تاریخ اسلامغزوات

غزوہ بنو المصطلق (شعبان یوم دوشنبه ۵ هجری)

Ghazwa e Banu Mustaliq | Invasion of Banu Al Mustaliq | Battle of Bani Al Mustaliq

ہجرت کے پانچویں سال غزوۃ مریسیع ( بضم میم و فتح راء وسکون یا ) واقع ہوا۔ یہ بنی خزاعہ کے چشمہ کا نام ہے اس کو غزوہ بنی المصطلق ( بضم میم وسکون صاد و فتح طاء و کسر لام) بھی کہتے ہیں۔ مصطلق ایک شخص کا لقب ہے جس کا نام خزیمہ بن سعد بن عمرو ہے جو بنی خزاعہ کے بطن سے ہے اور صلق سخت و کرخت آواز کو کہتے ہیں اس غزوہ کا وقوع دوشنبہ کے دن پانچویں ہجری کے ماہ شعبان کی دو راتیں گزرنے کے بعد ہوا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ شنبہ کا دن تھا اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا ہے کہ یہ چوتھے سال میں ہوا ہے ارباب سیر کہتے ہیں کہ یہ سبقت قلم ہے کہ بجائے پانچ کے چار لکھ گئے ۔ مختار یہ ہے کہ پانچ ہجری میں ہوا ہے۔

اس غزوہ کے وقوع کا سب یہ ہے کہ حارث بن ابی ضرار نے جو کہ اس قبیلہ کا سردار تھا بعض قبائل  عرب کو مدعو کیا تا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لئے لشکر فراہم کرے۔
جب یہ خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت بریدہ بن الحسیب ہلمی کو جو کہ مشہور صحابی ہیں اس جماعت کی طرف بھیجا تاکہ تحقیق کر کے لائیں اور انہیں اجازت دی کہ "الحرب خُدْعَةُ” (جنگ ایک داؤ ہے ) کے تحت جو مقتضائے حال ہو ان سے گفتگو کر ہیں۔ تو حضرت بریدہ  اس جماعت کی طرف گئے اور انہوں نے گفتگو میں فرمایا کہ سنا گیا ہے کہ تم محمد کے ساتھ جنگ کا ارادہ رکھتے ہو؟
اگر یہ بات واقع کے مطابق ہے تو میں تمہاری معاونت کروں گا اور تمہارے ساتھ جنگ میں شریک ہوں گا اس جماعت نے حضرت بریدہ سے بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ سلوک کیا ۔ انہوں نے کہا ہاں! ہمارا ارادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کا پختہ عزم کے ساتھ ہے اس پر حضرت بریدہ نے فرمایا تب تو مجھے اجازت دو تا کہ جا کر اپنے لوگوں کو مجتمع کر کے لاسکوں اس بہانہ سے وہ ان کے پاس سے آئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں تمام حال پیش کیا۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر اسلام مجتمع کر کے تشریف لے چلے۔

مدینہ منورہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو خلیفہ بنایا اور مہاجرین کا علم حضرت علی المرتضی ؓ کو دیا اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ کو دیا اور انصار کا علم حضرت سعد بن عبادہ ؓ کو دیا اور حضرت عمر بن الخطاب ؓ کو مقدمہ لشکر پر متعین فرمایا۔ اس لشکر میں تیسں گھوڑے مہاجرین کے تھے اور بیس گھوڑے انصار کے۔ بہت سے منافقوں نے بھی غنیمت اور دنیاوی سامان کے لالچ میں لشکر اسلام کے ساتھ موافقت کی اور راہ میں کافروں کے جاسوسوں کو پکڑا اور ان کے لشکر کے بارے میں پوچھا پہلے تو وہ انکار کرتے رہے بعد ازاں حضرت عمر ؓ کے ڈرانے دھمکانے سے انہوں نے اعتراف کیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے انہیں قتل کیا گیا۔

