تاریخ اسلامغزوات

فتح مکہ (رجب المرجب، و مجری )

Fateh e Makkah Ka Waqia | Story of the Conquest of Mecca | Bab ul Fatah

ماہ رمضان کی ۸ تاریخ کو فتح مکہ پیش آیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ قریش نے معاہدہ حدیبیہ توڑ دیا اس کا سبب اس طرح سے ہے کہ جب بنو بکر و قریش نے عہد توڑ دیا جو ان کے اور رسول اللہ کے درمیان تھا۔ تو عمرو بن سالم خزاعی چالیس سوار لے کر مدینہ پہنچا۔ اس وقت رسول اللہ مسجد میں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ عمرو مذکور حاضر خدمت ہو کر یوں گویا ہوا:-

اے خدا! میں محمد کو یاد دلاتا ہوں۔ وہ پرانا معاہدہ جو ہمارے باپ اور اس کے باپ (عبدالمطلب) کے درمیان ہوا تھا۔ یا رسول اللہ! ہماری پوری مدد کیجئے اور خدا کے بندوں کو بلائیے جو ہماری مدد کو آئیں۔ قریش نے آپ سے وعدہ کے خلاف کیا۔ اور آپ کا محکم معاہدہ توڑ ڈالا۔ انہوں نے و تیر میں ہم پر بحالت خواب حملہ کیا۔ اور ہمیں رکوع و سجدے کی حالت میں قتل کرڈالا۔.

یہ سن کر رسول اللہ نے فرمایا: عمرو! تجھے مدد مل جائے گی۔ ایک روایت میں ہے ۔ کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میں قریش سے دریافت کرتا ہوں۔ پس آپ نے حضرت ضمرہ کو بھیجا۔ اور یہ تین شرطیں پیش کیں کہ قریش ان میں سے ایک اختیار کر لیں :۔

  1. خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیں۔
  2. بنو ثقافہ کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں۔
  3. اعلان کر دیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔

قرطہ بن عمرو نے کہا کہ ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے ۔
آنحضرت نے  نے مکہ پر حملہ کی پوشیدہ تیاری شروع کر دی۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ لحمی نے جو بنو اسد بن عبد العزیٰ کے حلیف تھے بنو ہاشم کی کنیز سارہ کے ہاتھ قریش کو ایک خط لکھ بھیجا۔ جس میں اس جنگی تیاریوں کا حال درج تھا۔ سارہ نے وہ خط اپنے سر کے بالوں میں چھپا لیا اور روانہ ہوئی۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ کو اس معاملہ کی خبر دے دی ۔ آپ  نے علی و زبیر و مقداد کو بھیجا اور ان سے فرمایا کہ روضہ خاخ میں تم کو ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی۔ ان کے پاس قریش مکہ کے نام ایک خلط ہے۔ وہ لے آؤ۔

وہ سوار ہو کر پل پڑے اور سارہ سے روضہ خاخ میں جا ملے۔ اس کو نیچے اتار لیا۔ اور کہا کہ تیرے پاس ایک خط ہے اس نے انکار کیا۔ اس کے کجاوے کی تلاشی لی گئی مگر کچھ برآمد نہ ہوا۔ حضرت علی المرتضی  نے اس سے کہا: میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ رسول اللہ  نے جھوٹ نہیں فرمایا۔ تو خط نکال۔ ورنہ ہم تیرے کپڑوں کی تلاشی لیں گے۔ یہ سن کر اس نے اپنے سر کے بالوں سے وہ خط نکال کر حوالہ کیا۔ جب یہ خط آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ تو آپ نے حضرت حاطب کو طلب فرمایا اور پوچھا: "حاطب! تو نے یہ کیا حرکت کی؟” حاطب نے یوں عرض کیا:

