شجرہ نسب
عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد تیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی
پیدائش
آپؓ کی پیدائش سنہ ۵۷۴ء میں واقعہ فیل سے تین سال بعد ہوئی ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے خاندان کی چار نسلیں اسلام سے مشرف ہوئیں ۔ والد، والدہ ، خود، اولاد، پوتے ، نوا سے سب نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا ۔
لقب
آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ایک مرتبہ آپؓ کو فرمایا (ابوبکر عتیق الله من النار ( ابوبکر صدیقؓ جہنم کی آگ سے آزاد ہے۔ اسی وقت سے آپؓ عتیق کے لقب سے مشہور ہوئے ۔
بیویاں اور اولاد
قتیلہ بنت سعد …. ان سے آپؓ کے صاحبزادے عبداللہ اور صاحبزادی حضرت اسماءؓ پیدا ہوئیں۔ آپؓ کے صاحبزادے عبداللہ غزوہ طائف میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھے۔ ان کی وفات حضرت ابوبکرصد یقؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔ ان کی اولاد میں اسمعیل پیدا ہوئے جو بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔
حضرت اسماءؓ کی شادی حضرت زبیر سے ہوئی، انہی کے بطن سے مشہور صحابی عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے آپؓ کا لقب ذات النطاقتین رکھا تھا۔ آپؓ نے ۱۰۰ سال کی عمر میں مکہ میں وفات پائی۔
زینب ام رومان …. ان کے بطن سے آپؓ کے صاحبزادے عبدالرحمن اور صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہؓ پیدا ہوئیں ۔ ام رومان ہجرت کے چھٹے سال فوت ہوئیں ان کے لئے آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے خصوصی دعا فرمائی تھی ۔
حبیبہ بن خارجہ بن زید بن ابی زہیرہ الخزرجي …. ان کے بطن سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تیسری صاحبزادی ام کلثوم پیدا ہوئیں۔
اسماءؓ بنت عمیس … ان کا پہلا نکاح حضرت جعفر طیار سے ہوا تھا۔ جنگ موتہ میں جب وہ شہید ہوئے تو حضرت علیؓ نے اپنی بیوہ بھاوج کا نکاح حضرت ابو بکر صدیقؓ سے کر دیا تھا۔ ان کے ہاں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بیٹے محمد پیدا ہوئے ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد یہ حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں اور ان کے بطن سے یحیی اور زید پیدا ہوئے ۔
آنحضرت سے تعلق وصحبت
حضرت ابوبکر صدیقؓ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے عمر میں صرف دو سال چھوٹے تھے ۔ آپؓ ۱۸ سال کی عمر میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے دوست بنے اس وقت مکہ مکرمہ میں آپؓ کا شمار رؤسائے عرب میں ہوتا تھا۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی عمر اس وقت بیس سال تھی ۔ یہی باہمی تعلق اور قرب کا آغاز تھا جس کے باعث تادم آخر ایسی قرابت داری قائم ہوئی کہ دنیا بھر میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ اس طرح گویا آپؓ نے ۱۸ سال کی عمر سے لے کر 6۱ سال کی عمر تک ۴۳ سال کا طویل عرصہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے جمال نبوت کا مشاہدہ کیا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کا قبول اسلام
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے اعلان نبوت کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ الکبری کے علاوہ اگر سب سے پہلے کسی نے آپ صلى الله عليه وسلم کی آواز پر لبیک کہا تو وہ صدیقؓ اکبر کی ذات تھی ۔ حضرت زید اور حضرت علی میں ایک کی حیثیت زرخرید غلام کی تھی تو دوسرے کی حیثیت حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے چچازاد یعنی ایک گھر یلو فرد کی تھی ۔ یہ دو حضرات اسی موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ایسے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی والہانہ محبت اور قبول اسلام میں پہل کے بارے میں خود آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہی سب سے موزوں اور وقیع شہادت ہے ۔
حضرت ابو بکر کے علاوہ کوئی شخص نہیں جس کو میں نے اسلام کی دعوت دی ہو اور اس نے بغیر تامل ،سوچ و بچارا اور غور فکر کے اسلام قبول کر لیا ہو ۔ الحدیث
مؤرخین نے ابتداء میں اسلام قبول کرنے والوں کی تقسیم کی ہے۔ بچوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ، غلاموں میں حضرت زید، عورتوں میں حضرت خدیجہ اور عام جوانوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سب سے پہلے اسلام لائے ۔
ایک موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
جب میں نے علیؓ کو اسلام پیش کیا تو انہوں نے فرمایا میں اپنے والد سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ انہوں نے ابو طالب سے پوچھا تو ابوطالب نے کہا میں نہ تو اسے روکتا ہوں اور نہ اسے قبول کرنے کا کہتا ہوں چناچہ اگلے روز حضرت علیؓ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا کلمہ پڑھ لیا۔ الحدیث
ابو بکر صدیقؓ کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات
وہ شخص جو صدق یعنی قرآن اور دین حق لے کر تشریف لائے ( ابو بکر صدیقؓ نے ) اس کی تصدیق کی ۔
عنقریب دور رکھا جائے گا اس شخص (یعنی ابوبکر صدیقؓ ) کو جو اپنے مال کو تزکیہ کے لئے ادا کرتے تھے اور اس کا منشا یہ نہیں تھا کہ کوئی اس کی ان نعمتوں کا بدلہ دے بلکہ اس کا منشاء اور عقیدہ اپنے رب اعلیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنی ہے اور قریب ہی وہ رب اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا۔
جبکہ نکال دیا تھا کا فروں نے ثانی اثنین ( یعنی حضرت محمد صلى الله عليه وسلم اور ابوبکر صدیقؓ ) کو جبکہ وہ دونوں حضرات غار میں تھے اور جبکہ اس نے اپنے ساتھی (یعنی ابو بکر صدیقؓ ) کو کہا تھا لا تحزن یعنی فکر مت کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔
البتہ سن لی اللہ تعالیٰ نے بات ان لوگوں کی جنہوں نے کہا تھا اللہ فقیر اور محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شان میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی احادیث
حضرت عمرہ بن العاص سے مروی ہے کہ نبی کر یم صلى الله عليه وسلم نے ان کو ذات السلاسل نامی سریہ میں بھیجا تھا تو وہ عمرہ بن العاص فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ لوگوں میں کون شخص اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ عائشہؓ صدیقہ میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ سوال کیا کہ مردوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ کون ہے، جواب دیا اس کے والد ماجد یعنی ابو بکر ہیں۔ اس کے بعد کون ؟ جواب دیا عمرؓ بن خطاب ہے ۔ اسی طرح کئی لوگوں کو شمار کیا ۔
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے کپڑے کو نخوت کرتا ہوا لٹکا تا ہے قیامت کے دن اللہ اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیقؓ فرمانے لگے کہ میرے کپڑے کا ایک حصہ بھی نیچے لٹکا رہتا ہے لیکن میں اس کے ذریعہ لوگوں سے معاہدہ لیتا ہوں تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ آپؓ ( یعنی ابو بکر ) تو اس کو تکبر کے لئے نہیں کرتے ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے ارشاد فرمایا کہ آج تم میں سے کس نے روزے کی حالت میں مزاح کیا ؟ ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میں نے ۔ اس کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم نے پوچھا تم میں سے آج کون جنازہ کے پیچھے چلا ؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا میں۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا میں نے ۔ پھر حضورصلى الله عليه وسلم نے پوچھا تم میں سے کس نے آج بیمار کی عیادت کی ؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا میں نے ۔ اس کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا میری یہ سب باتیں جس کے پاس جمع ہو گئیں وہ ضرور جنت میں داخل ہو کر رہے گا ۔
حضرت حنیفہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم میرے بعد ان دونوں یعنی ابوبک صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کی اقتداء کرنا۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ایک مرتبہ کوہ حراء پر تھے اور آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ اور عثمان اور علیؓ اور طلحہ اور زبیر تھے، اس وقت پتھر ہلنے لگے تو حضور صلى الله عليه وسلم نے اس کو حکم دیا کہ اے پتھر تو ٹھر جا! کیونکہ تیرے اوپر نبی صلى الله عليه وسلم ، صدیقؓ اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر صدیقؓ کے مال سے جتنا فائدہ مجھے پہنچا ہے اور کسی کے مال سے کبھی نہیں پہنچا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرصدیقؓ رونے لگے اور فرمانے لگے کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم میں اور میرا جتنا مال ہے سب آپ پر قربان ہیں ۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ہجرت کے موقع پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم ہمارے گھر تشریف لائے تو میرے والد ابو بکر آرام کر رہے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ! اے ابوبکر مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ میرے والد خوشی کی وجہ سے رور ہے ہیں پھر وہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ چلے گئے ۔ دونوں نے تین راتیں غار میں قیام کیا اس پر قرآن کی مشہور آیت ثانی اثنین نازل ہوئی ۔
اس کے بعد ایک موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت حسان بن ثابت کو فرمایا کہ کیا آپؓ نے ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں اشعار کہے ہیں ، تو اس پر حضرت حسان نے اشعار پڑھے ۔ چناچہ آپ صلى الله عليه وسلم یہ اشعار سن کر مسکرائے اور فرمایا: صدقت یا حسان اے حسان تو نے سچ کہا۔
ابو بکر صدیقؓ کی شان میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات عالیہ
ابوبكر خير الناس الا ان يكون نبی (معجم طبرانی)
ترجمہ: ابوبکر صدیقؓ سوائے نبیوں کے سب انسانوں سے افضل ہیں ۔
ارحم امتی بامتی ابوبکر صدیقؓ ترمذی شریف، موطا امام مالک
ترجمہ: میری امت میں میری امت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر صدیقؓ ہیں ۔
قال رسول الله صلى الله له انا اول من تنشق الارض عنه ثم ابوبكر ثم عمرؓ (ترمذی شریف، مستدرک حاکم)
ترجمہ: حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے میرے اوپر سے زمین کشادہ ہوگی ، پھر ابوبکر صدیقؓ کے ، پھر عمرؓ کے اوپر سے ۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم له انت صاحبی على الحوض وانت صاحبي في الغار (ترمذی شریف)
ترجمہ: حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اے ابو بکر تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہوا اور تم غار میں بھی میرے رفیق تھے۔
نو ۹ ہجری میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر الحجاج بنایا اور جب آنحضرت مرض الموت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے خود مسجد میں تشریف نہ لا سکے تو اپنے بجائے ان ( ابوبکر صدیقؓ ) کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
مروا ابابكر فليصل بالناس (بخاری و مسلم ،ترمذی، ابن ماجه)
ترجمہ: ابوبکر صدیقؓ کو میری طرف سے حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔
ما اوحى الى شيئى الاصبيه في صدر ابي بكر (الرياض النضرة)
ترجمہ: جو وحی مجھ پر نازل فرمائی گئی میں نے اس کو ابو بکر کے سینے میں نچوڑ دیا ہے۔
ما فضلكم ابوبكر بفضيلته صوم ولا صلوة ولكن بشيئى وقر بصدرة (الرياض النضرة)
ترجمہ: ابو بکر کو تم پر نماز یا روزہ کی وجہ سے فضیلت نہیں ہے بلکہ یہ فضیلت ایک باوقار چیز کی وجہ سے ہے جو ان کے سینہ میں ڈالی گئی (یعنی قوت ایمانی اور حسب نبوی صلى الله عليه وسلم ) ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صداقت
بخاری شریف میں حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا
ان الله بعثني اليكم فقلتم كذبت وقال ابوبكر صدقت و واسانى بنفسه وماله فهل انتم تاركون لي صاحبي
ترجمہ: یقین جانو کہ اللہ سبحانہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم لوگوں نے مجھے کہا کہ جھوٹ کہتے ہو ، صرف ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ آپ سچ فرماتے ہیں ( پھر یہی نہیں ) انہوں نے اپنی جان اور مال سے میری غم خواری کی تو کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو بحث و تنقید سے معاف رکھو گے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے وزیر ہیں
ترمذی شریف میں حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا
ہر نبی کے دو وز یر اہل آسمان میں سے اور دو وز یر اہل زمین میں سے ہوتے ہیں ۔ میرے وزیر اہل آسمان میں سے جبریل و میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے ابوبکر صدیقؓ وعمرؓ ہیں ۔ ( اگر آسمان والے بے وفا نہیں تو زمین والے کیسے بے وفا ہو سکتے ہیں ) ۔
حوالہ جات از مشکوة شریف در مناقب صدیقؓ
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ احسان مجھ پر ابوبکر صدیقؓ کی خدمت اور مال کا ہے اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے، حضور والہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا
اگر میں کسی کو خاص دلی دوست بناتا تو ابوبکر صدیقؓ کو بناتا مگر ابوبکر صدیقؓ میرا بھائی اور ساتھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھی (یعنی میری ذات ) کو خاص دوست بنالیا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ، مرض کی حالت میں مجھ سے رسول گرامی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کو اور اپنے والد یعنی ابوبکر صدیقؓ کو بلاؤ تا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں کوئی خلافت کی آرزو کرنے والا آرزو نہ کرنے لگے اور کہیں کوئی کہنے والا چہ مہ گوئیں نہ کرنے لگے، ( مگر خیر رہنے دو ) اللہ تعالیٰ اور مسلمان سوائے ابوبکر صدیقؓ کے کسی کی خلافت کو نہ مانیں گے ۔
حضرت جبیران مفعم کہتے ہیں کہ ایک عورت نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر کسی معاملہ کے متعلق کچھ گفتگو کی رسول اقدس نے اس کو حکم دیا کہ پھر دوبارہ میرے پاس آنا ۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اگر میں پھر آؤں اور آپ نہ ملیں (اگر آپ وفات پا جائیں ) تو کیا کروں؟ فرمایا : اگر میں نہ ملوں تو ابوبکر صدیقؓ کے پاس چلی جانا۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ابوبکر صدیقؓ ہمارے سردار ہیں ، ہم سب سے افضل اور ہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پیارے ہیں ۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں ، حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا جس قوم میں ابوبکر صدیقؓ موجود ہوں ان کی امامت ابوبکر صدیقؓ کے علاوہ کسی اور کو نہ کرنی چاہیے۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں ایک بار رسول پاک صلى الله عليه وسلم نے ہم کو صدقہ دینے کا حکم دیا۔ اتفاق سے اس حکم کے وقت میرے پاس مال موجود تھا، میں نے کہا اگر میں ابوبکر صدیقؓ سے سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا ۔ چناچہ میں نصف مال لے کر خدمت عالی میں حاضر ہوا، رسول پاک صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا اتنا ہی ، اور ابوبکر صدیقؓ اپنا کل مال لے کر آئے تھے۔ ضور صلى الله عليه وسلم نے ان سے فرمایا ابوبکر ! تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسول ۔ میں نے یہ سن کر دل میں کہا کہ اب میں کبھی ابوبکر صدیقؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔
حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہیں ایک روز ابوبکر صدیقؓ حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، سرکار عالی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم دوزخ سے خدا کے آزاد کردہ ہو، اسی روز سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نام عتیق ہو گیا ۔ ( عتیق اسے کہتے ہیں جو رہائی پاچکا ہو )
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلى الله عليه وسلم نے فرمایا سب سے پہلے میں قبر سے اٹھایا جاؤں گا ، پھر ابو بکر ، پھر عمرؓ ، پھر میں بقیع کے مدفنونوں کی طرف جاؤں گا اور ان کو اٹھا کر میرے ساتھ کر دیا جائے گا ۔ ( وہاں عثمان مدفون ہیں )۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے تھے، میرا ہاتھ پکڑ کر انہوں نے مجھے جنت کا دروازہ دکھلایا جس سے میری امت جنت میں داخل ہوگی ۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ہوتا تو میں بھی دیکھ سکتا، فرمایا ابوبکر صدیقؓ ! تم تو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے ۔
حضرت عمرؓ کے سامنے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذکر آیا تو آپ رونے لگے اور فرمایا : میں اس بات کو دل سے پسند کرتا ہوں کہ میرے کل اعمال ابوبکر صدیقؓ کے ایک رات اور ایک دن کے اعمال کے برابر ہو جائیں ۔