جب حارث کو خبر پہنچی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک لشکر کے ساتھ اس کی طرف بڑھے چلے آرہے ہیں تو بنی مصطلق کے دلوں میں اس سے رعب وخوف پڑ گیا اور بہت سے وہ لوگ جو اطراف اکناف سے حارث بن ضرار کی جماعت میں جمع ہوئے تھے جدا ہونے لگے ہر ایک نے اپنی اپنی منزل کی راہ لی اور حارث کے پاس بجز بنی مصطلق کے کوئی نہ رہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے وہاں پہنچ کر چشمہ مرسیع پر قیام فرمایا اس سفر میں امہات المومنین میں سے سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ اور سیدہ ام سلمہ ؓ ہمراہ تھیں۔ کفار نے اپنے لشکر کو مرتب کر کے میدان جنگ میں مقابلہ کے لئے پاؤں رکھا جب دونوں طرف سے صفیں درست ہو گئیں تو حضرت عمر ؓ کو حکم ہوا کہ وہ کفار کو خبر دار کریں کہ اگر وہ لا الہ الا الله محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیں تو ان کا خون اور تمام مال و اسباب محفوظ رہیں گے۔

انہوں نے اس کا انکار کیا لشکر اسلام نے یکبارگی ان پر حملہ کر دیا اور پہلے ہی حملہ میں مشرکوں کے علمبردار کو قتل کر دیا اور انہیں شکست ہو گئی ان کے دس آدمی مارے گئے باقی تمام مردوں اور عورتوں کو اسیر بنالیا اور بہت سا مال غنیمت از قسم چوپائے، انعام اور سپاہ ہاتھ آیا مسلمانوں میں سے صرف ایک شخص شہید ہوا صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان پر ان کی غفلت کی حالت میں حملہ کا حکم دیا جبکہ وہ جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اس کے بعد جنگ کرنے والوں کو قتل کیا اور بچوں کو قید کر لیا۔

ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ جنگ کی آگ ٹھنڈی ہو جانے کے بعد بنی مصطلق کا ایک شخص آیا اور وہ شرف اسلام سے مشرف ہوا اس نے کہا ہم جنگ کے دوران مردان سفید جامہ کو ابلق گھوڑوں پر سوار لشکر اسلام کے درمیان دیکھتے رہے ہیں وہ ایسے تھے کہ ہم نے ان جیسے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے اور جویریہ جو اُمہات المومنین ؓ میں سے ہیں اسی غزوہ کی قیدیوں میں سے تھیں اور اسی حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب تقسیم غنائم اور اسیروں سے فارغ ہوئے اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ ایک چشمہ پر تشریف فرما تھے اچانک جویریہ بنت الحارث بن ضرار داخل ہوئی یہ عورت بہت ملیح اور صاحب حسن و جمال تھی جو کوئی اسے دیکھتا اس پر فریفتہ ہو جاتا۔

اس وقت میرے دل میں آتش غیرت پیدا ہوگئی کہ مبادا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کو اپنے ازواج میں داخل فرمائیں اور بالآخر وہی ہوا جب جویریہ آئی تو سب سے پہلی بات اس نے یہ کہی "یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسلمان ہوتی ہوں اور اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَّا اللهُ وَإِنَّكَ رَسُوله ” پڑھتی ہوں اور کہا کہ میں حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں اور اس قبیلہ کی سردار اور پیشوا ہوں اور اب میں لشکر اسلام کے ہاتھ میں قید ہوں اور ثابت بن قیس کے حصہ میں آئی ہوں اس نے مجھے مکاتب بنایا ہے اور میں اتنے مال کی طاقت نہیں رکھتی کہ بدل کتابت ادا کر سکوں میں امید رکھتی ہوں کہ آپ میری مدد فرمائینگے تا کہ میں ادائے کتابت کر سکوں“

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا میں ایسا کروں گا اور اس سے بھی زیادہ میں تیرے ساتھ حسن سلوک کروں گا اس نے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بہتر سلوک کیا ہوگا؟ فرمایا میں ادائے کتابت کر کے تجھے اپنے حبالہ عقد میں لا کر اپنی زوجیت سے سرفراز کروں گا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت ثابت بن قیس کے پاس کسی کو بھیجا اور مکاتبت کی رقم ان کو سپرد کرائی۔ آزاد ہونے کے بعد ان کو اپنے نکاح میں لے لیا۔

