صحابہ کرام

حضرت خالد بن ولیدؓ

Hazrat Khalid ibn al Walid R.A

حضرت خالد بن ولیدؓ کا تعارف اور حالات زندگی

نام: ابو سلیمان خالد

والد کا نام و نسب : ولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم بن نیفتہ بن مرة۔ مرة آنحضرت کے ساتویں دادا ہیں اس وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ کا شجرہ نسب ساتویں پشت میں آنحضرت سے مل جاتا ہے۔

والدہ کا نام و نسب: حضرت خالد بن ولیدؓ کی والدہ کا نام لبابہ صغریٰ بنت الحارث ہے۔

 آپ ام المومنین بنت حارث کی ہمشیرہ ہیں اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خالد بن ولیدؓ کے حقیقی خالو ہیں۔

خاندان
حضرت خالد بن ولیدؓ کے چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں آپ کے بھائیوں میں ہشام ؓ اور ولید ؓمسلمان ہوئے۔ بہنوں میں سے ایک کی شادی حضرت صفوان بن امیہ کے ساتھ ہوئی تھی اور دوسری کی حارث بن ہشام کے ساتھ ۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے والد ولید مکہ کے رؤساء میں شمار ہوتے تھے مکہ مکرمہ سے لیکر طائف تک ان کے باغات تھے آپ کا تعلق مخذوم قبیلہ سے تھا جو قریش کے قبیلہ بنو ہاشم کے بعد مرتبہ میں دوسرے نمبر پر تھا آپ کے والد کی ثروت کا یہ حال تھا کہ ایک سال بنو ہاشم مل کر غلاف کعبہ چڑھاتے اور ایک سال ولید تنہا غلاف چڑھاتے تھے۔

پیدائش
حضرت خالد بن ولیدؓ کی پیدائش کی صحیح تاریخ کسی کتاب میں مذکور نہیں تاہم مختلف حوالوں سے صرف اس قدر معلوم ہے کہ ظہور السلام کے وقت آپ کی عمر 17 سال تھی۔

بچپن اور تربیت
عرب کے رواج کے مطابق حضرت خالد بن ولیدؓ کی پرورش بھی مکہ سے باہر دیہاتی ماحول میں ہوئی آپ نے ایسے ماحول میں ہوش سنبھالا جہاں شمشیر آرائی، جنگجویانہ سرگرمیاں زندگی کا لازمی جُز تھیں۔ نیز بازی، شهسواری، شمشیر زنی، جنگی داؤ پیچ سے ہر وقت پالا پڑتا تھا آپ بچپن ہی سے نڈر اور صاحب تدبر اور زیرک انسان تھے۔

شباب
حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک ایسے ماحول میں ہوش سنبھالا جہاں شہسواری، نیزہ بازی، شمشیر زنی اور جنگی دار بیچ کےسوا دوسرے کام بہت کم تھے۔  مشہور روایتوں کے مطابق حضرت خالد بن ولیدؓ بچپن ہی سے نہایت پھرتیلے نڈر اورصاحب تدبیر تھے۔ جوان ہو کر آپ کی شجاعت کا رنگ نکھرا اور آپ ؓ قریش کے منتخب جوانوں میں شمار ہونے لگے۔

مندرجہ ذیل واقعے سے بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کی جسمانی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔
جسے ابن عساکر نے بھی نقل کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ
بچپن میں ایک دفعہ حضرت عمر اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے کشتی لڑی اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت عمر ؓ کی پنڈلی کی ہڈی توڑ ڈالی جو کافی عرصہ علاج کے بعد ٹھیک ہوئی۔

حلیہ
آپ کے چہرے پر چیچک کے نشان تھے۔ جسم مضبوط اور گٹھا ہوا اور سینہ بہت کشادہ تھا۔
(از کتاب خالد بن ولیدؓ ۔ سید امیراحمد)

قبول اسلام سے پہلے
حضرت خالد بن ولیدؓ بھی اپنے والد کی طرح اسلام سے پہلے اسلام کے شدید مخالف تھے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرکارروائی میں وہ آگے آگے ہوتے تھے۔ جنگ بدر اور احد میں آپ کی صلاحیتیں اسلام کے خلاف صرف ہوئیں احد میں آخری مرحلے میں مسلمانوں کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کی بڑی وجہ خالد بن ولیدؓ تھے جنہوں نے احد کےعقبی درے سے مسلمانوں پر پے در پے وار کئے تھے مشرکین کے ایک دستے کی قیادت کرتے ہوئے خالد بن ولیدؓ نے ایسے زور دارانداز سے حملہ کیا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے حالانکہ اس سے چند لمحے پہلے اسی جنگ میں مکہ کے بڑے بڑے بہادر الٹے پاؤں بھاگ چکے تھے لیکن خالد بن ولیدؓ نے موقع پاتے ہی مسلمانوں پر اس شجاعت سے حملہ کیا کہ ہر طرف افرا تفری پھیل گئی جنگ احد کے بعد خالد بن ولیدؓ کی مسلمانوں سے دشمنی کا شہرہ دور دور تک ہو گیا عکرمہ بن ابی جہل ؓ اور عمرو بن عاص ؓ،  آپ ؓ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔

قبول اسلام
حضرت خالد بن ولیدؓ کا قبول اسلام بھی غیر معمولی سے کم نہیں، مورخین کے مطابق صلح حدیبیہ کے موقعہ پر آپ کے دل میں اسلام کی روشنی چمکنے لگی۔ صلح حدیبیہ اسلام کا ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جس کے ذریعے عرب کے بڑے بڑے سورما اسلام کے ظل عاطفت میں جگہ پاگئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے دل میں بھی غیر محسوس طور پر اسلام سے محبت پرورش پا رہی تھی۔ وہ دل و جان سے یہ بات محسوس کرتے تھے کہ کسی نہ کسی وقت سارے عرب پر اسلام کا پرچم بلند ہونے والا ہے۔ اس خیال سے انہوں نے قریب سے آنحضرت کی نقل و حرکت انداز گفتگو طرز عمل کردار اوراسوۃ حسنہ کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ انہوں نے بہت جلد محسوس کیا کہ آنحضرت اور آپ کے اصحاب بہت ہی پاکیزہ زندگی گزارنے والے لوگ ہیں۔ ان کی سچائی، بے نفسی، سادگی، حسن سلوک، رعب و جلال اور فکر و نظر کی جاذبیت دیکھ کر حددرجہ متاثر ہوئے۔ ادھر آنحضرت صلى الله عليه وسلم بھی آپ کی صلاحیتوں سے بے خبر نہ تھے۔ آپ کو وحی کے ذریعے اس کی خبر ہوئی کہ خالد بن ولیدؓ کا دل اسلام کی روشنی سے آراستہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے خالد بن ولیدؓ کے بھائی ولید سے جو اس سے پہلے آغوش اسلام میں آچکے تھے۔ فرمایا
خالد بن ولیدؓ پر اسلام کی سچائی ظاہر ہو چکی ہے۔ پھر وہ اسلام کیوں نہیں لاتا