رات سے مراد وہ رات ہے، جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ حضور گرامی صلى الله عليه وسلم کے ہم رکاب غار ثور کی طرف چلے تھے۔ جب غار پر پہنچے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا خدا کی قسم آپ صلى الله عليه وسلم اندر نہ جائیں میں جاتا ہوں، اگر اس کے اندر کچھ ہوگا تو آپ صلى الله عليه وسلمے بچ جائیں گے اور جو کچھ گزند ہونا ہے مجھے ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر اندر داخل ہوئے غار کو صاف کیا ایک طرف چند سوراخ نظر آئے ان کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا پھر بھی دوسوراخ رہ گئے تو دونوں پاؤں سے ان کے دہانے بند کر دیے ، پھر رسول پاک صلى الله عليه وسلم سے کہا اب اندر تشریف لے آئیے ۔ حضور اندر تشریف لے گئے اور ابوبکر صدیقؓ کی گود میں سرمبارک رکھ کر سو گئے کہ ابوبکر صدیقؓ کے پاؤں میں سوراخ کے اندر سے سانپ نے کاٹ لیا مگر حضور صلى الله عليه وسلم کی بیداری کے خوف سے ابوبکر صدیقؓ نے حرکت نہ کی۔ جب آنسو رسول پاک صلى الله عليه وسلم کے چہرہ پر ٹپکے، آپ صلى الله عليه وسلم نے بیدار ہوکر فرمایا: ابوبکر صدیقؓ کیابات ہے؟ ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا حضورصلى الله عليه وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں، مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے؟ حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنا لعاب دہن لگا دیا، ابوبکر صدیقؓ کی تکلیف جاتی رہی۔ مدت کے بعد پھر اس کا دورہ پڑا اور یہی ان کی وفات کا سبب ہوا۔ دن سے مراد وہ دن ہے کہ جس دن آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات ہوئی تو کچھ اہل عرب مرتد ہو گئے اور کہنے لگے ہم زکوۃ نہیں دیں گے ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اگر اونٹ کا ایک زانو بند بھی یہ لوگ مجھے نہ دیں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے کہا اے رسول اللہ الا اللہ کے خلیفہ ! لوگوں سے نرمی اور الفت سے پیش آئے ۔ فرمایا : زمانہ جاہلیت میں تو ، تو بڑا سخت اور غصہ ور تھا اور اب کیا اسلام میں بزدل اور نامرد بنتا ہے، بات یہ ہے کہ وحی کا سلسلہ تو منقطع ہو گیا، اب دین کامل ہو چکا اب میری زندگی میں دین میں نقصان آ سکتا ہے؟
حضرت علیؓ کے صاحبزادے حضرت محمد بن حنیفیہ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد افضل کون ہے؟ فرمایا ابوبکر صدیقؓ ۔ میں نے کہا ان کے بعد؟ فرمایا: عمرؓ
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے لکھا ہے کہ احادیث سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت چار وجوہات سے معلوم ہوتی ہیں
پوری امت میں سب سے اعلیٰ مقام پانا صدیقت ہے ۔
ابتدائے اسلام ہی سے آنحضرت کی اعانت کرنا۔
نبوت کے کاموں کو تکمیل تک پہنچانا۔
آخرت میں اعلیٰ مرتبہ پانا۔
حضرت محمد اللہ سے ابو بکر صدیقؓ کے عشق و محبت کا اہم واقعہ
حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کفار کی طرف سے بہت سی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں ان میں سے ایک دن یہ المناک واقعہ پیش آیا کہ حضور صلى الله عليه وسلم دار ارقم میں تشریف فرما تھے ۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ بار بار حضور صلى الله عليه وسلم سے اصرار کرنے لگے کہ یا رسول اللہ کفارا اپنے باطل معبودوں کی عبادت کھلم کھلا کرتے رہتے ہیں اور ان کی باتیں بر سر عام پھیلاتے ہیں اور ہم حق پر ہونے کے باوجود کیوں خاموش رہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے اسلام کو بر سر عام اعلان کر دیں۔ ان کے اس اصرار پر حضور صلى الله عليه وسلم ان کو تسلی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے ابو بکر ہم تو اب تک تھوڑے ہیں اب تک اعلان کا وقت نہیں آیا ۔ یہ فرما کر حضور صلى الله عليه وسلم اپنے اصحاب سمیت تشریف لے گئے اور ادھر حضرت ابوبکر صدیقؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جا کر لوگوں کو اعلان اسلام کرتے رہے اور حضور صلى الله عليه وسلم کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رہے۔ اسلام کا سب سے پہلا اعلان اور خطبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خانہ کعبہ کے سامنے دیا۔ یہ اعلان اور خطبہ سنتے ہی مشرکین مکہ نے آپؓ پر اور سارے مسلمانوں پر حملہ شروع کر دیا اور بہت سخت مارا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو پاؤں سے روندنے لگے اور آپ کو بہت تکلیف پہنچائی گئی اور عتبہ بن ربیعہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنی منقش جوتیوں سے مارنے لگا اور ان کے چہرے کو بگاڑ دیا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے قبیلے کے لوگ آگئے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور ان کی موت پر ان کو یقین ہو گیا کہ وہ مر ہی جائیں گے ۔ اس کے بعد وہ لوگ مسجد حرام میں واپس آئے اور اعلان شروع کر دیا کہ ابوبکر صدیقؓ کا انتقال ہو جائے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے سردار عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے ۔ پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے ، آپ بے ہوش تھے حتی کہ دن کا آخری حصہ آیا اس کے بعد کلام کرنا شروع کیا اور ہوش سنبھالتے ہی جو بات زبان سے نکلی وہ یہ تھی کہ حضور صلى الله عليه وسلم کا کیا حال ہے؟یہ سن کر لوگ آپ کو ملامت کرنے لگے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی بات حضور صلى الله عليه وسلم کا کیا حال ہے دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی والدہ فرمانے لگی کہ حضور صلى الله عليه وسلم کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے ۔
