جمادی الاولی میں غزوہ موتہ وقوع میں آیا۔ حقیقت میں یہ سریہ تھا۔ مگر لشکر کی کثرت کے سبب سے اسے غزوہ سے تعبیر کیا گیا۔ آنحضرت نے حارث بن عمیر ازدی کے ہاتھ امیر بصری یا قیصر روم کے نام اپنا نامہ مبارک بھیجا۔ جب قاصد موتہ میں پہنچا تو شرجیل بن عمر و غسانی نے جو قیصر روم کی طرف سے شام میں ایک گورنر تھا۔ اس کو شہید کر دیا۔ جب آنحضرت کو یہ خبر پہنچی۔ تو آپ نہایت غمگین ہوئے اور تین ہزار فوج بسرکردگی زید بن حارث ( جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے) بھیجی۔ اور حکم دیا کہ اگر زید شہید ہو جائیں۔ تو جعفر بن ابی طالب اور وہ بھی شہید ہوں تو عبد اللہ بن رواحہ فوج کے سردار ہوں۔ اور ارشاد ہوا کہ اس مقام پر جانا جہاں حارث بن عمیر شہید ہوئے ہیں۔ اور یہ بھی ہدایت کر دی گئی کہ پہلے ان کو دعوت اسلام دینا۔ اگر وہ قبول کر لیں تو جنگ کی ضرورت نہیں۔ خود جناب رسالت مآب نے ثنیتہ الوداع تک فوج کی مشایعت فرمائی۔
شرجیل کو خبر پہنچی تو اس نے ایک لاکھ فوج تیار کی۔ ادھر قیصر روم عرب کی ایک لاکھ فوج لے کر ہا ہوگیا زمین (۱۶۸) بلقاء میں خیمہ زن ہوا۔ جب لشکر اسلام شہر معان میں پہنچا۔ تو ان کو دشمن کی تعداد کثیر کی اطلاع ملی۔ انہوں نے سوچا کہ دربار رسالت کو حالات کی اطلاع دی جائے اور حکم کا انتظار کیا جائے ۔ مگر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے کہا کہ فتح و شہادت میں سے ایک ہمیں ضرور حاصل ہو جائے گی اس لیے آگے بڑھے۔ جب بقاء کی حد پر پہنچے۔ تو مشارف میں قیصر کا لشکر نظر آیا۔
مسلمان بچ کر موتہ کی طرف چلے گئے۔ اور یہاں جنگ ہوئی حضرات زید و جعفر وعبداللہ بن رواحہ یکے بعد دیگرے بڑی بہادری سے پیدل ہو کر لڑے اور شہید ہوئے آنحضرت مدینہ میں ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور بیان فرما رہے تھے حضرت جعفر نے پہلے اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیں۔ پھر حملہ کیا۔ ان کا دایاں بازو کٹ گیا۔ تو علم بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ بایاں بھی کٹ گیا تو بغل میں لے لیا یہاں تک کہ شہید ہو گئے حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ میں نے ان کی لاش دیکھی تو اس پر نوے سے کچھ او پر زخم تلواروں اور برچھیوں کے تھے۔ اور سب کے سب سامنے کی طرف تھے۔ پشت پر ایک بھی نہ تھا۔ آنحضرت نے حضرت جعفرکو شہادت کے بعد بہشت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا۔ دوسری روایت میں ہے کہ بشکل فرشتہ دو خون آلود بازوؤں کے ساتھ دیکھا۔ اسی واسطے انکو جعفر طیار یا جعفر ذوالجناحین کہتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ کے بعد بالاتفاق حضرت خالد بن ولید امیر لشکر ہوئے۔ وہ بھی نہایت شجاعت سے لڑے۔ خود ان کا بیان ہے کہ اس دن نو تلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹ کر گر پڑیں لشکر کفار میں تزلزل پڑ گیا۔ آخر کارلشکر کفار پسپا ہو گیا۔ اسے مسلمانوں کی فتح کہنا چاہیے۔ کہ دو لاکھ کے مقابلہ میں صرف بارہ شہید ہوئے۔ باقی سب صحیح و سالم مدینہ منورہ واپس آگئے۔