صحابہ کرام

خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ

Second Rashidun Caliph Hazrat Umar ibn Al Khattab R.A

امام عدل و حریت ، خلیفہ دوم، امیر المومنین سیدنا فاروق اعظمؓ
آپؓ کا نام عمرؓ بن خطاب، لقب فاروق، کنیت ابوحفص اور نسب نویں پشت میں حضور صلى الله عليه وسلم سے ملتا ہے

ولادت
آپؓ واقعہ فیل کے ۱۳ برس بعد پیدا ہوئے

قبول اسلام
نبوت کے چھٹے سال ۳۳ برس کی عمرؓ میں اسلام لائے

وجاہت
رنگ سفید مائل به سرخی ، رخساروں پر گوشت کم ، قد مبارک دراز

قرابت بالنبی صلى الله عليه وسلم
آپؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ، حضور صلى الله عليه وسلم کے نکاح میں آئیں ۔ دور خلافت میں حضور صلى الله عليه وسلم کی نواسی اور حضرت علیؓ کی صاحبزادی ام کلثوم سے آپؓ کا نکاح ہوا جن سے زید بن عمرؓ اور رقیہ بنت عمرؓ پیدا ہوئے ۔

عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں آپؓ کی خدمات
مکہ میں سات سال ، دور مدینہ میں دس سال آپؓ ہروقت آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے قریب رہے۔ ستائیس غزوات نبوی میں کسی موقع پر غیرحاضرنہ ہوئے ۔ خانہ کعبہ میں سب سے پہلے اسلام کا نام آپؓ ہی نے بلند کیا۔

حضرت شاہ ولی اللہ کے مطابق قرآن کریم کی ۲۷ آیات حضرت عمرؓ کی رائے پر نازل ہوئیں ۔ لیظھرہ علی الدین اور الم غلبت الروم ایسی بے شمار آیات کی پیش گوئیاں آپؓ کے عہد میں پوری ہوئیں ۔

آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا
جس راستے سے عمرؓ گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے ۔ ( بخاری ومسلم )
جنت میں عمرؓ کا لقب بڑا محل ہے ۔ ( بخاری ومسلم )
عمرؓ کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے۔ (بہیقی)
میرے بعد ابو بکر و عمرؓ کی اقتداء کرنا ۔ (مشکوۃ)
میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ (ترمذی)
میرے آسمانوں پر دو وزیر ہیں، جبرائیل و میکائیل اور زمین پر دو وزیر ہیں، ابوبکر اور عمرؓ۔
حضور صلى الله عليه وسلم ، ابوبکر و عمرؓ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر جا رہے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہم تینوں قیامت میں اسی طرح اٹھیں گے۔

خلافت فاروق اعظمؓ پر ایک نظر
حضرت عمرؓ فاروق نے حضرت ابوبکر کے بعد دس سال چھ ماہ دس دن تک ۲۲ لاکھ مربع میل زمین پراسلامی خلافت قائم کی ۔آپؓ کے دور میں ۳۶۰۰ علاقے فتح ہوئے ۔
آپؓ کے دور میں ۹۰۰ جامع مساجد اور ۴۰۰۰ عام مسجد میں تعمیر ہوئیں ۔
قیصروکسری دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کا خاتمہ آپؓ ہی کے دورمیں ہوا ۔
آپؓ کےعہد میں عدالت کے ایسے بےمثال فیصلے چشم فلک نےدیکھے جن کا چرچا چاروانگ عالم پھیل گیا۔
فتوحات عراق، ایران، روم، ترکستان اوردیگربلاد نجم پراسلامی عدل کا پرچم لہرانا سیدنا فاروق اعظمؓ کا بے مثال کارنامہ ہے ۔
حضرت عمرؓکے زریں اور درخشندہ عہد پرکئی غیر مسلم بھی آپؓ کی تعریف کئے بغیرنہ رہ سکے ۔
حقیقت میں آنحضرت کےآفاقی دین کی تعمیروترقی کےاوج ثریا پر پہنچانے اوردنیا بھرمیں اسلام کی سطوت وشوکت کا سکہ بٹھانے کا سہرا حضرت فاروق اعظمؓ کے سر ہے ۔