آنحضرت اللہ کا یہ ارشاد سن کر حضرت ولید نے بھائی کے نام درج ذیل خط لکھا۔
بھائی معلوم نہیں آج آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو تم خود بخود کیوں یاد آگئے ، فرماتے تھے خالد بن ولیدؓ پر اسلام کی حقانیت ظاہر ہو چکی ہے۔ وہ اسلام کیوں نہیں لاتا، بھائی تمہارے لئے یہی مناسب ہے کہ جلد اگر دولت اسلام حاصل کر لو اور اس میں ایک لمحہ کی تاخیر نہ کرو۔
(از کتاب خالد بن ولیدؓ ۔ از سید امیر احمد صفحه ۱۸)

حضرت خالد بن ولیدؓ فرماتے ہیں کہ ولید ؓ کا خط دیکھتے ہی میری یہ حالت ہوگئی کہ بے اختیار میری زبان سے کلمہ توحید جاری ہو گیا۔ اور جی چاہا کہ پرلگا کر محمد صلى الله عليه وسلم کے پاس پہنچ جاؤں اوراپنا تن من سب آپ پر نثار کر دوں۔

چنانچہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مکہ سے مدینہ کا سفر کیا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ ایمان لانے کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
میں نے مدینہ پہنچتے ہی سفر کے کپڑے اتار کر عمده پوشاک زیب تن کیا اور حضور اقدس کی خدمت میں حاضری کا ارادہ کیا اسی جگہ میرے پاس میرے بھائی ولید ؓ آگئے۔ انہوں نے کہا کئی روز سے مدینہ منورہ کے لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آنحضرت فرما چکے ہیں بہت جلد مکہ کے کئی بہادر ہماری طرف آجائیں گے۔ اس سے لوگوں میں آپ کا بہت اشتیاق ہے آنحضرت سخت انتظار میں ہیں جلدی کرو اس فقرے نے میرے تن بدن میں بجلی پیدا کردی۔ بس پھر کیا تھا میں جونہی تاجدار رسالت کے دربار میں حاضر ہوا میری حالت فرط عقیدت سے غیر ہو گئی میں دیدار رسول کی خوشی میں دیوانہ ہو گیا اور پروانہ وار حضور کے قدموں میں جاگرا۔

جس وقت حضرت خالد بن ولیدؓ نے حکم توحید پڑھا آپ نے مسکرا کر درج ذیل الفاظ فرماۓ۔
الحمد الله الذي هداك الى السلام
تمام تعریفیں اس خدا کے لئے جس نے آپ کو اسلام کی طرف راغب کر دیا۔
خالد بن ولیدؓ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میرے گناہ بھی معاف کر دئیے جائیں گے کیونکہ میں نے اسلام کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی آپ نے فرمایا آپ کا اسلام لانا ہی تمام غلطیوں کی معافی ہے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کی اسلامی خدمات
 حضرت خالد بن ولیدؓ کا اسلام قبول کرنا تھا کہ کفر پر غشی طاری ہو گئی۔ آپ ؓ کے ساتھ عکرمہ ؓ بن ابوجہل اورعمرو بن عاص بھی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے چار سال اور اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ادوار حکومت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے کارناموں سے اسلام کی تاریخ مہر منیر کی مانند چمک رہی ہے۔

مورخین کے مطابق حضرت خالد بن ولیدؓ نے چھوٹی بڑی ۱۳۵ لڑائیاں لڑیں اور ایک بھی لڑائی میں شکست نہیں کھائی۔ عرب میں مشہور تھا جس جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ ہوں گے اس میں فتح غالب ہے آپ کثرت وقلت کے اعداد و شمار سے بے نیاز تھے۔ نیپولن، سکندر ہٹلر اور دنیا کے بڑے سے بڑا کوئی جرنیل حضرت خالد بن ولیدؓ کی پرچھائیں تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ جنگ موتہ سے لیکر ایران کی سب سے بڑی لڑائی تک کونسا موقع ہے جہاں اس الوالعزم جرنیل کے انمٹ نقوش نے اسلامی تاریخ کو روشن نہیں کیا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ میدان جنگ میں
اسلام میں آنے کے بعد ذیل میں ہم حضرت خالد بن ولیدؓ کی پہلی جنگ میں شرکت کا واقعہ سید امیر احمد کی زبان سے نقل کرتے ہیں اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلامی جرنیل کی وہ کونسی خصوصیات تھیں جن کے باعث انہیں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے سیف اللہ لقب عطا فرمایا تھا۔

غزوہ موتہ جمادی الاول ھ۸
یہ پہلا غزوہ ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ اسلام لانے کے بعد شریک ہوئے اور یہ غزوہ آپ ہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔
شرجیل والی بصرہ کے پاس حضرت حارث بن عمیر کو خط دے کر روانہ کیا گیا تھا دنیا بھر میں قاصد کی عزت اور جان کی حفاظت فرض ہے۔ لیکن اپنی طاقت کے زعم میں شرجیل نے حضرت حارث کو نہایت بے دردی سے شہید کرادیا۔

جب رسول کریم صلى الله عليه وسلم کو اپنے قاصد کی شہادت کی خبر ملی۔ تو سخت صدمہ ہوا۔ کچھ عرصہ تو آپ صلى الله عليه وسلم یہودیوں کی مخالفت دبانے میں مصروف رہے لیکن جونہی اس طرف سے اطمینان حاصل ہوا، حضور صلى الله عليه وسلم نے تیسں ہزار مسلمانوں کا ایک لشکر حضرت حارث بن عمیر کا قصاص لینے کے لئے روانہ کیا۔ لشکر کی امارت حضرت زید بن حارثہ کے سپرد ہوئی۔ روانگی سے قبل آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر زید بن حارثہ ؓ شہید ہو جائیں۔ تو جعفر بن ابی طالب ؓ لشکر کے امیر ہوں اور اگر جعفر ؓ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ؓ امیر ہوں اور ان کے بعد مشورے سے سردار مقرر کیا جائے۔ حضرت رسول کریم شیتہ الوداع تک لشکر کے ہمراہ گئے۔ اور اس کے بعد آپ واپس تشریف لے آئے۔

موتہ سرزمین شام کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جب یہ لشکر موتہ پہنچا تو شرجیل نے لشکر اسلام کا احوال معلوم کرنے کے لئے
اپنے بھائی سدوس کو پچاس سواروں کے ساتھ روانہ کیا۔ مشرکین کا یہ گروہ مسلمانوں کی بے خبری میں پہنچا اور جنگ شروع ہو گئی چنانچہ سدوس مارا گیا۔ شرجیل اپنے بھائی سروس کے قتل کی خبر سن کر خوف زدہ ہو گیا اور قلعہ میں پناہ لی۔ پھر وہاں سے اپنے ایک اور بھائی کو قیصرروم کے پاس جو یلغارمیں تھا مد دلانے کے لئے بھیجا، چنانچہ ہرقل نے اس کے ہمراہ یک لاکھ فوج بھیج دی۔ بعض مورخین نے کہا ہے کہ اس فوج کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ جب اس لشکر کی خبر مسلمانوں کو ہوئی تو انہیں تشویش ہوئی بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو صورت حالات سے مطلع کیا جائے حضور ایسے چاہے ہمیں واپسی کا حکم دیں یا کمک روانہ فرمائیں۔ لیکن عبداللہ بن رواحہ نے کہا۔