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ
آپؓ ام جمیل کے پاس جاؤ اور ان سے پتہ کرو کہ حضور صلى الله عليه وسلم اس وقت کہاں ہیں ۔ چناچہ ان کی والدہ ام جمیل کے پاس گئیں اور پوچھا کہ اے ام جمیل تم محمد بن عبد اللہ کو جانتی ہو وہ کہاں ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں محمد صلى الله عليه وسلم بن عبد اللہ کو جانتی ہوں اور نہ ابوبکر صدیقؓ کو جانتی ہوں ۔
اس کے بعد ام جمیل نے کہا کہ کیا میں تمہارے ساتھ اس کو دیکھنے کے لئے چلوں؟ والدہ نے فرمایا کہ ہاں اور وہ سیدھا ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئیں ۔ فرمایا ابوبکر صدیقؓ کی حالت دیکھ کر اس نے چیخ ماری اور کہنے لگی کہ بے شک قوم نے تیرے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا۔ میں امید رکھتی ہوں کہ اللہ اس قوم سے تیرا بدلہ لے گا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ام جمیل کو فرمایا کہ تم بتاؤ کہ حضور صلى الله عليه وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ یہ تیری والدہ بیٹھی ہوئی ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میری والدہ آپؓ کا راز کسی کے پاس نہیں کھولیں گی ۔ یہ سن کر ام جمیل نے حضور صلى الله عليه وسلم کی حالت کے بارے میں بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور اس وقت حضور صلى الله عليه وسلم دار ارقم میں صحیح سالم موجود ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر نے فرمایا اس وقت تک کچھ کھانا نہیں کھاؤں گا اور نہ پیوں گا جب تک کہ حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو جاؤں ۔ یہ سن کر ان کی والدہ نے فرمایا کہ لوگوں کی پریشانی دور ہوگئی ۔
جب انہیں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں لے گئے اور حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ حال دیکھا تو حضور صلى الله عليه وسلم پر بڑی رقت طاری ہوگئی ۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اس وقت مجھے کفار کی طرف سے کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر یہ کہ لوگوں نے میرے چہرے پر حملہ کر کے زخم پہنچایا اور یہ میری والدہ ہے جو اپنے لڑکے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والی ہیں ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کو جہنم کی آگ سے نجات عطا فرمائے ۔ فوراً حضور صلى الله عليه وسلم نے ان کی والدہ کے لئے دعا فرمادی اور ساتھ ساتھ ان کو اسلام کی دعوت دی ، پس وہ اس وقت مسلمان ہو گئیں ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صفات و کمالات
شجاعت
حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے سوال کیا کہ تمہارے نزدیک شجاع ترین کون شخص ہے؟ سب نے عرض کیا! آپؓ۔ آپؓ نے فرمایا میں ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑے سے لڑتا ہوں یہ کوئی شجاعت نہیں۔ تم شجاع ترین شخص کا نام لو، سب نے کہا ہمیں معلوم نہیں ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ شجاع ترین حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں ، یوم بدر میں ہم نے رسول اللہ لے کے لئے انہیں سائبان پایا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے پاس کون رہے گا کہ مشرکین کو آپ صلى الله عليه وسلم پر حملہ کرنے سے باز رکھے۔ قسم خدا کی ہم میں سے کسی شخص کی ہمت نہ پڑی مگر ابوبکر صدیقؓ ننگی تلوار لئے کھڑے ہو گئے اور کسی کو پاس نہ پھٹکنے دیا اور جس شخص نے آپ صلى الله عليه وسلم پر حملہ کیا ، ابوبکر صدیقؓ اس پر حملہ آور ہوئے ۔
ایک دفعہ مکہ معظمہ میں مشرکین نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پکڑ لیا اور آپ صلى الله عليه وسلم کو گھسیٹنے لگے اور کہنے لگے کہ تو ہی ہے جو ایک خدا بتا تا ہے۔
واللہ! کسی کو کفار کے مقابلے کی جرات نہ ہوئی مگر ابو بکر صدیقؓ آگے بڑھے اور کفار کو مار مار کر ہٹاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ہائے افسوس! تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا خدا ایک ہے۔ یہ فرما کر حضرت علیؓ رو پڑے اور فرمانے لگےبھلا یہ تو بتاؤ مومن آل فرعون اچھے ہیں یا ابوبکر صدیقؓ ؟ لیکن جب لوگوں نے جواب نہ دیا تو فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے؟ واللہ! ابوبکر صدیقؓ کی ساعت ان کی ہزار ساعت سے بہتر ہے وہ تو ایمان کو چھپاتے تھے اور ابوبکر صدیقؓ نے ایمان کو ظاہر کیا۔
سخاوت
صحابہ کرام میں سب سے زیادہ سخی تھے ۔ وسیجنبها الاتقى الذى يوتى ماله يتزكى کے محور و مصداق آپؓ ہی ہیں ۔ چناچہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جتنا مجھے ابوبکر صدیقؓ کے مال سے نفع پہنچا ہے کسی کے مال سے نہیں پہنچا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ رو کر عرض کرنے لگے کہ میں اور میرا مال کیا چیز ہے جو کچھ ہے سب آپ صلى الله عليه وسلم ہی کے طفیل ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلمہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مال میں ویسا ہی تصرف فرماتے تھے جیسا اپنے مال میں ۔ جس روز حضرت ابو بکر صدیقؓ ایمان لائے ہیں اس روز ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، آپ نے وہ سب کے سب آنحضرت صلى الله عليه وسلم پر خرچ کر دیئے ۔ ایک روز حضرت عمرؓ جیش عسرت یا جنگ تبوک کے چندہ کا تذکرہ فرما کر کہنے لگے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے جب ہمیں مال تصدق کرنے کا حکم دیا تو میں نے حضرت ابو بکر سے بڑھ کر مال تصدق کرنے کا مصمم ارادہ کہا اور اپنا نصف مال تصدق کر دیا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے دریافت کیا کہ اپنے اہل وعیال کے واسطے کچھ چھوڑا ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ باقی نصف ۔ اتنے میں ابوبکر صدیقؓ اپنا سارا مال لئے ہوئے آگئے ، آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ان سے بھی وہی سوال کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اہل و عیال کے لئے خدا اور رسول صلى الله عليه وسلم کافی ہے۔ میں نے یہ دیکھ کر کہ میں ابو بکر صدیقؓ سے کسی بات میں نہ بڑھ سکوں گا ۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