صحابہ عظام ؓ  جب اس حقیقت سے مطلع ہوئے تو انہوں نے باہم خیال آرائی فرمائی اور کہا کہ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ سید کائنات کے حرم پاک کے عزیزوں اور رشتہ داروں کی اسیری اور قید میں رکھ کر غلام بنائیں اور سب نے ان سب کو آزاد کر دیا۔

ارباب سیر کہتے ہیں کہ بنی المصطلق کے قیدیوں کی تعداد ایک سو نوے سے زیادہ تھی سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ کوئی عورت اپنی خیر و برکت میں سیدہ جویریہ ؓ سے زیادہ بزرگ ہو۔

ارباب سیر سیدہ جویریہ ؓ سے نقل کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے اپنے قبیلہ میں ایک خواب دیکھا کہ گویا ایک ماہتاب یثرب سے طلوع ہو کر اتر رہا ہے یہاں تک کہ وہ ماہتاب میری آغوش میں آگیا میں نے اپنے اس خواب کو کسی سے نہ کہا۔ یہاں تک کہ اس کی تعبیر سامنے آگئی سیدہ جویر یہ کا نام اسیری سے پہلے ” برہ ” (بمعنی نیکو کار تھا) سید عالم  نے ان کا نام جویریہ رکھا نام کی تبدیلی اپنی عادت شریفہ کی بنا پر تھی کہ آپ ناموں کو بدل دیا کرتے تھے اگر چہ نام اچھا ہی ہو لیکن اس میں آنحضرت کراہت محسوس کرتے تھے کہ مثلاً کوئی کہے کہ گھر میں "برہ” ہے ؟ اور اس کا جواب ہے کہ "برہ ” نہیں ہے یعنی نیکی و بھلائی نہیں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نیا نے فرمایا کہ ایسا نام رکھا جائے جس کے پکارنے میں کوئی بے برکتی اور بدشگونی نہ ہو۔

اسی غزوہ میں اس منافق ملعون ابو الفضل نے جس کا نام عبد الله بن ابی این سلول تھا اور جو منافقوں کا سردار تھا اس نے کہا لَئِن رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ ليُخْرِجَنَ الآعَزُّ مِن الأذل – (اگر ہم مدینہ لوٹے تو ضرور عزت والے لوگ ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے ) اس طرح اس نے مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر کی۔ اس ملعون نے یہ بات اس بنا پر کہی تھی کہ سنان ( بکسرسین) بن وبر (بفتح واق وسکون باء) جہنی جو قبیلہ خزرج کی طرف سے عمرو بن عوف کا حلیف و ہم سوگند تھا اور جہجاہ بن سعید غفاری جو کہ حضرت عمر بن الخطاب کے اجیر و مزدور تھے ان دونوں کے درمیان کسی ادنی سی بات پر جھگڑا واقع ہوا وہ جھگڑا یہ تھا کہ دونوں کے ڈول کنویں میں گر پڑے تھے اور یہ دونوں ڈول ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور مشابہ تھے ان دونوں میں سے ایک ڈول نکل آیا سنان نے کہا ”یہ میرا ڈول ہے” اور جہجاہ نے کہا ”یہ میرا ڈول ہے” ارباب سیر کہتے ہیں کہ واقع میں یہ ڈول سنان کا تھا یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ جہجاہ نے ایک گھونسہ ستان کے منہ پر مار دیا۔