                     اے لوگو! جس چیز یعنی شہادت سے تم ڈرتے ہو اسی کے لئے تو اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آئے ہو، مسلمانوں کو کبھی لشکر کی کثرت نے فتح نہیں کیا۔ بدر کی لڑائی میں ہم بہت کم تھے اور دشمن بہت زیادہ۔ ہمارے پاس بے سروسامانی کی وجہ سے صرف دو گھوڑے تھے۔ لیکن پھر بھی خدائے عزوجل نے کفار جو ہر طرح کے سازو سامان سے آراستہ تھے ہمیں کو فتح عطا فرمائی۔ اس وقت ہماری قسم کی تکمیل صرف دو صورتوں میں ہو سکتی ہے یا تو ہمیں فتح حاصل ہوگی اور ہمارا غازیان اسلام میں شمار ہوگا یا شہادت نصیب ہوگی۔ تو اس صورت میں ہم جنت میں اپنے دوستوں سے ملاقات کریں گے اور ہرصورت میں ہم خدا وند تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کریں گے جو ہماری زندگی کا مقصد اعلیٰ ہے۔

صحابہ ؓ نے حضرت عبداللہ ؓ کی تائید کی، چنانچہ مومنین اور مشرکین کی صفیں مقابلے کے لئے آراستہ ہوگئیں حضرت زید ؓ مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے شہید ہو گئے آپ کی شہادت کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ نے اسلامی علم سنبھالا اور کفار سے لڑنے لگے آپ کا گھوڑا زخمی ہو کر گر پڑا تو آپ پیادہ پا لڑنے لگےاچانک ایک کافر کی شمشیر سے آپ کا دایاں بازو کٹ گیا۔ آپ نے علم اسلام کو بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ جب وہ بھی کٹ گیا تو اپنے دونوں پیروں کے درمیاں علم کو سنبھالا اور کئے ہوئے بازوؤں کے سہارے اونچا رکھنے کی کوشش کی۔ اسی اثناء میں ایک کافر  نے آپ کی کمر پر ایسی تلوار ماری کہ دو ٹکڑے ہو گئے آپ کی شہادت پر عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے جھپٹ کر علم اسلامی کو اٹھالیا اور کفار سے مقابلہ کرنے لگے۔ لیکن بہت سے کافروں کو جہنم پہنچا کر آپ بھی شہید ہو گئے۔
لڑائی کا عنوان ابتداء ہی سےکچھ بگڑا ہوا تھا ان سرداروں کے شہید ہونے سے کفارکی ہمت اور بڑھ گئی۔ جب عبد اللہ بن رواحہ ؓ شہید ہوئے تو علم اسلام کو گرتا دیکھ کر کفار اس کی طرف دوڑے لیکن ثابت بن اقرم ؓ نے علم کو فورا اٹھا لیا اور لشکر اسلام سے جو اس وقت ہراساں اور مرعوب تھا مخاطب ہو کر بولے۔

يا معاشر المسلمين اصطلحو اعلى رجل منكم (یعنی اے گروہ مسلمین؟ تو لوگ کسی ایک شخص کو اپنا امیر بنانے پر متفق ہو جاؤ ۔ میں نے اسلام کے علم کو سنبھالنے میں مبارزت کرکے ایک نیک کام کیا ہے کسی کا حق غصب نہیں کیا۔

لشکر اسلام نے جواب میں کہا رضینا بک (یعنی ہم تمہاری امارت سے رضی ہیں) ثابت بن اقرم نے جواب دیا ماانا بفاعل فاصطلحوا على خالد بن ولیدؓ (یعنی میں اس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ تم لوگ خالد بن ولیدؓ کی امارات پر متفق ہو جاؤ ۔
چنانچہ مسلمان اس رائے پر متفق ہو گئے اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو امیر لشکر بنالیا حضرت خالد بن ولیدؓ نے بڑھ کر حضرت ثابت بن اقرم ؓ سے سےعلم لے لیا۔ علم اسلامی کولیتے وقت آپ نے حضرت ثابت بن اقرم ؓ سے کہا تم مجھے سے عمر بھی بڑے ہو اور مرتبے میں بھی، کیونکہ تم اصحاب بدر میں سے ہو۔

لیکن حضرت ثابت بن اقرم ؓ نے فرمایا یہ سب کچھ سہی مگر فنون جنگ میں مہارت شجاعت اور مردانگی تمہارا ہی حصہ ہے۔ فی الواقع میں نے تمہیں ہی دینے کے لئے علم اٹھایا تھا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ امیر لشکر ہوئے تو مسلمان خوف زدہ ہو کر بھاگ رہے تھے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت خالد بن ولیدؓ کے اشارے سے قطیبہ بن عامر ؓ  نے پکار کر کہا۔
مسلمانو ! میں تم سے پوچھتا ہوں، آخر تم موت سے بھاگ کر کہاں جاسکتے ہو وہ تو تمہیں ہر جگہ آپکڑے گی۔ پھر کیوں نہ میدان جہاد میں مردوں کی طرح جان دے دیں۔ ذرا غور تو کرو۔ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہونا اچھا ہے یا بزدلوں اور نامردوں کی طرح بھاگتے ہوئے پشتوں پر دشمن کے تیر کھا کر نامرادی اور ذلت کی موت مرنا۔

یاد رکھو! جو لوگ موت سے ڈر کر بھاگتے ہیں دنیا کے کسی حصے میں انہیں ذلت، خوف اور نامرادی سے نجات نہیں ملتی۔ ایک مومن کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے سینے پر زخم کھائے اور سرخرو ہو کر اپنے معبود کے دربار میں پہنچ جائے۔ کیا تم اس معمولی سی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ اگر یونہی بھاگتے رہے تو کافر تم میں سے ایک کو بھی گھر تک نہ پہنچنے دیں گے اور تم سب بزدلوں کی موت مارے جاؤ گے۔

یہ سن کر مسلمان سنبھلے اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے حیرت انگیز پھرتی اور ہوش مندی کے ساتھ انہیں منظم کر کے دشمن کو آگے بڑھنے سے روکا۔ لڑائی انے پورے زور پرتھی کہ شام ہو گئی اوردونوں لشکروں نے اپنے اپنے پڑاؤ کا رخ کیا۔

صبح ہوئی تو میسرہ کو میمنہ کی جگہ استادہ کیا اس صورت سے لشکر کی ایسی کایا پلٹ ہو گئی گہ دیکھنے والا یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ وہی لشکر ہے جو کل لڑ رہا تھا مشرکین نے جب لشکر کو اس ترتیب سے دیکھا تو خوف زدہ ہو گئے اور یہ سمجھے کہ رات ہی رات میں مسلمانوں کو کمک مل گئی ہے اس خیال نے ان پر ایسا ہر اس طاری کیا کہ مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور راہ فرار اختیار کی۔ اس طور پراللہ تعالی نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مظفر منصورکیا اوردشمنان اسلام کوشکست ہوئی۔
جنگ موتہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ  نے جس بہادری اور تدبر کا مظاہرہ کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کہاں تین ہزار مسلمان اور کہاں ایک لاکھ کفار لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ کے حسن تدبیر  نے اقلیت کو اکثریت پر غالب کر دیا اور کافر خوف زدہ ہو کرمیدان سے بھاگ گئے۔
جنگ موتہ میں دوسرے دن حضرت خالد بن ولیدؓ بھی اللہ کا لشکر اسلام کی ترتیب کو بدل دینا ایک بہت بڑی جنگی تدبیر تھی جو خاطر خواہ طریقے پر کامیاب ہوئی اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح نے ان دشمنان اسلام کی آنکھیں کھول دیں جو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مٹھی بھر موحد صحابہ کو ختم کر دینا چاہتے تھے معتبر روایتوں کے مطابق جنگ موتہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔

جنگ موتہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے مدینہ کا رخ کیا اور راستے میں ان قلعہ والوں کا محاصرہ کیا جنہوں نے جاتے وقت پریشان کیا تھا اس قلعہ کو فتح کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔

سیف اللہ کا خطاب
جنگ موتہ میں لشکراسلام کےامراء کےعلاوہ دس اور جلیل القدر صحابی ؓ بھی شہید ہوئے معتبر ذرائع سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے جنگ موتہ کے تمام حالات سے اپنے رسول کو مطلع کر دیا تھا اور حضور اپنے اصحاب کو لڑائی کے حالات سے آگاہ فرما رہے تھے چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا

اخذ الرايت زيد فاصيب ثم اخذها جعفر فاصيب ثم اخذها ابن رواحه فاصيب
زید ؓ نے علم اٹھایا اور وہ شہید ہوئے پھر جعفر ؓ نے علم سنبھالا وہ شہید ہو گئے اور ان کے بعد ابن رواحہ ؓ نےعلم اسلامی کو لیا تو وہ بھی شہید ہو گئے۔

ان الفاظ کوادا کرتے وقت حضرت رسول اکرم کی مبارک آنکھوں سےآنسو جاری تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ابن رواحہ کے بعد خالد بن ولیدؓ نے جو خدا کی تلوار ہے علم سنبھالا ہے اور فتح پائی ہے پھرفرمایا
یاالہی! خالد بن ولیدؓ ہیں یہ تیری تلوار ہے تو ہمیشہ اس کو فتح مند رکھیو!
اسی دن سے حضرت خالد بن ولیدؓ کا لقب سیف اللہ ہو گیا۔

سید کو نین نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے حق میں جو دعا فرمائی اسے بخدائے کلام ربانى
وما ينطق عن الهدى ان هو الا وحی یوحی
یعنی ہمارے حبیب اپنی خواہش نفس سے کوئی کلام نہیں کرتے۔
بلکہ وہی بات کہتے ہیں جو بذریعہ وحی ہم ان کی طرف القا کرتے ہیں۔ شرف قبولیت تو حاصل ہونا ہی تھا۔ لیکن اس دعا کی برکت سے خالد بن ولیدؓ کا دل ودماغ جنگی قابلیتوں کا مخزن بن گیا۔ ان کی رگ وپے میں شجاعت کے سمندر موجزن ہو گئے ان کا عضوعضو بے پایاں استقلال سے سرشار ہو گیا۔ اور راہ خدا میں نثار ہونے کے لئے ان کے جذبات شوق ہر وقت متلاطم رہنے لگے۔

فتح انطاکیہ
حلب کو فتح کرنے کے بعد لشکر اسلام نے انطاکیہ کا رخ کیا۔ ان دنوں شاہ ہرقل بھی انطاکیہ میں تھا اور مسلمانوں کی فتوحات اور رومن ایمپائر کا انجام دیکھ رہا تھا وہی ہر میدان میں مسلمانوں سے شکست کھا رہے تھے اور ہرقل کا اقتدار بڑی تیزی سے ختم ہو رہا تھا جب اسے بیت المقدس اورحلب کی فتح کا حال معلوم ہوا تو اس کی پریشانی حد سے بڑھ گئی اور اسے یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا اس کے بس کی بات نہیں۔ اسکے پاس دولت فوج اور سازو سامان کی کمی نہ تھی لیکن مسلمانوں کے سامنے اس کی پیش نہ جاتی تھی۔ نہ دولت کا لالچ مسلمانوں کو ڈگمگا سکا اورنہ اس کی آہن پوش فوجیں مجاہدوں کو مرعوب کر سکیں۔ ایک آندھی تھی کہ پھیلتی جارہی تھی ایک طوفان تھا کہ ہر رکاوٹ کو بہاتا ہوا بڑھتا چلا آرہا تھا۔ شاہ ہرقل مسلمانوں کے ہاتھوں کئی چرکے کھا چکا تھا لیکن بیت المقدس اور حلب کی فتح ایک ایسی چوٹ تھی کہ اس کا یقین ڈانواں ڈول ہوگیا اور اس نے اپنے مشیروں کو بلا کر اپنے آپ کو بہلانے کی ایک آخری کوشش کی۔ اس کے مشیروں میں جبلہ بن ایہم غسانی بھی شامل تھا جو جنگ یرموک سے جان بچا کر بھاگ آیا تھا۔

شاہ ہرقل نے اپنے مشیروں سے کہا۔ مجھے یقین ہے کہ اب مسلمان سارے ملک شام پر قابض ہو جائیں گے انطاکیہ شام کا آخری شہر ہے اورآج کل میں وہ یہاں بھی آیا چاہتے ہیں۔ اگر اس پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا تو سمجھ لو شام کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ اس کے بعد ارض شام میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ مجھے تعجب ہے کہ اتنی طاقت اور وسائل کے باوجود ہم ایک جگہ بھی انہیں شکست نہیں دے سکے۔ میرے بڑے بڑے سالاران کے سامنے بے ہو گئے اور لاکھوں سپاہی گاجر مولی کی طرح کٹ گئے افسوس کہ ایک ایسی قوم جو ہمیشہ ہماری مطیع اورتابع فرمان رہی۔ جس نے ہمیشہ ہم سے خوف کھایا اور ہمارے رحم و کرم اور سخاوت کی بدولت زندہ رہی۔ وہ ہم پر غالب آگئی اور ہم ایسے بے بس ہو گئے جیسے کوئی قدرت ہی نہیں رکھتے۔

ہرقل کی یہ باتیں سن کر جبلہ بن ایہم نے کہا۔ اے بادشاہ میرے خیال میں مسلمانوں کو مغلوب اور منتشر کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ کس طرح ان کے خلیفہ کو قتل کر دیا جائے۔ ان کا خلیفہ ہی ان کی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہے۔

ہرقل نے کہا، لیکن جب تک خلیفہ قتل ہوگا وہ ہمارا اقتدار ختم کرچکے ہوں گے اور پھر ہم میں اتنی طاقت نہ ہوگی کہ ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھا سکیں۔

جبل بن ایہم نے کہا، اس وقت تک ہم تم کر ان کا مقابلہ نہیں کریں گے۔ بلکہ منتشر ہو کر چھوٹی چھوٹی جنگوں میں انہیں الجھائے رکھیں گے۔ ہرقل کو جبلہ بن ایہم کا یہ مشورہ بہت پسند آیا اوراسی وقت ایک شخص واثق نامی کو مدینہ روانہ کیا گیا تا کہ حضرت عمر کو قتل کردے۔

