوں کے تصرف میں آنے والے ہیں ۔ لہذا ان میں جو بہتر قسم ہے وہ مسلمانوں کے لئے رہنے دیتا ہوں۔
روضتہ الاحباب میں اس طرح منقول ہے کہ حضور اکرم نے یہودیوں کے تمام درختوں کو کاٹنے کا حکم فرمایا بجز اس قسم کے درخت کے جن کو "عجوہ” کہتے ہیں صحابہ ان درختوں کے کاٹنے میں مشغول ہو گئے۔ یہ روایت پہلی روایت کے منافی و مخالف ہے کیوں کہ اس روایت میں بظاہر حضور کا حکم مطلق کاٹنے یا جلانے کے لئے ہے اور دوسری روایت میں یہ حکم ہے مگر یہ صورت ممکن ہے کہ حضور نے پہلے وہ حکم دیا ہو اس کے بعد دوسری مرتبہ یہ حکم دیا ہو۔ ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ بنی نضیر نے مسلمانوں سے کہا تم مسلمان ہو تمہیں حلال نہیں ہے کہ نخلستان کو کاٹو۔ کیوں کہ محمد فساد سے منع فرماتے ہیں۔
لہذا نخلستان کو کاٹنے کا کیسے حکم دے سکتے ہیں ۔ اس پر مسلمانوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ بعض نے کہا ہم تو کاٹیں گے اور بعض نے کہا ہم نہیں کاٹیں گے اور اس پر حکم ہوا کہ یہودیوں کے تمام آثار و نشانات کو نا پید کر دو ۔
"حق تبارک و تعالیٰ کی جناب سے حکم آیا اور جولینت سے کاٹتے ہو اور چھوڑتے ہو تم ان کو وہ جڑوں پر قائم رہیں تو یہ الله کے حکم سے ہے تاکہ فاسقوں کو گئے رسوا کرے“
حق تعالیٰ نے بنی نضیر کے دل میں ایک خوت ہیبت اور رعب طاری کر دیا انہوں نے کسی کو حضور کی بارگاہ عالی میں بھیجا کہ آپ ہمیں چھوڑ دیں تاکہ ہم آپ کے شہروں سے نکل جائیں اور راہ مسافرت اختیار کریں ۔ حضور اکرم نے فرمایا آج تمہاری التجا ناقابل پذیرائی ہے ۔ ہم نے تمہیں پہلے ہی دس دن کی مہلت دیدی تھی اس مہلت سے فائدہ اٹھا سکتے تھے، اب یہی صورت ہے کہ تم تمام اسلحہ سے دست کش ہو کر صرف اتنا مال و اسباب جتنا جلدی و تیزی میں سواریوں پر لاد سکو لے جا سکتے ہو۔
اس پر وہ راضی ہو گئے ۔ چنانچہ چھ سو اونٹ بار کر کے کچھ شام کی طرف چلے گئے اور کچھ خیبر کی جانب اور کچھ کسی اور طرف جلا وطن ہو گئے ۔ وہ اپنی ضلالت اور شر و فساد کی بنا پر سر گرداں ہوئے ۔ اور دینی اشاعت ان کے شر و فساد سے پاک وصاف ہوئی۔ ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ یہ ذلیل و خوار یہود، نکلتے وقت خود کو بناتے سنوارتے ، دن بجاتے اور گاتے ہوئے مدینہ سے نکلے۔ اور غزاء و جہاد کی مشروعیت کا مقصد ہی اہل کفار و عناد کے شر و فساد سے دینی آماجگاہ کو پاک وصاف بنانا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ درختوں سے ان ناکارہ وخراب شاخوں کو چھانٹا جائے جو پھل آنے میں رکاوٹ پیدا کریں۔
اگر کوئی کہے کہ اگر یہی وجہ ہے تو ان کو قتل کرنا چاہئے تا کہ شرک کے آثار مٹیں اور فساد کا مادہ ختم ہو اور جیلا وطن کرنے میں تو ان کے خبث کا وجود باقی رہتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ ان سے غداری اور بد عہدی واقع ہوئی تھی اس کی سزا میں ان کو جلا وطنی کا حکم دیا گیا تھا اور جو لوگ جنگ و قتال پر آمادہ ہوئے اور اس کے لئے وہ ایستادہ ہو گئے وہ قتل کر دئیے گئے اور باقی کو جلا وطن فرما دیا اور بغیر قتال کے قتال کا حکم نہ فرمایا۔