حضرت عمرؓفاروق کی اہم خصوصیات
حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ علم کے دس حصوں میں سے ایک حصہ ساری امت کو دیا گیا ہے اورنو حصے حضرت عمرؓکو دیئے گئے ہیں ۔
حضرت ابن مسعود کی اس شہادت کو محض ستائش آرائی نہ سمجھیں بلکہ ایک نظر تاریخی شواہد پربھی ڈال لیں ۔ حضرت عمرؓ کے فیصلے آپؓ کے اجتہادات، محکم اصول پر بنی مضبوط نظریات اور آپؓ کے شرعی وانتظامی تفردات کوابواب وفصول کے تحت جمع کرنے کی کوشش کی جائے توعمرؓ کے نام سےایک دونہیں متعدد ضخیم مجلدات تیارہوجائیں ۔ فقہ کا معمولی طالب علم بھی آپ کے فیصلےاوراحکام کا مطالعہ کرکے ان کی گہرائی پر حیران رہ جاتا ہے۔

امیر المومنین سیدنا علیؓ کا ارشاد گرامی ملاحظہ فرمائیںفرماتے ہیں جب صالحین کا ذکر کرو تو حضرت عمرؓ کو ضرور یاد کرلو اس فرمان کی سب سے بڑی اہمیت تو یہی ہے کہ یہ ایسے گرامی مرتبت انسان کی طرف منسوب ہے جو فضائل ومناقب اور مکارم ومحاسن میں خود بھی جلیل القدر مقام رکھتا ہے، دوسرے اس میں جامعیت بہت ہی زائد ہے۔ مقام مدحت میں صالحین کا لفظ اختیار کرنے میں عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ آپؓ کے سارے کمالات کی طرف ایک جامع اور لطیف اشارہ ہو جاتا ہے۔

امیر المومنین سید نا عثمان غنی فرماتے ہیں
اللہ عمرؓ کی قبر کو روشن کرے جنہوں نے تراویح کی جماعت کا نظم قائم کر کے مساجد کو مزین کر دیا ہے۔

سیدنا حضرت جعفر صادق فرماتے ہیں
میں اس شخص سے سخت بیزار ہوں جو ابو بکر صدیقؓ  اور عمرؓ کو بھلائی سے یاد نہ کرے۔

حضرت نافع نے ایک سلسلہ گفتگو میں حضرت فاروق اعظمؓ کے متعلق فرمایا کہ ہر نیک کام میں آپؓ کی کوشش انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور آپؓ ہر کام نہایت عمدگی اور بہتری کے ساتھ کرتے تھے، یہاں تک کہ اس روش پر آپ کا انتقال ہوا۔

یہ ایک ایسے عینی شاہد کی شہادت ہے جس نے حضرت عمرؓ کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ الفاظ پر غور کر لیجئے اور پھر دیکھئے کہ کان اجدو اجود ست بڑھ کر آپؓ کا مکمل سرا پائے علم و عمل اور کیا ہوسکتا تھا۔ یہی علم کی جامعیت اور عمل کی پختگی تھی جس نے آپؓ کو محبوب خلائق بنادیا۔ عوام کو اپنے حکمران سے شکایات اس وقت ہوتی ہیں جب ان کے جائز حقوق و مطالبات پورے نہ کئے جائیں لیکن زمانہ خلافت فاروقی میں اس قسم کی شکایات کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ان کے مبارک دور میں وسعت حکومت کے باوجود ہر حقدار کو اس کا حق پہنچ رہا تھا۔ اس لئے آپؓ سے ڈرنے والے وہی چند افراد ہو سکتے ہیں جن کو اپنی کوتاہی کی وجہ سے مواخذہ اور احتساب کا ڈر ہو۔ ورنہ جمہور مسلمان تو آپؓ سے دلی محبت ہی رکھتے تھے۔