اس کےمنہ سے خون بہنے لگا۔ اس کے بعد سنان نے جو انصار کا حلیف تھا انصار سے استغاثہ کیا اور جہجاہ نے مہاجرین کی طرف رخ کیا دونوں طرف کی جماعتیں ہتھیار باندھ کر نکل آئیں قریب تھا کہ فتنے کی آگ بھڑک اٹھے کہ مہاجرین کے ایک گروہ نے سنان سے درخواست کی کہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہو جائے سنان ان کے کہنے کی بنا پر اپنے حق سے دستبردار ہو گئے۔ یہ خبر جب عبد الله ابن ابی منافق کو پہنچی اور یہ پہلے ہی گزر چکا ہے کہ اس غزوہ میں منافقین بھی ہمراہ تھے اور یہ منافق ملعون ابن ابی بھی از قبیلہ انصار تھا جب اس نے سنا کہ جہجاہ نے جو مہاجرین سے منتسب ہے سنان کے ساتھ جو انصار کا حلیف تھا ایسا سلوک کیا ہے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عداوت کی بنا پر کفر و نفاق کی رگ پھڑکی اور ان منافقوں سے جو اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس نے کہا مہاجرین کے ہاتھوں میں جو اتنی قدرت و طاقت پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے واسطہ سے ہے اور ان کے وجود کی بقا ہم سے وابستہ ہے وہ ایسا سلوک کرتے ہیں جس طرح کہ ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کہاوت مشہور ہے کہ سمن كَلْبَكَ يَأْكُلُك اپنے کتے کو فربہ کرتا کہ وہ تجھے کھائے۔ اور اس نے کہا اگر ہم مدینہ لوٹے تو ضرور بہت زیادہ عزت والے وہاں سے ان کو جو بہت خوار ہیں نکال دیں گے ۔ اس ملعون نے "اعز” سے مراد اپنے آپ کو لیا اور ” اذل ” سے مراد ذات بابرکات رسول خدا کو لیا ( نعوذ با الله والله اعلم)۔

جس مجلس میں اس ملعون نے یہ بات منہ سے نکالی تھی ۔ زید بن ارقم انصاری اس میں تشریف فرما تھے انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جو کچھ سنا تھا نقل کردیا اکابر صحابہ مثلاً حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق وغیرہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس مجلس مبارک میں حاضر تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے زید کے قول کو منسوب بفرض رکھا۔ اور فرمایا ممکن ہے کہ ان کے سننے میں غلطی واقع ہوئی ہے اس پر حضرت زید نے قسم کھا کر اپنی بات کی سچائی کا یقین دلایا اس کے بعد اس منافق ملعون کی یہ بات پورے لشکر اسلام میں پھیل گئی اور انصار کی ایک جماعت نے حضرت زید بن ارقم کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ” تم نے ایک قوم کے سردار پر جھوٹ باندھا ہے ”

زید  نے کہا۔ خدا کی قسم میں نے یہ بات اس سے خودسنی ہے اور مجھے امید ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے نبی پر اس سلسلہ میں ضرور وحی بھیجے گا۔  حضرت عمر  نے عرض کیا ” یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت دیجئے کہ میں اس منافق ملعون کی گردن اڑا دوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا اگر میں نے اس کے قتل کا حکم دیا تو لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کراتے تھے ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سب کو کوچ کرنے کا حکم فرمایا باوجود یکہ دھوپ اور ہوا بہت گرم و شدید تھی مگر مقصود یہ تھا کہ صحابہ کرام ، منافقین کے بارے میں سوچ بچار نہ کر سکیں اور اس گفت گو میں نہ پڑیں۔

اس پر حضرت اسید بن حضیر ؓ  نے عرض کیا  یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہوئی جو آپ نے اتنی شدت و تمازت میں کوچ کا حکم فرما دیا  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے ساتھی یعنی عبد الله بن ابی نے کیا کہا ہے؟  حضرت اسید  نے عرض کیا یا رسول الله اگر آپ چاہیں تو ہم اسے مدینہ سے نکال دیں کیوں کہ اعز آپ ہیں اور اذل وہ ملعون ہے اور عزت الله کے لئے ہے اور اس کے رسول کے لئے ہے اور مسلمانوں کے لئے ہے ۔