جب واثق مدینہ پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ دوپہر کو ایک درخت کے نیچے سویا کرتے تھے چنانچہ دوسرے دن وہ اس درخت پرچڑھ کرچھپ گیا حضرت عمر ؓ آئے اورچٹائی بچھا کرسو گئے۔ جب واثق نے نیچے اتر کروار کرنے کا قصد کیا تو حضرت عمر ؓ کی ہیبت سے ہاتھ پاؤں قابو میں نہ رہے اور حضرت عمر ؓ خود بخود بیدار ہو گئے۔

یہ واقعہ دیکھ کر واثق کے دل پر بہت اثر ہوا اوراسنے سوچا کہ ایسے شخص کو کون مارسکتا ہے جس کی حفاظت قدرت خود کرتی ہے۔ چنانچہ اس نے حضرت عمر ؓ سے اپنے آنے کا سارا حال کہہ سنایا اوراس کے بعد کلمہ توحید پڑھ کرمسلمان ہوگیا۔

واثق مدینہ روانہ کرنے کے بعد ہرقل نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا اورشہر سے باہر نکل کر مسلمانوں کے انتظار میں ڈیرے ڈال دیئے تھوڑے عرصے میں مسلمانوں کا لشکر بھی انطاکیہ پہنچ گیا ہرقل کو ان کی آمد کا اس وقت علم ہوا جب وہ آہنی پل پر قبضہ کرچکے تھے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوعبیدہ ؓ کو مشورہ دیا کہ ہمیں یہیں کیمپ لگا دینا چاہئے اور سامنے جو کھلی جگہ ہے اسے لڑائی کے لئے چھوڑ دینا چاہئے حضرت ابو عبیدہ ؓ کو حضرت خالد بن ولیدؓ کا یہ مشورہ پسند آیا اور لشکر اسلام وہیں رک گیا۔

دوسرے دن دونوں لشکر صف آرا ہوئے۔ رومیوں کا ایک پہلوان بطورس نامی میدان جنگ میں نکلا اور مسلمانوں کی طرف سے وامس ابوالہول میدان میں گئے کچھ دیر جنگ ہوتی رہی۔ لیکن وامس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور گر پڑے۔ رومی پہلوان نے بڑھ کر انہیں گرفتار کر لیا اور اپنے کیمپ میں چھوڑ آنے کے بعد پھر اگر للکارنے لگا۔

اب مسلمانوں کی طرف سے ضحاک آگے بڑھے۔ ضحاک حضرت خالد بن ولیدؓ سے مشابہت رکھتے تھے اس لئے رومی سپاہی اپنے بہادر کو خوب داد دے رہے تھے اسی ہلچل میں بطورس کا خیمہ رسی ٹوٹ جانے سے گر پڑا اس خیمے میں دو سپاہی ابوالہول کے گرد پہرا دے رہے تھے انہوں نے گھبراہٹ میں ابوالہول کو رہا کر دیا۔ ابوالہوں نے رہا ہوتے ہی دونوں سپاہیوں کو قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد انہوں نے خیمہ میں سے بطورس کی وردی پہنی تلوار نکالی اور گھوڑے پر سوار ہو کر رومیوں میں چلے گئے۔ یہاں انہوں نے جبلہ بن ایہم کو دیکھا جو اپنی قوم میں بڑی شان سے ٹہل رہا تھا۔ انہوں نے بڑھ کر جبلہ پر تلوار کا وار کیا اور گھوڑا دوڑاتے اپنے لشکر میں آملے۔ ادھر ضحاک اور بطورس تھک کر اپنے اپنے شکر میں لوٹ آئے۔

حضرت ابو عبیدہ ؓ اپنے بہادر کے آنے پر بہت خوش ہوئے اوراسے فتح کی علامت سمجھا ادھر رومیوں میں اس واقعے سے بہت بددلی پھیل گئی جبلہ بن ایہم کا بھتیجا مارا جا چکا تھا اور ہرقل کو بھی اپنی موت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے ایک غلام بالیس کو جس کی شکل و شباہت اس سے ملتی تھی اپنا تاج پہنا دیا اور خود چپکے سے قسطنطنیہ روانہ ہوگیا۔

دوسرے دن لشکراسلام نے صفیں درست کرتے ہی حملہ کردیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ وہ جس طرف جاتے دشمن کی صفیں صاف کر دیتے اس دن مسلمانوں نے اس قدر تیغ زنی کی کہ دشمن کےستر ہزارآدمی قتل ہوئے اور چالیس ہزار گرفتار ہوئے۔  گرفتار ہونے والوں میں بالیسں بھی تھا جسے بادشاہ سمجھ کرگرفتار کر لیا گیا تھا جبلہ ابن ایہم قسطنطنیہ بھاگ گیا۔ اور باقی لشکر تتربترہوگیا انطاکیہ کی فتح سے کل ملک شام مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔

سرحدی علاقے کی تسخیر
فتح انطاکیہ کے بعد سارے شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا لیکن اس کی حفاظت کے لئے نواحی علاقے کو فتح کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے میرہ بن مسروق کو شمال کے پہاڑی اضلاع کی طرف اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو دریائے فرات کی جانب مختصرسی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کو دریائے فرات تک کا علاقہ فتح کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی ہر طرف ان کے نام کی شہرت اور دبدبہ تھا جونہی دشمن کو ان کی خبرہوتی وہ وہ وحشت کے مارے بغیرمقابلہ کئے ہتھیارڈال دیتا۔ چنانچہ یہ علاقہ فتح کرنے کے بعد وہ حضرت ابو عبیدہ ؓ سے آملے۔

جنگ مرج القبائل
حضرت میسرہ بن مسروق کی قیادت میں جو لشکرروانہ ہوا تھا۔ وہ پہاڑی راستوں میں سے گزرتا ہوا پانچویں دن مرج القبائل کی وادی میں پہنچ گیا۔ یہاں آکر مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ایک بہت بڑا رومی لشکر کچھ فاصلے پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہے سردار لشکر نے یہ سوچا کہ اگر ہم نے کھلے میدان میں جا کر دشمن کا مقابلہ کیا تو ہمارے مٹھی بھر سپاہی کچھ نہ کر سکیں گے۔ اس لئے وہ وہیں رک گئے جب رومیوں کو مسلمانوں کے قیام کا پتہ چلا تو وہ بڑھ کرمسلمانوں کے مقابلے کوآئے۔

دوسرے دن جانبیین نے لڑائی کے لئے صف آرائی کی۔ رومیوں کو اپنی کثرت پر نازتھا اورمسلمانوں کواپنی قوت ایمانی پرکئی روزتک لڑائی ہوتی رہی۔ مجاہدین اسلام کی یہ مختصر سی جماعت مضبوط اورتوانا سرحدی قبائل سے برسرپیکار رہی۔ کفار کثیر تعداد میں اورمسلمان روز بروز شہید ہوکرکم ہورہے تھے۔ کفار یہ سمجھے ہوئے تھے کہ اسی طرح کم ہوتے ہوتے کوئی دن میں مسلمان مغلوب ہو کرہتھیارڈال دیں گے۔ لیکن مجاہدین کی یہ قلیل سی جماعت کس طرح پیچھےنہ ہٹتی تھی۔