حسب قول امام محمد بن سیرین ، تمام امت کا یہ ایمانی وقلبی فیصلہ ہے کہ جو شخص نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے محبت رکھتا ہو اس کے متعلق یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حضرت صدیقؓ  و فاروق اعظمؓ سے محبت نہ رکھے اوران کی شان میں گستاخی کرے ۔

ان سب سے بڑھ کر لائق توجہ خود حضور ختم الرسل ، ہادی السبل، فخر کونین ، رسول الثقلین علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے ۔ ذرا غور فرمائیں اور سورۃ واقعہ ملاحظہ کریں ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ  نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ فاروق کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے عمرؓ ! کیا آپؓ مجھے اس لقب سے یاد کرتے ہیں حالانکہ میں خود اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمرؓ سے بہتر کسی آدمی پر کبھی سورج طلوع نہیں ہوا۔

سبحان اللہ! زبان رسالت مآب سے خیرالامت ہی کا نہیں، خیرالناس کا لقب مل رہا ہے۔ الله اکبر! اس سے بڑھ کر حضرت فاروق اعظمؓ کی عظمت و شان اور کیا ہوگی؟ بات جب ارشاد نبوی صلى الله عليه وسلم کی آگئی ہے توآیئے مزید معلومات حاصل کرلیں، کچھ حضور صلى الله عليه وسلم کے ارشادات عالیہ مطالعہ میں لےآئیں تاکہ اس بات کے سمجھنےمیں پوری آسانی ہو جائے کہ استاد کی بابرکت نظروں میں شاگرد کی مزید حیثیت کیا ہے ۔ یادرکھیے کہ استاد وہ ہے جس کے متعلق کیا گیا ہے۔ یتیمی که ناکرده قرآن درست كتب خانه چند ملت بشست اور شاگردوہ ہے جو مشیت الہی اور انتخاب خداوندی کے تحت چالیسویں نمبر پر داخل درس اور شامل جماعت ہوا ہے۔

یا درکھیے! نبی صلى الله عليه وسلم کونبوت چالیس سال ہی میں ملتی ہے۔ انسانی عقل کوکمال بھی چالیس سالہ ہونے پرہی ملتا ہے ۔ اسلامیوں بلکہ قدسیوں کی جوجماعت حضورصلى الله عليه وسلم کے زیرسایہ تشکیل وتربیت پا رہی تھی اس کی پختگی اورعزت کے لئے بھی بنیادی پتھرحضرت فاروق اعظمؓ کوبنایا گیا ہے کہ آپؓ چالیسویں نمبر پراسلام لائے۔ دراصل آپؓ ہی کےاسلام لانے پر یہ جماعت پورے طورپرجماعت بنی ۔ اب دیکھئے کہ اس شاگرد نےاستاد کی بارگاہ میں کیا مقام حاصل کیا ۔ اس کا جواب ذیل کی سطور میں ملے گا۔

حضرت عمرؓ فاروق کے بارے میں ارشادات رسول الله
آقائے نامدارسرکاردوعالم حضرت محمد صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں لاریب!
اللہ نےعمرؓکی زبان ودل پرحق کوجاری وساری کردیا۔

ایک واقعہ کے ذیل میں حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا، میں دیکھ رہا ہوں کہ جناتی اورانسانی شیاطین عمرؓ سے بھاگتے ہیں۔

حضورصلى الله عليه وسلم اپنا ایک خواب بیان فرماتےہیں اوراس بات کوپہلے ہی ملحوظ رکھیں کہ حسب تصریح حضرت ابن عباس، پیغمبروں کا خواب وہی ہوتا ہے فرمایا،  میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا، میں نے پوچھا کس کا محل ہے تو جواب دیا گیا کہ عمرؓ بن خطاب کا ۔

ایک مرتبہ فخر موجودات ، سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسلام نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہارے سامنے جنت والوں میں سے ایک آدمی ظاہر ہوا چاہتا ہے۔ اس فرمان کے بعد متصل ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ  تشریف لائے ۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے پھر فرمایا اہل جنت میں سے ایک اور شخص ابھی ابھی آنے والا ہے اوراس فرمان کے بعد حضرت عمرؓ تشریف لائے ۔

حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نےایک پیش آمدہ صورت حال کے بعد حضرت عمرؓ سے یہ بات برملا طور پر فرمائی (اے عمرؓ) جس راستے پر تم چل رہے ہو گےاس پرتمہیں شیطان چلتا ہوا کبھی نہیں ملےگا وہ مجبور ہوگا کہ اپنا راستہ بدل کردوسرا راستہ اختیارکرے۔

ایک مرتبہ حضور سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم جبل احد پرتشریف لےگئے، اس موقعہ پرپہاڑ میں کچھ حرکت پیدا ہوئی، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے احد! ٹھہر جا! اس لئے کہ اس وقت تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیقؓ  اوردوشہید ہیں ۔

ایک مرتبہ حضورصلى الله عليه وسلم نے اپنی(غالبا) جنت کی سیر کا ذکر فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا وہاں ایک محل دیکھا میں نےاس کی خوبصورتی کے پیش نظرپوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ جواب عرض کیا گا کہ عمرؓبن خطاب کا۔ حضورصلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہوجاؤں، مگر اے عمرؓ مجھے تیری غیرت یاد آگئی اس لئے میں اس کےاندر نہیں گیا۔ یہ سن کرحضرت فاروق اعظمؓ روپڑے اورعرض کیا کہ حضور! آپ پرمیرے ماں باپ قربان، کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا؟

حضور اکرم کے ان ارشادات مبارکہ کی روشنی میں حضرت فاروق اعظمؓ کی جورفعت مقام اورجلالت مرتبت ظاہر ہے ۔ اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ ضرورت تھی کہ ہرہر ارشاد نبوی صلى الله عليه وسلم پرتفصیلی بحث ہوتی لیکن وقت کی گنجائش کے مطابق جو کچھ تحریر کردیا ہے حصول ثواب اور خیروبرکت کے لئے یہی کافی ہے۔ (از خلفاء راشدین ، ص ۳۰۳ ۔ پروفیسر ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب )

حضرت عمرؓ فاروق کا عشق رسول
سید نا عمرؓ بن خطاب، نبی کریم صلى الله عليه وسلم کےعم محترم حضرت عباس سے فرماتے ہیں کہ تمہارا اسلام لانا مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب ہے ۔ اس لئے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو تمہارے اسلام لانے سے جس قدر خوشی ہوئی، بس میرے لئے وہ خوشی ہے ۔ میں اپنی خوشی کونبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خوشی پرقربان کردیتا ہوں۔

مدارج النبوۃ کےایک روایت میں ہےکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا کہ یہ اس لئے میں نے حضور صلى الله عليه وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کو یہ بات پسند ہےکہ تم اسلام میں سبقت کرو۔

تاریخ بتلاتی ہے کہ حضرت عمرؓکی نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے اتنی محبت بڑھی کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت عمرؓ فاروق کورسول پاک صلى الله عليه وسلم کازمانہ یاد آتا تو آپؓ رونے لگتے اور روتے روتے بے ہوش ہوجاتے ۔

ایک مرتبہ آپؓ پ رات کو حفاظتی گشت فرما رہے تھےکہ ایک گھرمیں چراغ کی روشنی محسوس ہوئی اورایک بڑھیا کی آوازکان میں پڑی جو اون کودھنتی ہوئی چند اشعار پڑھ رہی تھی، جن کا ترجمہ یہ ہے کہ
محمد صلى الله عليه وسلم پر نیکیوں کا درود پہنچے اور پاک وصاف لوگوں کی طرف سے جوبرگزیدہ ہوں، ان کا درود پہنچے ۔ بے شک رسول اللہ صلى الله عليه وسلم راتوں کو عبادت کرنے والے تھے اورآخیر راتوں کو رونے والے تھے ۔ کاش مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ میں اور میرا محبوب کبھی اکٹھے ہو سکتے ہیں یا نہیں ۔ اس لئے کہ موت مختلف حالتوں میں آتی ہے، نہ معلوم میری موت کس حالت میں آئے اور حضور صلى الله عليه وسلم سے مرنے کے بعد ملنا ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ حضرت عمرؓ ان اشعار کوسن کر رو پڑے۔

