غزوة غطفان (محرم الحرام ۳ ہجری)
Ghazwa e Ghatafan| Invasion of Ghatafan| Battle of Ghatafan
غروہ سویق سے واپسی کے بعد بقیہ ذی الحجہ آپ مدینہ منورہ ہی میں مقیم رہے۔ اسی اثناء میں آپ کو یہ خبر پہنچی کہ بنی ثعلبہ اور بنی محارب ( جو کہ قبیلہ غطفان کی شاخیں ہیں ) نجد میں جمع ہو رہے ہیں اور ان کا ارادہ یہ ہے کہ اطراف مدینہ میں لوٹ ڈالیں اور دعشور غطفانی ان کا سردار تھا۔ ماہ محرم الحرام ۳ ھ میں آپ نے غطفان پر چڑھائی کی غرض سے نجد کی طرف خروج فرمایا اور مدینہ میں عثمان بن عفانٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور چار سو پچاس صحابہ آپ کے ہمراہ تھے۔
غطفانی آپ کی خبر سنتے ہی پہاڑوں میں منتشر ہو گئے۔ صرف ایک شخص بنی ثعلبہ ہاتھ آیا۔ صحابہ نے پکڑ کر اس کو آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی وہ اسلام لے آیا۔ صفر کا پورا مہینہ وہیں گزرا لیکن کوئی شخص مقابلہ پر نہ آیا۔ بلا جدال و قتال ربیع الاول میں مدینہ واپس تشریف لائے۔ اس سفر میں یہ واقعہ پیش آیا کہ راستے میں بارش ہوگئی اور صحابہ کے کپڑے بھیگ گئے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اپنے بھیگے ہوئے کپڑے درخت پر سوکھنے کے لئے ڈال دیئے اور خود اس درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ وہاں کے اعراب آپ کو دیکھ رہے تھے۔
اعراب نے اپنے سردار دعثور سے جو ان میں بڑا بہادر تھا یہ کہا کہ محمد اس درخت کے نیچے تنہا لیٹے ہوئے ہیں اور ان کے اصحاب منتشر ہیں تو جا کر ان کو قتل کر آؤ دعثور نے ایک نہایت تیز تلوار لی اور برہنہ تلوار لے کر آپ کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہا اے محمد آج تم کو میری تلوار سے کون بچائے گا، آپ نے نے فرمایا اللہ تعالیٰ بچائے گا۔ آپ کا یہ فرمانا تھا کہ جبرئیل امین علیہ السلام نے اس کے سینہ میں مکہ مارا، اسی وقت تلوار اس کے کے ہاتھ سے گر پڑی اور حضور پرنور عالم نے اس کو اٹھا لیا اور دعشور سے فرمایا کہ تم بتاؤ کہ اب تم کو میری تلوار سے کون بچائے گا اس نے کہا کوئی نہیں اور اسلام لے آیا اور کلمہ پڑھا۔
اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمداً رسول اللہ اور یہ وعدہ کیا کہ اب آپ کے مقابلہ کے لئے فوج جمع نہ کروں گا۔ آپ نے دعثور کو تلوار واپس کر دی، دعثور تھوڑی دور چلا اور واپس آیا اور یہ عرض کیا واللہ مجھ سے آپ بہتر ہیں، دعثور جب اپنی قوم کی طرف واپس آیا تو لوگوں نے اس سے کہا کہ جو بات تو کہہ کر گیا تھا وہ کہاں گئی ، اس پر دعثور نے سارا ماجرا بیان کیا اور کہا اس طرح غیب سے میرے سینہ میں ایک مکالگا جس سے میں چت گر پڑا۔ اس طرح گرنے سے میں نے پہچان لیا اور یقین کرلیا کہ وہ مکا مارنے والا کوئی فرشتہ ہے۔ اس لئے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ذُكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ
”اے ایمان والو! اللہ کے اس انعام کو یاد کرو کہ جب ایک قوم نے یہ قصد کیا کہ تم پر ہاتھ چلا ئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ روک دیئے۔“
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اسی قسم کا واقعہ اور قصہ غزوہ ذات الرقاع میں بھی مروی ہوا ہے۔ واقدی نے اس قصہ کو غزوہ غطفان کے بیان میں ذکر کیا ہے۔ اگر یہ محفوظ ہے تو یہ دو مختلف قصے ہیں ایک غزوہ غطفان میں پیش آیا اور ایک غزوہ ذات الرقاع میں۔ علامہ زرقانی فرماتے ہیں کہ متقین کی رائے یہ ہے کہ یہ دو قصے علیحدہ علیحدہ ہیں۔