مسلمانوں نے ایک قاصد حضرت ابوعبیدہ ؓ کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ انہیں صورت حال سے مطلع کرے۔ چنانچہ جب قاصد نےانہیں تمام حال سنایا تو انہیں بہت رنج ہوا۔ کفار کی کثرت اورتنگ وتاریک گھائیوں میں مسلمانوں کی بے کسی ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی اورانہوں نے اپنے جرنیلوں کو مشورے کے لئے طلب کیا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ نے کہا۔ آپ مسلمانوں کی حالت سے ہرگز پریشان نہ ہوں میں ابھی فرات کی مہم سرکر کے آرہا ہوں جب سے میں نے یہ سنا ہے کہ مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے میرا خون کھول رہا ہے وہ مجاہدین جو دین اسلام کی حفاظت کے لئے پیدا ہوئے ہیں آج خون میں نہا رہے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالے ہیں اورآخری دم تک لڑنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ کاش! میرے گھوڑے کو پرلگ جائیں اور میں ابھی وہاں پہنچ جاؤں۔

چنانچہ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فورا تین ہزار جوانوں کو حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ روانہ کیا۔ یہ سوار میکلی کی سی تیزی کے ساتھ سرحدی علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔
مسلمان اب تک بڑے حوصلے سے لڑ رہے تھے۔ ایک روز رومیوں کےایک بہت بڑے پہلوان نے چیلنج دیا کہ کوئی مسلمان میرے مقابلے کو نکلے۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت عبد اللہ ؓ آگے بڑھے۔ رومی پہلوان حضرت عبداللہ ؓ کو گھوڑے سے کھینچ کراپنے لشکر میں لے گیا۔ اس پر مسلمانوں کے سردار میسره بن مسروق میدان میں نکلے اور حضرت عبد اللہ کا بدلہ لینے کے لئے بڑی شدت سے حملہ کرنے لگے۔ اتنے میں انہیں دورسے گردوغبار اڈتا دکھائی دیا۔ مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ جسے سن کر رومی پہلوان فورا بھاگ کر اپنے لشکر میں چلا گیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے پہنچنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی۔ اس روز فریقین نے مزید جنگ نہ کی اوردونوں لشکر اپنی اپنی قیام گاہ پرچلے گئے۔

رات بھر حضرت خالد بن ولیدؓ جنگ کی تیاری کرتے رہے۔ اور دوسرے روز لشکر اسلام نہایت مستعدی سے میدان میں نکلا۔ رومی حضرت خالد بن ولیدؓ کی آمد کی خبر سن کر ڈر گئے اور صلح کا پیغام بھیجا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جواب دیا، ہماری طرف سے یہ شرطیں ہیں یا تو اسلام قبول کرو۔ یا جزیہ دے کہ ہماری حفاظت میں آجاؤ۔ ورنہ یہ تلوار، جو کئی روز سے تمہارے خون کی پیاسی ہے فیصلہ کرے گی۔

رومیوں نے ایک دن کی مہلت مانگی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے انہیں سوچنے کے لئے ایک دن اور دے دیا۔ دوسرے روز جب لشکراسلام میدان میں نکلا تو رومیوں کی طرف بالکل سکوت تھا وہ راتوں رات سب سامان چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے تھے۔ مسلمانوں نے سامان جنگ اکٹھا کیا اور واپس لشکراسلام میں آملے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی دہشت ہی اس قدر تھی کہ دشمنان اسلام پران کا نام سنتے ہی لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔

حضرت ابوعبیدہ ؓ نے حضرت عمر ؓ کو فتح کی خوشخبری کے ساتھ حضرت عبداللہ کی گرفتاری کی اطلاع دی۔ حضرت عمر ؓ نے ہر قل والی روم کو لکھا جس نے بہت سے تحائف کے ساتھ حضرت عبداللہ کو واپس بھیج دیا اس فتح کے بعد ان تمام اطراف میں مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کی وفات
دنیا میں بڑے بڑے فاتحین پیدا ہوئے اور انہوں نے بڑے بڑے ملکوں پر حکومت کی ہے ان فاتحین میں پولین، سکندر اور تیمور کے نام بہت مشہور ہیں لیکن جو شہرت اور نیک نامی حضرت عمر کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔ حضرت عمر نے جوعلاقہ فتح کیا وہاں انہوں نے اس حسن تدبر سے کام لیا کہ سارے ملک کی ایک ہی حالت کردی۔

جب ملک شام فتح ہو گیا تو انہوں نے مسلمانوں کو مزید فتوحات کی اجازت نہ دی اس قدر ملک فتح ہوچکا تھا اس کے انتظام کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ مفتوحہ علاقے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے گورنر مقرر کئے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کو قنسرین کا گورنر مقرر کیا گیا۔ لیکن آپ کچھ عرصہ بعد مستعفی ہوکر مدینہ منورہ چلے گئے۔ حضرت عمر کی خلافت کے پانچویں یا چٹھے سال حضرت خالد بن ولیدؓ نے مدینہ میں وفات پائی آپ مرض الموت میں فرماتے تھے میں نےعرصہ تک مشرکین کے خلاف جہاد کیا اور بیسیوں جنگوں میں جام شہادت کی طلب میں جان توڑ کر لڑائی کی۔ آپ اپنے آپ کو بارہا ہزاروں کفار کے نرغے میں ڈال دیا۔ لیکن افسوس شہادت کی آرزو پوری نہ ہوئی میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار یا نیزے کا نشان نہ ہو۔ لیکن افسوس مجھے موت نے بستر پر آدبوچا۔ میدان جہاد میں شہادت نصیب نہ ہوئی

اسلام کا یہ بہادر سپاہی یہی حسرت لئے اللہ کو پیارا ہو گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس نیک دل اور حوصلے سے حضرت خالد بن ولیدؓ نے امیرالمومنین کے احکام کی تعمیل کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ فوجوں کا سپہ سالار قدرت رکھتا تھا کہ اپنے احکام منوالے۔ لیکن جس نے اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کردیا ہو۔ وہ ذاتی شان و شوکت کا محتاج نہیں ہوتا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کی وفات کے بعد جب ان کے اثاثے کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے ایک غلام ایک گھوڑے اورچند ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہیں چھوڑا ۔ اللہ اللہ دنیا کا سب سے بڑا جرنیل اورذاتی اثاثے کی یہ کیفیت اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد نہ ذاتی وجاہت تھا اورنہ پرتکلف زندگی۔ بلکہ راہ خدا میں شہادت کی طلب ہی ان کا مقصد حیات تھا۔ ان کی جان اللہ کی راہ میں وقف تھی اورمال بھی اللہ تعالٰی کی راہ میں مصرف ہوا۔

جب حضرت عمرکو ان کی وفات کی اطلاع ملی تو بےحدغمگین ہوئے اورانہوں نے فرمایا

مسلمانوں کوایک ایسا نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے حضرت خالد بن ولیدؓ ایسے جرنیل کہ اب شاید ہی کوئی ان کی جگہ لے سکے وہ دشمن کے لئے مصیبت تھے

جب حضرت خالد بن ولیدؓ کا جنازہ اٹھایا گیا تو آپ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت ولید اپنے بھائی کی مفارقت میں جگرخراش نالہ وفغاں کرتی تھیں۔ اس وقت حضرت عمر بھی برداشت نہ کر سکے۔ اور بےاختیاران کے آنسونکل آئے۔