میں سب کا احسان اتار چکا ہوں البتہ ابو بکر صدیقؓ کا احسان باقی ہے، اس کا بدلہ تو قیامت کے دن خدائے تعالیٰ دے گا ۔ کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا ابو بکر صدیقؓ کے مال سے ۔
علم وفضل
آپؓ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ عالم اور ذکی تھے ۔ جب کسی مسئلے کے متعلق صحابہ کرام میں اختلاف رائے ہوتا تو وہ مسئلہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ آپؓ اس پر جو حکم لگاتے وہ عین ثواب ہوتا ۔ قرآن شریف کا علم آپ کو سب صحابیوں سے زیادہ تھا اسی لئے آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے آپ کو نماز میں امام بنایا۔ سنت کا علم بھی آپ کو کامل تھا۔ اسی لئے صحابہ کرام مسائل سنت میں آپؓ سے رجوع فرماتے تھے ۔ آپ کا حافظہ بھی قوی تھا۔ آپؓ نہایت ذکی الطبع تھے ۔
آپؓ کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا فیض صحبت ابتدائے جوانی سے وفات تک حاصل رہا۔ زمانہ خلافت میں جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپؓ قرآن شریف میں اس مسئلہ کو تلاش فرماتے اگر قرآن شریف میں نہ ملتا تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے قول و فعل کے مطابق فیصلہ کرتے ۔ اگر ایسا قول و فعل کوئی نہ معلوم ہوتا تو باہر نکل کر لوگوں سے دریافت فرماتے کہ تم میں کسی نے کوئی حدیث اس معاملے کے متعلق سنی ہے؟ اگر کوئی صحابی ایسی حدیث بیان نہ فرماتے تو آپؓ جلیل القدر صحابہ کو جمع فرماتے اور ان کی کثرت رائے کے موافق فیصلہ صادر فرماتے
حضرت ابوبکر صدیقؓ عرب بھر کے بالعموم اور قریش کے بالخصوص بڑے نساب تھے ،حتی کے جبیر بن مفعم جو عرب کے بڑے نسابوں میں شمار ہوتے ہیں ، حضرت صدیقؓ اکبر کے خوشہ چین تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں نے علم نسب عرب کے سب سے بڑے نساب سے سیکھا ہے ۔
علم تعبیر میں بھی آپؓ کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے عہد میں آپؓ خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے ۔ امام محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ رسول خدا صلى الله عليه وسلم کے بعد ابو بکر صدیقؓ سب سے بڑے معبر ہیں ۔ آپؓ سب سے زیادہ فصیح تقریر کرنے والے تھے۔ بعض اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابہ میں سب سے زیادہ فصیح ابوبکر صدیقؓ و علیؓ تھے۔ تمام صحابہ میں آپؓ کی عقل کامل اور اصابت رائے مسلم تھی ۔
حسن معاشرت
عطاء بن صائب کہتے ہیں کہ بیعت خلافت کے دوسرے دن حضرت ابوبکر صدیقؓ دو چادریں لئے ہوئے بازار کو جاتے تھے ۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا آپؓ کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا بازار ۔ حضرت عمر نے کہا اب آپؓ یہ کام چھوڑ دیں، آپؓ مسلمانوں کے امیر ہو گئے ہیں۔
آپؓ نے فرمایا ، پھر میں اور میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ کام ابو عبیدہ کے سپرد کیجئے ۔ چناچہ دونوں صحابہ ابو عبیدہ کے پاس گئے اور ان سے ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ میرا اور میرے اہل وعیال کا نفقہ مہاجرین سے وصول کردیا کر ۔ ہر چیز معمولی حیثیت کی چاہیے، گرمی اور جاڑوں کے کپڑوں کی بھی ضرورت ہوگی ، جب پھٹ جایا کریں گے تو ہم واپس کر دیا کریں گے اور نئے لے لیا کریں گے۔
چناچہ حضرت ابوعبیدہ ہر روز آپؓ کے یہاں آدھی بکری کا گوشت بھیج دیا کرتے تھے۔ ابوبکر صدیقؓ بن حفص کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انتقال کے وقت حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ مسلمانوں کے کام کرنے کی اجرت میں ، میں نے کوڑی پیسے کا فائدہ حاصل نہیں کیا ،سوائے اس کے موٹا جھوٹا پہن لیا اس وقت مسلمانوں کا تھوڑا یا بہت کوئی مال سوائے اس حبشی غلام، اونٹنی اور پرانی چادر میرے پاس نہیں ہے ۔ جب میں مرجاؤں تو ان سب کو عمرؓ کے پاس بھیج دینا۔
سید نا حسن بن علیؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انتقال کے وقت حضرت عائشہؓ صدیقہ سے فرمایا کہ میرے مرنے کے بعد یہ اونٹنی جس کا دودھ ہم پیتے تھے اور یہ بڑا پیالہ جس میں ہم کھاتے تھے اور یہ چادریں، عمرؓ فاروق کے پاس بھیج دینا کیونکہ میں نے ان چیزوں کو بحیثیت خلیفہ ہونے کے بیت المال سے لیا تھا۔ جب حضرت عمرؓ کو یہ چیزیں پہنچیں تو انہوں نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ ابوبکر صدیقؓ پر رحم فرمائے کہ میرے واسطے کیسی کچھ تکلیف اٹھائی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیت المال میں کبھی مال و دولت جمع نہیں ہونے دیا ، جو کچھ آ تا مسلمانوں کے لئے خرچ کر دیتے ، فقراء ومساکین پر بحصہ مساوی تقسیم کر دیتے تھے۔ کبھی گھوڑے اور ہتھیار خرید کر فی سبیل اللہ دے دیتے۔ کبھی کچھ کپڑے لے کر غرباء صحرانشین کو بھیج دیتے حتی کہ جب عمرؓ نے آپؓ کی وفات کے بعد معہ اور چند صحابہ کے بیت المال کا جائزہ لیا تو بالکل خالی پایا۔ محلہ کی لڑکیاں اپنی بکریاں لے کر آپؓ کے پاس آجایا کرتیں اور آپؓ سے دودھ دھوہا کر لے جاتیں۔ صدیق اکبر بہت سے آدمیوں میں مل جل کر اس طرح بیٹھتے کہ کوئی پہچان بھی نہ سکتا تھا کہ ان میں خلیفہ کون ہے ۔
