غزوه بنو قینقاع (۱۵ شوال یوم شنبه ۲ هجری)
ghazwa e banu qaynuqa | Invasion of Banu Qaynuqa | Battle of Banu Qaynuqa
بنی قینقاع عبد اللہ بن سلام کی برادری کے لوگ تھے۔ نہایت شجاع اور بہادر تھے۔ زرگری کا کام کرتے تھے۔ شوال کی پندرہ سولہ تاریخ کو بروز شنبہ رسول اللہ ان کے بازار میں تشریف لے گئے اور سب کو جمع کر کے وعظ فرمایا۔
يا معشر يهود احذروا من الله مثل ما نزل بقريش من النقمة واسلموا فانكم قد عرفتم انی نبی مرسل تجدون ذلك في كتابكم و عهد اللہ الیکم
ترجمہ:
” اے گروہ یہود! اللہ سے ڈرو جیسے بدر میں قریش پر خدا کا عذاب نازل ہوا کہیں اسی طرح تم پر نازل نہ ہو۔ اسلام لے آؤ اس لئے کہ تحقیق تم خوب پہچانتے ہو کہ میں بالیقین اللہ کا نبی اور اس کا رسول ہوں جس کو تم اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہو اور اللہ نے تم سے اس کا عہد لیا ہے”
یہودی یہ سنتے ہی مشتعل ہو گئے اور یہ جواب دیا کہ آپ اس خوش فہمی میں ہرگز نہ رہنا کہ ایک ناواقف اور نا تجربہ کار قوم یعنی قریش سے مقابلہ میں آپ غالب آگئے۔ واللہ اگر ہم سے مقابلہ ہوا تو خوب معلوم ہو جائے گا کہ ہم مرد ہیں۔ اس پر حق جل وعلا نے یہ آیت نازل فرمائی۔
قَدكَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمُ رَأَى الْعَيْنِ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولى الْأَبْصَارِ
ترجمہ:
” تحقیق تمہارے لئے نشانی ہے ان دو جماعتوں میں کہ باہم ایک دوسرے سے لڑی، ایک جماعت تو خدا کی راہ میں قتال کرتی تھی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی کہ مسلمانوں کو اپنے سے دو چند دیکھتی تھی کھلی آنکھوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اپنی امداد سے قوت دیتے ہیں۔ تحقیق اس میں عبرت ہے اہل بصیرت کے لئے ”
رسول اللہ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نضیر سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ہم نہ آپ سے جنگ کریں کے اور نہ آپ کےدشمن کو کسی قسم کی مدد دیں گے، مگر سب سے پہلے بنی قینقاع نے عہد شکنی کی اور نہایت درشتی سے رسول اللہ کو جواب دیا اور آمادہ جنگ ہو گئے۔
یہ لوگ مضافات مدینہ میں رہتے تھے ۔ رسول اللہ نے مدینہ میں اپنے بجائے ابولبابہ بن عبد المنذر انصاری کو مقرر فرما کر بنی قینقاع کی طرف خروج فرمایا۔
ان لوگوں نے قلعہ میں داخل ہو کر دروازہ بند کرلیا۔ رسول اللہ نے پندرہ شوال سے لے کر بارہ ذی قعدہ تک ان کا محاصرہ فرمایا۔ مجبور ہو کر سولہویں روز یہ لوگ قلعہ سے اتر آئے۔ رسول اللہ نے ان کی مشکیں باندھنے کا حکم دیا۔
رأس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی الحاح وزاری کی وجہ سے قتل سے تو درگزر فرمایا، مگر مال و اسباب لے کر جلاوطنی کا حکم دے دیا اور مال غنیمت لے کر مدینہ واپس ہوئے۔ ایک خمس خود لیا اور چارخمس غانمین پر تقسیم فرمایا۔ بدرکے بعد یہ پہلاخمس تھا جو رسول اللہ نے اپنے دست مبارک سے لیا۔
عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ قینقاع سے میرے حلیفانہ تعلقات تھے۔ ان کی اس شرارت اور بدعہدی کو دیکھ کر ان سے تعلق قطع کر لیا اور ان سے تبری اور بیزاری کا اعلان کیا۔
يا رسول الله اتبرأ إلى الله والى رسوله واتولى الله ورسوله والمؤمنين و ابرا من حلف الكفار و ولايتهم
ترجمہ:
"یا رسول اللہ ! میں آپ کے دشمنوں سے بری اور بیزار ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی طرف آتا ہوں اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا دوست اور حلیف بناتا ہوں، اور کافروں کی دوستی اور عہد سے بالکل بری او علیحدہ ہوتا ہوں ”
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ایمان کے لئے جیسے اللہ اور اس کے رسول اور عباد مومنین کی محبت ضروری ہے، اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے عداوت و نفرت، بیزاری اور برکت کا اعلان بھی ضروری ہے۔