ایک دن حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی والدہ کو دیکھا کہ بیٹے کے غم میں ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھیں۔ آپ نےدریافت فرمایا کہ، یہ کون بی بی ہیں جو اس قدر مغموم و پریشان ہیں؟
لوگوں نے عرض کیا کہ، خالد بن ولیدؓ کی والدہ ہیں۔

آپ نے فرمایا، خوش قسمت ہے وہ ماں، جس کے بطن سے خالد بن ولیدؓ جیسا فرزند پیدا ہوا پھر فرمایا جب تک نعمت موجود ہو، اس کی قدر کی جاتی۔ لیکن جب وہ ضائع ہوجائے تواس کی قدرومنزلت پہچانی جاتی ہے۔

ایک دفعہ عرب کا ایک شاعر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا
مجھے خالد بن ولیدؓ کے متعلق اپنے اشعار سناؤ

وہ عرب کا بہترین شاعر تھا لیکن اشعار سننے کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا، تم خالد بن ولیدؓ کا حق ادا نہیں کر سکے۔

دنیا کا سب سے بڑا جرنیل
آج قومی عصبیت کا دور دورہ ہے دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کے تاریخ نویس اس بات پر زیادہ سے زیادہ زور صرف کرتے ہیں کہ ان کے ہیرو کو دنیا کا سب سے بڑا انسان تسلیم کر لیا جائے۔
تاریخوں میں بے شمار ایسے نام ملیں گے جن کے ساتھ فاتح اعظم عظیم الشان سپاہی دنیا کا سب سے بڑا جرنیل وغیرہ القاب لکھے ہوئے ہوں گے لیکن اگر کوئی مورخوں کے عطا کردہ ان اعزازات کو دلیل اور انصاف کی ترازو میں تولنے لگے تو مایوسی اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ تحقیق کرنے والا دیکھے گا کہ محض قوم پرستی کے جوش میں بعض ایسے لوگوں کو بھی ان معززخطابات سے نواز دیا گیا ہے جن کے قابل نفرت کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں انہیں ادنی سی پوزیشن نہیں ملنی چاہئے۔

لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ کے حالات پڑھنے کے بعد ہرانصاف پسند اور صاف ذہن رکھنے والا انسان محسوس کرتا ہے کہ اسلام کے اس عظیم الشان سپاہی کے نام کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا جرنیل بہت اونی درجے کا خطاب ہے اس کے محیر العقول کارنامے دلیل بن کر قدم قدم پر مطالبہ کرتے ہیں کہ نہ صرف اسلام کی بلکہ دنیا کی تاریخ میں اسے وہ مقام دیا جانا چاہئے جس کا دنیا کے کسی فاتح کسی جرنیل اورکسی سپاہی کو نہیں سمجھا گیا۔

یقیناً دوسری قوموں اور ملکوں کی تاریخوں میں بھی ایسے لوگوں کے تذکرے ملیں گے جنہوں نے اپنی تلواروں اور تدبیر کی بدولت زمانے سے اپنا لوہا منوایا۔ جنہوں نے بڑے بڑے معرکے سر کر کے قوموں کی قسمتیں اوردنیا کا نقشہ بدل دیا۔ لیکن اپنی پوری زندگیوں میں کتنی بار انہوں نے یہ کارنامے انجام دیئے ؟
جن قوموں اور ملکوں کو انہوں نے شکست دی ان کی حربی قوتیں کیا تھیں؟ اور خود ان کے جلو میں کتنی قوموں کے پھریرے تھے ؟
اگر ان سوالوں پر غور کیا جائے تو دنیا کے فاتحین کو حضرت خالد بن ولیدؓ بن ولید کے مقابلے میں ہرگز نہیں لایا جا سکتا- تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ قوت کے نشے میں سرشار ہو کر طاقت ور قوموں نے اپنی کمزور ہمسایہ قوموں پر یلغار کی اور شہنشاہوں کے تنخواہ دار مورخوں نے ظلم و زیادتی کی ان داستانوں کو شجاعت اور شہادت کا ملمع چڑھا کر تاریخ کے اوراق کی زینت بنا دیا۔
بخت نصر، جولیس، سکندر، نپولین اور دنیا کے دوسرے فاتحین کی داستانوں کا تجزیہ کرنے کے بعد صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ طاقت نے کمزوری کو، کثرت نے قلت کو اور ظلم نے مظلومی کو فتح کیا۔
ان فاتحین کی داستانوں میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی داستان۔ ایسا رنگ کہاں کہ ہمیشہ مظلومی نے ظلم کے گریبان کی طرف ہاتھ بڑھایا ہو، قلت نے کثرت کو چیلنج کیا ہو، بے سرو سامانی نے ساز و سامان والوں سے ٹکرلی ہو پاپیادہ غازیوں نے آہن پوش سواروں کو نیچا دکھایا ہو۔

دنیا کے دوسرے فاتحین کی داستانوں میں ایسے تابندہ ٹکڑے کہاں کہ جنگ یرموک میں دشمن کی ساتھ ہزار فوج کے مقابلے کے لئے حضرت خالد بن ولیدؓ صرف ساتھ مجاہد لے کر نکلے ہیں اور اس شان سے فتح حاصل کرتے ہیں کہ دشمن پیٹھ پھیر کر دیکھنے کی جرات ہی نہیں کرتا ۔

جنگ موتہ میں مسلمانوں کی کل تعداد تین ہزار تھی اور روی ایک لاکھ سے اوپر تھے۔ پھرحضرت خالد بن ولیدؓ نے ایسے وقت فوج کی کمان سنبھالی تھی۔ جب حضرت زید بن حارثہ ؓ ، حضرت جعفرطیار ؓ  اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ تین جلیل القدر سالاروں کی شہادت کے باعث مسلمانوں کے حوصلے پست ہو رہے تھے لیکن انہوں نے اپنی خداد قابلیت اور بے مثل شجاعت سے ایک لاکھ رومیوں کو شکست فاش دی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی یہ کتنی بڑی خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش سوا سو لڑائیاں لڑیں۔ جن میں ان کی فوجی طاقت دشمن کے مقابلے میں پاسنگ کے برابر ہوتی تھی۔ لیکن کسی ایک لڑائی میں بھی شکست نہیں کھائی۔

وائرلو کی شکست کا حال پڑھ کر ہمیں نپولین کے یہ الفاظ بالکل مذاق معلوم ہوتے ہیں کہ ناممکن مہمل لفظ ہے اسے لغات سے خارج کر دینا چاہئیے۔ لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ کا ہرواقعہ اس فقرے پر گواہی دیتا ہے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کو عراق میں حضرت ابو بکر کا خط ملتا ہے ابوعبیدہ کی امداد کے لئے فورا روانہ ہوجاؤ، وہ شام کی طرف کوچ کرنے کا قصد فرماتے ہیں اور عین التمرکی راہ سے جو سب سے قریب راستہ ہے حدود شام میں داخل ہونے کی تجویز پیش کی۔ اس دشوار گزار صحرا کی مشکلات سے واقفیت رکھنے والے حضرت رافع حضرت خالد بن ولیدؓ کو مشورہ دیتے ہیں کہ عین التمر کی راہ سے تشریف لے جانے کا قصد ترک کردیجئے۔ کیونکہ اس خوفناک صحرا میں قدم رکھنا جان بوجھ کرموت کو دعوت دینا ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے کہ پانچ دن کی منزل میں پانی کا ایک قطرہ بھی کہیں سے دسیتاب نہ ہوگا۔ سواری اور بار برداری کے جانوروں کا ہلاک ہو جانا یقینی ہے۔