معجزات رسول صلى الله عليه وسلم میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی شرکت کا واقعہ
سن ۲۷ صفر ۱۳ نبوت شب پنج شنبہ کو نبی صلى الله عليه وسلم نے ہجرت فرمائی ۔ حضور صلى الله عليه وسلم اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لائے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم ان کو ساتھ لے کر تاریکی شب میں مکہ سے جانب جنوب کوہ ثور کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستہ سنگلاخ اور دشوار گزار تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو کندھے پر اٹھالیا تا کہ حضور صلى الله عليه وسلم کے پاؤں مبارک نکیلے پتھروں سے زخمی نہ ہونے پائیں ۔ آخر ایک غار پر پہنچ کر سید نا ابوبکر صدیقؓ نے نبی کو باہر ٹھرایا اور خود اندر گئے ، غار کو صاف کیا، بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر تمام روزن بند کیے پھر نبی صلى الله عليه وسلم سے اندر تشریف لانے کے لئے عرض کی ۔
صبح کو قریش سید نا ابو بکر کے گھر پہنچے دروازہ کھٹکٹایا، اسماءؓ بنت ابو بکر باہر نکلیں ۔ ابوجہل نے کہا لڑ کی تیرا باپ کہاں ہے؟ کہا مجھے کیا خبر ، اس پر ابو جہل نے حضرت اسماء کے ایک طمانچہ ایسا کھینچ مارا کہ ان کے کان کی بالی نیچے گرگئی ۔
اب قریش حضور یا اللہ کی تلاش میں نکلے اور چلتے چلتے غار کے دہانہ پر آگئے ۔ سیدنا ابو بکر نے آہٹ پائی تو عرض کی دشمن بالکل قریب آگیا ہے اگر انہوں نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو ہمیں دیکھ لیں گے ۔
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا لا تحزن ان الله معنا (پاره ۱۰ ، رکوع (۱۳)
ترجمہ : گھبراؤ نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے۔
اللہ اکبر ! یہ کمال فضل و شرف ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس محبت میں جس میں نبی صلى الله عليه وسلم کو لے لیا تھا ،سید نا ابوبکر صدیقؓ کو بھی شامل فرما دیا۔
حضرت اسماءؓ بنت ابوبکر صدیقؓ کا بیان ہے کہ ابا تو تمام زر نقد جو پانچ چھ ہزار درہم تھا، اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ ان کے چلے جانے کے بعد میرے دادا نے کہا: لڑکی معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر تمہیں بھوکا پیاسا چھوڑ گیا ہے اور تمہارے لئے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا ( وہ نابینا تھے ) ۔ میں نے کہا: دادا جان ! وہ ہمارے لئے کافی مال چھوڑ گئے ہیں ۔
اسماءؓ نے ایک پتھر لیا اسے کپڑے میں لپیٹ کر اس گڑھے میں رکھ دیا جس میں مال رکھا ہوتا تھا پھر دادا کا ہاتھ پکڑ کر لے گئیں ، کہا ہاتھ لگا کر دیکھئے سب مال موجود ہے۔ ابی قحافہ نے ٹول کر کہا خیر اب ابوبکر صدیقؓ کے چلے جانے کا زیادہ افسوس نہیں ۔
اللہ اکبر! یہ قوت ایمانیہ بیشک صدیقؓ اکبر ہی کی بیٹی کی ہو سکتی ہے۔ آج بڑے بڑے مشہور مدعیان علم وفضل اور صاحبان زہد و ورع اور سخی و جواد ترین لوگ بھی ایسے وسیع الظرف اور عالی حوصلہ نہیں پائے جاتے ، وہ بھی آزمائش کے مقامات میں اکثر ڈگمگا جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب اہل ایمان پر رحم فرمائے اور ہمیں صحابہ کرام اور اسلاف عظام کے اسوہ نیک پر پیروی کی توفیق خیر سے بہرہ ور فرمائے ۔ ( آمین )
الغرض نبی صلى الله عليه وسلم اور ابوبکر صدیقؓ اس غار میں تین دن رہے۔ رات کے اندھیرے میں اسماءؓ بنت ابوبکر صدیقؓ گھر سے روٹی دے جایا کرتیں۔ عبداللہ بن ابوبکر اہل مکہ کی باتیں سنا جاتے ۔ عامر بن فہیرہ سیدنا ابوبکر کی بکریوں کے چرواہے تھے ،شب کوریوڈ لا کر بقدر ضرورت دودھ دے جاتے نیز ریوڑ سے وہاں آنے والوں کے آثار قدم کو بھی مٹا جاتے ۔
تین روز کے بعد لوگوں میں یہ چر چا دب گیا۔ چوتھی شب عبد اللہ بن ابی بکر مکہ سے دو اونٹیاں جن کو سید نا ابو بکر صدیقؓ نے کچھ عرصہ پہلے ہجرت کے لئے تیار کر رکھا تھا ، لے کر حاضر ہوئے ۔ حضرت اسماءؓ بنت ابوبکر صدیقؓ گھر سے راستہ کے لئے خوراک لائیں ،اسے اونٹ پر باندھ کر لٹکانے کے لئے رسی درکارتھی ۔ رسی تو وہاں نہ ملی ، حضرت اسماءؓ نے اپنا نطاق کو دوحصوں میں پھاڑا اور اس کے ایک حصہ سے زاد راہ کو کچا وہ سے باندھ دیا اور دوسرے حصہ سے اپنی کمر کو باندھا ، اس موقع پر نبی صلى الله عليه وسلم نے ذات النطاقین سے انہیں ملقب فرمایا۔ (نطاق اس کپڑے کو کہتے ہیں جو چٹکے کی مانند عرب کی عورتیں کمر سے باندھا کرتی تھیں جس کا ایک سرا گھٹنے تک اور دوسرا نیچے تک لٹکتا تھا) ۔
اس سفر مبارک کا بیان بہ زبان صدیقؓ حسب ذیل ہے
ایک اونٹنی پر نبی صلى الله عليه وسلم اور دوسری پر عامر بن فہیرہ (حضرت ابو بکر کے غلام ) اور عبد اللہ بن اریقط ( جسے رہبری کے لئے نوکر رکھ لیا تھا ) سوار ہوئے اور صبح سویرے ہی شب کی تاریکی میں یہاں سے جانب مدینہ روانہ ہوئے ۔ سارا دن اور ساری رات سفر مسلسل جاری رہا۔
دوسرے دن دو پہر کو جب دھوپ سخت ہوگئی تب ذرا ٹھہرے ۔ میں نے نظر دوڑائی ، ایک چٹان دکھائی دی، اس کے سایہ میں نبی صلى الله عليه وسلم کے لئے جگہ صاف کر کے ایک کپڑا بچھایا۔ نبی صلى الله عليه وسلم لیٹ گئے اور میں دودھ کی تلاش میں نکلا۔ اسی اثناء میں ایک چرواہا بکریاں چراتے ہوئے نظر آیا۔
میں نے اس سے دریافت کیا کہ ان بکریوں میں دودھ ہے؟ کہا ہاں ہے ۔ تب میں نے اسے دودھ دہنے کے لئے کہا اور اول اس کے ہاتھ صاف کرائے ، پھر برتن کے منہ پر کپڑا باندھ کر اس کو دیا۔ وہ دودھ لے آیا تو میں نے اسے خوب ٹھنڈا کیا اور اس میں قدرے پانی ملا کر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی خدمت مبارک میں لایا ۔ حضور صلى الله عليه وسلم بیدار ہو چکے تھے ۔ میں نے دودھ پیش کیا ، آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اسے نوش فرمایا ۔ میں بہت شادماں تھا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔
پھر میں نے عرض کی کہ چلنے کا وقت ہو گیا ہے، پھر ہم وہاں سے سوار ہو گئے ۔ راہ میں سراقہ بن مالک ملا ، یہ اس وقت تک اسلام سے مشرف نہ ہوا تھا اور کفار سے ایک سو اونٹ کے انعام کا وعدہ لے کر حضور صلى الله عليه وسلم کی گرفتاری کے ارادہ سے تلاش میں چلا آ رہا تھا۔ جب بہت نزد یک آپہنچا تب نبی صلى الله عليه وسلم نے زبان مبارک سے فرمایا : اے اللہ جس طرح تجھے منظور ہو اسے روک لے۔ زمین اگر چہ بہت سخت تھی مگر سراقہ کا گھوڑا زمین میں ھنس گیا۔ سراقہ نیچے اتر پڑا اور حضور صلى الله عليه وسلم سے معافی کا خواسگار ہوا ۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے معاف فرما دیا اور حضور صلى الله عليه وسلم کی دعا سے اس کا گھوڑا نکل آیا اور وہ واپس لوٹ گیا۔ الغرض ،۱۲ ربیع الاول بروز جمعہ سنہ ایک ہجری بوقت سہ پہر یہ دشوار گزار سفر ختم ہوا اور آنحضرت ملے مدینہ میں داخل ہوئے ۔
حضرت محمد صلى الله عليه وسلم مدینہ میں سیدنا ابو ایوب انصاری کے ہاں فروکش ہوئے اور ابو بکر صدیقؓ مقام سخ میں حبیب بن اساف اور بروایت زید بن خارجہ بن ابی زہیر کے ہاں ٹھہرے۔ یہ ہر دو بزرگ قبیلہ بنی حسرت بن خزرج سے ہیں ۔ مدینہ میں قیام فرما کر نبی صلى الله عليه وسلم نے سنہ ایک ہجری میں با ہمی ارتباط ونصرت کے لئے مہاجرین و انصار کے درمیان سلسلہ مواخات عقد فرمایا، ابوبکر صدیقؓ کے بھائی زید بن خارجہ ابی زہیر انصاری بنائے گئے ۔
سیدنا صدیقؓ اکبر کی آخری گھڑیاں
آپؓ نے 22 جمادی الثانی سنہ 13 ہجری بروز شیبہ 63 برس کی عمر میں مابین مغرب و عشاء اس دار فانی سے عالم بقا کی طرف انتقال فرمایا اور شب انتقال ہی کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پہلوئے مبارک میں آپؓ کو دفن کیا گیا۔ انتقال سے پیشتر فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پہلو میں دفن کرنا اور اسی چادر میں جو اس وقت پہنے ہوئے ہوں مجھے کفن دینا کیونکہ زندہ کومردہ کی نسبت نئے کپڑے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسماءؓ بنت عمیس (زوجہ صدیقؓ ) مجھے غسل دیں اور عبدالرحمن ( پسر صدیقؓ) ان کی مدد کریں۔ پھر اپنے مال میں سے پانچواں حصہ فی سبیل اللہ خیرات کرنے کی وصیت فرمائی اور فرمایا
اخذ من مالى ما اخذ الله من في المسلمين
جتنا حصہ مال فے میں اللہ تعالیٰ منظور فرماتا ہے ، میں اتنا ہی حصہ اس کی راہ میں خیرات کرتا ہوں ۔
پھر دریافت فرمایا: دیکھو ابتدائے خلافت سے اس وقت تک میں نے کس قدر مال لیا ہے؟ اس قدر رقم کو میری طرف سے ادا کرو۔
سید ناصدیقؓ اکبر کی وفات پر صحابہ کی تقریریں
آپؓ کے انتقال پر سیدہ عائشہؓ نے فرمایا
پیارے باپ ! خدا آپؓ کے چہرہ کو نورانی کرے اور آپؓ کی کوششوں کا نیک پھل لائے ۔ آپؓ نے اپنے اٹھ جانے سے دنیا کو ذلیل اور عقلی کو عزیز کر دیا۔ اگرچہ آپ کی مصیبت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے انتقال کے بعد سب سے بڑی مصیبت ہے اور آپؓ کی موت تمام حوادث سے بڑھ کر حادثہ ہے لیکن کتاب اللہ صبر پر نیک اجر کا وعدہ لاتی ہے، لہذا میں آپؓ پر صبر کر کے وعدہ الہی کے ایفاء کو پسند کرتی اور آپ کے لئے طلب مغفرت کرتی ہوں۔ خدا آپؓ کو اس رخصت کرنے والی کا سلام پہنچائے جس نے آپ ؓ کی زندگی سے نفرت کی نہ آپ ؓ کے حق میں قضائے الہی کو برا جانا۔
آپ ؓ کے انتقال پر سیدنا عمرؓ فاروق نے فرمایا
اے خلیفہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ! آپ ؓ نے اپنے بعد قوم کو سخت تکلیف میں مبتلا کر دیا۔ آپ ؓ کے گردراہ تک پہنچنا مشکل ہے پھر میں آپ ؓ تک کیونکر مل سکتا ہوں؟
آپ ؓ کے انتقال پر سید نا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا
اے ابو بکر ! خدا آپ ؓ پر رحم فرمائے ۔ بخدا آپؓ تمام امت میں سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ ایمان کو اپنا خلق بنایا۔
آپؓ سب سے بڑھ کر کامل الیقین ، سب سے زیادہ غنی تھے ۔ سب سے بڑھ کر نبی صلى الله عليه وسلم کی حفاظت کرنے والے اور سب سے بڑھ کر اسلام کی خدمت گزار اور سب سے بڑھ کر اسلام کے دوستدار تھے اور خلق وفضل و سیرت و صحبت میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے آپؓ کو سب سے زیادہ نسبت حاصل تھی ۔ خدا آپؓ کو اسلام اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے۔ آپؓ نے اس وقت رسول اللہ ہے کی تصدیق کی جب لوگوں نے تکذیب کی اور اس وقت غم خواری کی جب اوروں نے بخل کیا۔ جب لوگ نصرت و حمایت سے رکے رہے آپؓ نے اس وقت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ساتھ دیا۔ آپؓ کو خدا نے اپنی کتاب میں صدیقؓ فرمایا اور آپؓ کی شان میں والذي جاء بالصدق اور جو سچ لے کر آیا اور جس نے تصدیق کی فرمایا ہے ۔ اس سے مراد آنحضرت صلى الله عليه وسلم اور آپؓ ہیں ۔ بخدا آپؓ اسلام کا قلعہ تھے ۔ نہ آپؓ کی حجت میں غلطی ہوئی اور نہ آپؓ کی بصیرت میں ضعف آیا۔ جین آپ کو کبھی چھو بھی نہیں گیا۔ آپؓ پہاڑ کی مثل مضبوط تھے جسے نہ تند ہوا ئیں ہلاسکتی ہیں اور نہ اکھاڑنے والے اکھاڑ سکتے ہیں ۔ آپؓ ایسے ہی تھے جیسا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا یعنی ضعیف البدن ، قوی الایمان ، منکسر المزاج ، اللہ کے ہاں آپؓ عالی مرتبت تھے۔ زمین پر بزرگ اور مومنوں میں افضل تھے ۔ آپؓ کے سامنے کوئی بے جاطمع اور ناجائز خواہش نہیں کر سکتا تھا۔ آپؓ کے نزدیک کمزور قوی اور قوی کمزور تھا یہاں تک کہ طاقتور سے لے کر ضعیف کو اس کا حق دلادیا جائے ۔ خدا ہمیں آپؓ کے اجر سے محروم نہ کرے اور آپؓ کے بعد ہم کو گمراہ نہ کرے(آمین)