“ یا رسول اللہ! میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے۔ میں دین سے نہیں پھرا۔ میرے بال بچے مکہ میں قریش کے درمیان ہیں۔ آپ کےساتھ جو مہاجرین ہیں قریش میں ان کے رشتے ہیں۔ جن کے سبب سے وہ ان کے بال بچوں کی حفاظت کریں گے۔ مگر میرا قریش میں کوئی رشتہ نہیں۔ اپنے اہل و عیال کے بچاؤ کے لیے میں نے یہ حیلہ کیا کہ قریش پر یہ احسان کروں ۔ تا کہ اس کے صلہ میں وہ میرے بال بچوں کی حفاظت کر یں “

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ حضرت عمر فاروق  نے بے تاب ہو کر عرض کیا۔ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کا سر اڑا دوں ۔ آپ نے فرمایا کہ حاطب اصحاب بدر میں سے ہے۔ عمر! تجھے کیا معلوم ہے بے شک اللہ تعالیٰ اہل بدر پر مطلع ہے۔ عرض باوجود ایسے سنگین جرم کے آپ نے حضرت حاطب کو معاف فرما دیا۔

آنحضرت بتاریخ ۱۰ ماه رمضان ۸ھ دس ہزار آراستہ فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ حضرت عباس جو اب تک مکہ میں مقیم تھے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کر کے مدینہ کو آرہے تھے۔ وہ مقام جحفہ میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حسب ارشاد نبوی انہوں نے اہل و عیال کو تو مدینہ بھیج دیا اور خود لشکر اسلام میں شامل ہو گئے۔ قدید میں قبائل کو جھنڈے دیئے گئے۔ اخیر پڑاؤ مرالظہران تھا۔ جہاں سے مکہ ایک منزل یا اس سے بھی کم تھا۔ یہاں رسول اللہ کے حکم سے تمام فوج نے الگ الگ آگ روشن کی۔

قریش کو لشکر اسلام کی روانگی کی افواہ پہنچ چکی تھی۔ مزید تحقیق کے لیے انہوں نے ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقار کو بھیجا۔ اس تجسس میں ان کا گزر مرالظہران پر ہوا۔ ابو سفیان بولا یہ اس قدر جابجا آگ کیسی ہے؟ یہ تو شب عرفہ کی آگ کی مانند ہے۔ بدیل خزاعی نے کہا: یہ خزاعہ کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا: خزاعہ گنتی میں اتنے نہیں کہ ان کی اس قدر آگ ہو۔ خیمہ نبوی کی حفاظت پر جو دستہ متعین تھا انہوں نے ابوسفیان وغیرہ کو دیکھ لیا۔ اور پکڑ کر رسول اللہ کی خدمت میں لے گئے۔

ابوسفیان ایمان لے لائے جب رسول اللہ یہاں سے مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے ۔ تو حضرت عباس نے فرمایا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر کھڑا کر دو۔ تا کہ افواج الہی کا نظارہ آنکھوں سے دیکھ لیں۔ قبائل عرب کی فوجیں ابو سفیان کے سامنے سے ہو کر گزرنے لگیں۔ پہلے غفار پھر جہینہ، سعد بن ہذیل، سلیم، نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے گزرے ان کے بعد ایک فوج آئی جس کی مثل دیکھنے میں نہیں آئی۔

ابو سفیان نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت عباس نے جواب دیا کہ یہ انصار ہیں۔ سردار انصار حضرت سعد بن عبادہ علم ہاتھ میں لیے ہوئے برابر سے گزرے تو ابوسفیان سے کہا:- آج گھمسان کے معرکہ کا دن ہے۔ آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔

بعد ازاں وہ مبارک دستہ آیا جس میں رسول اللہ اور آپ کے اصحاب (مہاجرین) تھے۔ حضرت زبیر بن العوام علمبردار تھے۔ حضور برابر سے گزرے تو ابوسفیان نے کہا: “ حضور آپ نے سناسعد بن عبادہ کیا کہتے گزرے ہیں؟ “ آپ نے فرمایا سعد نے غلط کہا۔ آج کعبہ کی عزت کی جائے گی اور غلاف چڑھایا جائے گا پھر حکم دیا کہ علم سعد سے لے کر ان کے صاحب زادے قیس کو دے دیا جائے۔