اس کے بعد انہوں نے عرض کیا ” یارسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس کے ساتھ نرمی اور مدارت فرمائیے کیوں کہ آپ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے مدینہ کے تمام لوگ اس پر متفق تھے کہ مدینہ کی بادشاہی کا تاج اس کے سر پر رکھیں اور اسے مدینہ کا سردار اور امیر بنائیں لیکن آپ کی تشریف آوری کی وجہ سے اس کی امارت و حکومت کا امکان ختم ہو گیا اور اب اس کی بیچارگی اور حسد اسے ایسی بیہودہ باتیں کہنے پر مجبور کرتی ہے ۔ بعض انصار نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس شریف سے نکل کر اس ملعون منافق سے کہا کہ اس قسم کی باتیں تیرے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حضور میں ہوئی ہیں اگر تو نے ایسا کہا ہے تو چل کر معافی مانگ لے اور اگر نہیں کہا ہے تو انکار کر دے اور قسم کھا لے مگر خبر دار جھوٹ نہ کہنا کیوں کہ قرآن تیری مذمت میں نازل ہو جائے گا۔

اس پر وہ ملعون منافق آیا اور اس نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جسے زید میری طرف منسوب کرتے ہیں۔ حضرت زید فرماتے ہیں کہ میں بہت غمزدہ اور دل شکستہ ہو گیا۔ اس کے بعد سورہ منافقین نازل ہوئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مجھے بلا کر فرمایا  تمہیں بشارت ہو کہ حق تعالیٰ نے تمہاری تصدیق فرمائی اور اس منافق کی تکذیب کی۔ پھر حضرت عبدالله بن ابن ابی کے پاس آئے اور اس کی خوب مذمت فرمائی اور فرمایا۔

“ اٹھ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس چل تا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے لئے استغفار کریں ۔“

وہ سیاہ باطن اپنی گردن جھٹکنے لگا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

“ اور جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے چلو تاکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے استغفار کریں تو وہ سروں کو جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ حاضر ہونے سے کتراتے ہیں یہ لوگ مجبر و گردن کش ہیں "

مروی ہے کہ ابن ابی ملعون کا ایک لڑکا تھا جو مسلمان ، موحد ، مخلص اور محب بارگاہ نبوت تھا ۔ لوٹتے وقت جب مسلمان وادی عقیق پر پہنچے تو وہ لڑکا سر راہ کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ جب اس کا باپ پہنچا اور اس نے شہر میں داخل ہونا چاہا تو وہ اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے روک کر کہنے لگا۔

” کہو بنی آدم میں سب سے زیادہ عزت والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سارے عالم میں سب سے زیادہ ذلیل وخوار تو ہے“

جو بھی اس کیفیت کو دیکھتا تعجب کرتا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچے اور یہ ملاحظہ فرمایا کہ ابن ابی کا بیٹا اسے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے تلوار کھینچ کر روک رہا ہے اور اس کا باپ کہہ رہا ہے کہ :

” میں بچوں سے زیادہ ذلیل ہوں اور میں عورتوں سے زیادہ خوار ہوں“ مگر وہ بیٹا بدستور داخل ہونے میں مانع ہے اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا۔ ” چھوڑ دو کہ وہ داخل ہو جائے“ پھر اس نے باپ کا راستہ چھوڑ دیا۔

ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ غزوہ المصطلق سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ کے قریب اتنی شدید اور تیز آندھی چلی کہ لوگوں نے گمان کیا شاید دشمنوں نے مدینہ طیبہ پر حملہ کر دیا ہے اور وہ لوٹ مار کر رہے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا خوف نہ کرو، مدینہ طیبہ ہر آفت و خوف سے محفوظ ہے اور اس کا کوئی گوشہ اور کوئی گھاٹی ایسی خالی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ پاسبانی و محافظت میں مقرر نہ ہو لیکن آج کوئی عظیم النفاق منافق مرگیا ہے وہ زید بن رفاعہ تھا جو ابن ابی کا دوست تھا اور اس منافق کے مرنے سے ابن ابی کو بڑا رنج و ملال ہوا تھا کیوں کہ یہ دونوں منافقین آپس میں بڑی محبت رکھتے تھے ۔ اس غزوے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اٹھائیس دن صرف ہوئے ۔

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button