کوئی اور ہوتا تو حضرت رافع کے اس مشورے کو قبول کر کے قریبی راہ سے جانے کا ارادہ ترک کر دیتا۔ لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ کسی مشکل سے گھبرانے کی جگہ اس پرقابو پانے کی تجاویزسوچتے ہیں آپ کو حکم دیتے ہیں کہ، چالیس اونٹوں کواچھی طرح پانی پلا کر ان کے منہ باندھ دیئے جائیں اور ہر مسلمان اپنی ضرورت کے مطابق پانی ساتھ لے لے، آپ ہر منزل پردس اونٹ ذبح کراتے ہیں اوران کے پیٹ سے نکلا ہوا پانی ٹھنڈا کرکے جانوروں کو پلواتے ہوئے موت کی اس وادی کو نہایت کامیابی کے ساتھ عبور کر لیتے ہیں۔ یہ عزم اور تدبیر کا کتنا بڑا مظاہرہ ہے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نےعرب کے وسیع ریگستانوں میں پیاس کے سبب ہلاک ہونے والے قافلوں کی ہڈیاں بھکری ہوئی دیکھی ہیں جو اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ بڑے سے بڑے بہادر بھی کسی ایسے راستے پر قدم بڑھانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ جس میں پانچ دن تک پانی ملنے کا امکان نہ ہو۔

ان تمام باتوں کے علاوہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل لحاظ امر یہ ہے کہ ان کے ہمراہی صحرائے عرب کے غیر تربیت یافتہ مٹھی بھرافراد تھے خود انہوں نے بھی کسی فوجی کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی۔ پھر مقابلہ کس کے ساتھ تھا قیصر روم اور شہنشاہ ایران کے آہن پوش منتظم لشکروں کے ساتھ ۔ جن کے وسائل اور سامان حرب کا کوئی اندازہ بھی قائم کرنا مشکل تھا۔ وسیع اور دولت مند سلطنتیں ان کی پشت پر تھیں اور اپنے سالاروں کو برابرکمک بھیجتی رہتی تھیں۔ ادھر مسلمانوں کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی کے پاس تلوار ہے تو نیام ندارد نیزہ ہے تو ڈھال نہیں اور گھوڑا ہے تو زین سے محروم۔
اپنے وطن سے منزلیں اور پرائے ملک میں اگرایسے بے سرو سامان لشکر کا رومیوں اور ایرانیوں کے عظیم الشان لشکروں کو شکست دینا معجزے سے کم نہیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نےعراق اورشام میں جتنی بھی لڑائیاں لڑیں ان تمام میں کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں جس میں مسلمانوں کی تعداد دشمن کی فوج کے نصف کے برابر ہو۔ لیکن ہر معرکے میں مظفر و منصور رہے ہر لڑائی میں دشمن کو نیچا دکھایا۔
یہ ایسی باتیں ہیں جو کسی بھی قوم کے لئے ہیرو اوردنیا میں کسی بھی جرنیل کی زندگی میں نہیں ملتی۔ انسانیت کی پوری تاریخ میں صرف حضرت خالد بن ولیدؓ بن ولید ہی ایک ایسے جرنیل ہیں جنہوں نے سامان حرب کی کثرت اورٹڈی دل دشمن سے بتیس کی بتیسں بڑی لڑائیاں، حسن تدبیر اور شجاعت کے بل بوتے پر فتح کیں اور لکیر کا فقیر بن کر دوسروں کے بنائے ہوئے قاعدوں اور طریقوں کے مطابق بساط جنگ جانے کی بجائے ایک مجتہد اور مخترع شان سے جنگ کے قاعدے اور نئے اسلوب وضع کئے اکثر لڑائیوں کے ذکر میں یہ بات ملے گی کہ انہوں نے اپنے لشکر کو چند قدم پیچھے بنا کر فتح حاصل کی۔ بعض اوقات عام فوجی اصولوں کے خلاف بالکل معمولی طاقت کے ساتھ دشمن کی بڑی بڑی جماعتوں پر ٹوٹ پڑے۔ کبھی بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ہفتوں اور مہینوں کی راہ دنوں میں طے کر کے دشمن کی توقع اوراندازے کے بالکل خلاف اسے منزلوں آگے جالیا۔ غرض موقع اور ضرورت کے مطابق انہوں نے اپنے خود قاعدے بنالئے اور اس بات کی کبھی پروا نہیں کی کہ دنیا کے ماہرین جنگ نے ایسے مواقع کے لئے کیا تدابیر بتائی ہیں۔

پھر یہ بھی نہیں کہ اس مشور مقولے کے مطابق، جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے انہوں نے ہر چالاکی اور مکاری کا جائز سمجھا ہو، صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں باہمی معاہدوں اور وعدوں کا جس قدر لحاظ حضرت خالد بن ولیدؓ کرتے تھے شاہد ہی کسی اور قوم کے ہیرو نے کیا ہو۔

اپنے عہد کا پاس پاک بازی، فرض شناسی، بالغ نظری، موقع شناسی اپنی جان کے مقابلے میں اپنے مشن سے محبت ناقابل شکست اعتماد اور بے نظیر شجاعت، یہ تمام خوبیاں حضرت خالد بن ولیدؓ کے کردار پر بدرجہ اتم نظر آتی ہیں۔

انہوں نے اپنے مقصد کے مقابلے میں اپنی زندگی کو کبھی عزیز نہیں رکھا۔ دوسرے جرنیلوں کی طرح قلب لشکر میں محفوظ مقام پررہ کراحکام صادر کرنے کی بجائے وہ ہمیشہ صف میں رہ کردشمن سے دست بدست جنگ کرتے تھے۔

انہیں اسلام کی صداقت اوراپنی مہم کی کامیابی کا اسی طرح یقین تھا جس طرح دوسرے دن سورج نکلنے کا۔ وہ قبل ازوقت دشمن کی جنگی چالوں کو سمجھنے میں اپنا جواب نہ رکھتے تھے۔ انہیں اپنے سپاہیوں کی جان اورعزت کا ہروقت خیال رہتا تھا۔ ان کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ لڑائی میں فتح ہو، بے غرضی اور اولی اولامر کے ساتھ وفاداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی معزولی کی خبر سن کر ان کے تیور پر بل تک نہیں آیا اور نہ ان کی جدوجہد اور جنگی مساعی میں فرق آیا۔

یہی وہ خوبیاں ہیں، جن کی وجہ سے آج ہر ایک مخالف کو کہنا پڑتا ہے کہ

خالد بن ولیدؓ دنیا کا سب سے بڑا جرنیل تھا۔
(از کتاب خالد بن ولیدؓ ۔ سید امیر احمد صفحه ۲۴۴)

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button