آنحضرت مکہ میں حصہ بالائی کی طرف سے داخل ہوئے۔ اعلان کردیا گیا۔ کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابوسفیان کے گھر پناہ لے گا۔ یا مسجد میں داخل ہو گا۔ یا دروازے بند کر لے گا۔ اس کو امن دیا جائے گا۔ حصہ بالائی میں (خیف بنی کنانہ یعنی خصب میں) رسول اللہ کے لیے خیمہ نصب کیا گیا۔ اور حضرت زبیر  نے حسب الارشاد محصب کی حد یعنی حجون کی پہاڑی پر علم کھڑا کر دیا۔

آنحضرت نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ قبائل عرب کے ساتھ پائین شہر کی طرف سے داخل ہوں اور صفا میں ہم سے آملیں اور کسی سے جنگ نہ کریں۔ مگر صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو قریش کی ایک جماعت ساتھ لے کر جندمہ میں سدراہ ہوئے اور حضرت خالدکی فوج پر تیر برسانے لگے ۔ چنانچہ حضرت جیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری نے شہادت پائی۔ حضرت خالد  نے مجبور ہو کر ان پر حملہ کیا۔ وہ تیرہ یا زیادہ لاشیں چھوڑ کر گھروں کو بھاگ گئے اور بعض پہاڑی پر چڑھ گئے۔

آنحضرت  نے جو تلواروں کی چمک دیکھی تو پوچھا کہ یہ جنگ کیسی ہے؟ عرض کیا گیا کہ شاید مشرکین نے پیش دستی کی ہے۔ جس کی وجہ سے خالد کو لڑنا پڑا۔ بعد ازاں رسول اللہ نے خالد سے باز پرس کی تو انہوں نے عرض کیا کہ ابتداء مشرکین کی طرف سے تھی۔ فرمایا: ” قضائے الہی بہتر ہے“۔

آنحضرت نے خیمہ میں ذرا آرام فرمایا۔ پھر غسل کیا اور ہتھیاروں سے سج کر ناقہ قصواء پر سوار ہوئے اور اپنے غلام کے لڑکے اسامہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے مہاجرین و انصار تھے جو اس کی طرح سراپا آہن پوش تھے کہ بجز سیاہی چشم ان کے بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آتا تھا۔ بیت اللہ شریف میں داخل ہو کر آنحضرت نے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ پھر اپنی ناقہ پر طواف کیا۔ بیت اللہ کے گرد اور اوپر تین سو ساٹھ بت تھے۔ جن کے سبب وہ خانہ خدا بت خانہ بنا ہوا تھا۔ آپ کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی۔  اس سے آپ ایک ایک بت کو ٹھوکر دیتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے:۔

” سچ آ گیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل مٹنے والا ہے۔ سچ آگیا اور باطل نہ پہلی بار پیدا کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتا ہے۔“

اور وہ منہ کے بل گرتے جاتے تھے۔ جب اس طرح بیت اللہ شریف بتوں سے پاک ہو گیا۔ تو آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ سے کنجی لے کر دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہوئے تو حضرت ابراہیم و اسمعیل کے مجسمے نظر پڑے۔ جن کے ہاتھوں میں جواء کھیلنے کے تیر دیے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا:  ” خدا ان کو غارت کرے۔ اللہ کی قسم ان دونوں نے کبھی تیروں سے جواہ نہیں کھیلا

کعبہ کے اندر ہی لکڑیوں کی ایک کبوتری بنی ہوئی تھی جسے آپ نے اپنے دست مبارک سے توڑ ڈالا اور تصویر یں جو تھیں وہ مٹا دی گئیں۔ پھر دروازہ بند کر دیا گیا۔ اور حضرت اسامہ و بلال و عثمان بن طلحہ آپ کے ساتھ اندر رہے آپ نے نماز پڑھی اور ہر طرف تکبیر کہی پھر دروازہ کھول دیا کیا۔ مسجد حرام قریش کی صفوں سے بھری ہوئی تھی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے دروازے کے بازوؤں کو پکڑ کر یہ خطبہ پڑھا:-

” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور دشمنوں کی تمام جماعتوں کو اس نے تنہا شکست دی۔ آگاہ ہو جاؤ جو خصلت و عادت خواہ جانی ہو یا مالی ہو جس کا دعویٰ کیا جاسکے وہ سب میرے قدموں کے نیچے ہیں ۔ سب لغو اور باطل ہیں مگر بیت اللہ کی نگہبانی اور حاجیوں کو زم زم کا پانی پلانا یہ خصلتیں حسب دستور برقرار رہیں گی۔ آگاہ ہو جاؤ جو شخص خطاء قتل کیا جائے، کوڑے سے یا لاٹھی سے اس کی دیت (خون بہا) مغلظہ ہے سو اونٹ ہوں گے جس میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔

اے گروہ قریش! اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی نخوت اور غرور اور آباؤ اجداد پر فخر کرنے کو باطل کر دیا۔ سب لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو شاخوں اور خاندانوں پر تقسیم کیا تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو اور حقیقت میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو سب سے زیادہ خدا ترس ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے۔“

خطبہ کے بعد آپ قریش کی طرف متوجہ ہوئے جن سے مسجد بھری ہوئی تھی۔ اعلان دعوت سے اب تک سارھے سترہ سال میں قریش نے آپ سے اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اصحاب سے جو جو سلوک کیے تھے وہ سب ان کے پیش نظر تھے۔ اور خوف زدہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھیئے کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ آنحضرت اب اس شہر میں ہیں جہاں سے نکلے تھے تو اندھیری رات اور فقط صدیق اکبر ساتھ تھے ۔ آج آپ داخل ہوتے ہیں تو دس ہزار جاں نثار ساتھ ہیں اور بدلہ لینے پر پوری قدرت حاصل ہے۔ بایں ہمہ آپ نے یوں خطاب فرمایا:

اے گروہ قریش! تم اپنے گمان میں مجھ سے کیسے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟ وہ بولے: نیکی کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ شریف بھائی اور شریف برادر زادہ ہیں۔ یہ سن کر حضور رحمتہ للعالمین نے فرمایا:-

” آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ جاؤ تم آزاد ہو "

اعلان عفو کے بعد آنحضرت مسجد حرام میں بیٹھ گئے بیت اللہ شریف کی کنجی آپ صلى الله عليه وسلم کے دست مبارک میں تھی۔ حضرت علی اور حضرت عباس میں سے ہر ایک نے عرض کیا کہ کنجی ہمیں عنایت ہو۔ مگر آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کو عطا فرمائی۔

اس روز آنحضرت دیر تک مسجد میں رونق افروز رہے نماز کا وقت آیا۔ تو آپ کے حکم سے حضرت بلال  نے کعبہ کی چھت پر اذان کہی۔ ابو سفیان بن حرب اور عتاب بن اسید اور حارث بن ہشام کعبہ کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے اذان کی آواز سن کر عتاب بولا کہ خدا نے اسید کو یہ عزت بخشی کہ اس نے یہ آواز نہ سنی ورنہ اسے رنج پہنچتا۔ حارث بولا۔ خدا کی قسم اگر یہ حق ہوتا تو میں اس کی پیروی کرتا۔

حضرت ابوسفیان نے کہا میں تو کچھ نہیں کہتا۔ اگر کہوں تو یہ کنکریاں ان کو میرے قول کی خبر دیں گی۔ جب آنحضرت ان لوگوں کے پاس ہو کر نکلے۔ تو فرمایا کہ تمہاری باتیں مجھے معلوم ہو گئیں تم نے ایسا ایسا کہا ہے ۔ حارث وعتاب یہ سنتے ہی کہنے لگے :

” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں۔ ان باتوں کی اطلاع کسی اور کو ن تھی ورنہ ہم کہہ دیتے کہ اس نے آپ کو بتا دیں "

مسجد سے آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے۔ وہاں مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کر کے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ مردوں میں حضرت معاویہ اور مستورات میں ان کی والدہ ہند بھی تھی جو حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چھا گئی تھی۔

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی چیک کریں
Close
Back to top button