حضرت عمرؓ کی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ محبت کی ایک ادنی جھلک یہ بھی دیکھئے کہ اپنی اس بہادری کے باوجود حضور صلى الله عليه وسلم کے وصال کی خبر برداشت نہ کر سکے۔ سخت حیرانی و پریشانی کےعالم میں تلوار ہاتھ میں لےکھڑے ہوگئے کہ جوشخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا انتقال ہوگیا ہے تو اس کی گردن اڑا دوں گا اوران کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے جوحضور کےانتقال کی جھوٹی خبراڑا رہے ہیں۔ جب صدیقؓ  اکبر نے اس وقت نہایت ہی استقلال کا ثبوت دیتے ہوئے بات واضح فرمائی تو حضرت عمرؓلرز گئے اور آنکھوں میں آنسو بھر لاتے ہیں اور آپؓ کی حالت ایسی ہوجاتی ہے جیسے بے ہوشی کی حالت ہوتی ہے اور گویا یوں فرمایا
نعم سرى طيف من أهوى فارقنى .. والحب يعترض اللذات بالام
ہاں مجھے محبوب کا آیا خیال آنکھیں ہیں تر۔۔۔ عشق لذت پر الم کا ڈال دیتا ہے اثر

حضرت عمرؓ فاروق عدل و حریت کا مہر منیر مسلمانوں کےدوسرے خلیفہ عمرؓ فاروق کو اسلام میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ آپؓ کے کارناموں سے تاریخ اسلام کا چہرہ روشن ہے آپ کی درخشندہ تاریخ سے ۱۴۰۰ سال جگ مگ نظر آرہے ہیں۔ عدل و انصاف کے باب میں حضرت عمرؓکا کوئی ثانی نہیں ۔ ان کے عالی اطوار، شاندار کردار اور قابل رشک اسوہ حسنہ سےغیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکے۔

حضرت عمرؓ کی تائید میں۲۷ قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپؓ کی شان میں ۴۰ سے زائد احادیث رسول صلى الله عليه وسلم موجود ہیں ۔ آپؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ کوآنحضرت صلى الله عليه وسلم کی زوجہ محترمہ اور مسلمانوں کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ خود آپؓ (حضرت عمرؓ فاروق ) آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی نواسی اور حضرت علیؓ کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم کے شوہر تھے ۔

حضرت فاروق اعظمؓ نے ۶۳ سال کی عمرؓ پائی۔ آپؓ نے دس سال چھ ماہ دس دن تک ۲۲ لاکھ مربع میل پراسلام کا پرچم لہرایا۔

حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کا مثالی دور حکومت
اسلام کا دامن اور عہد مصطفوی ہے جن درخشندہ اور اولو العزم کرداروں سے آراستہ ہے۔ ان میں خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ بن خطاب کا نام مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ فاروق اعظمؓ کا عدل وانصاف، رعایا پروری، خدا ترسی اور طرز حکومت سےدنیا کی ہر قوم ریزہ چینی کررہی ہے۔ صاف لفظوں میں اسلامی مساوات کا سورج عہد فاروقی میں۲۲ لاکھ مربع میل تک سکون و طمانیت کی روشنی بانٹتا رہا۔

آج کےعہد کی جمہوری، اشتراکی، شورائی اورسرمایہ دارانہ حکومتوں کی اصطلاحات، قواعد و ضوابط ، طرز ہائے زندگی ہر ہر شعبے اور ہر ہر سوسائٹی کا موازنہ حضرت عمرؓ فاروق کے دور سے کریں تو آپؓ کومعلوم ہوگا کےمحمدی شریعت کو چند ہی سالوں میں انسانوں کی فلاح کا سب سے آسان اور سہل ترین ذریعہ قرار دینے والے اس خلیفہ نے جو کام ۱۴۰۰ سال قبل کیا تھا سارے طریقے آزمانے کے بعد بھی رعایا پروری کے ان اصولوں تک جدید حکومتیں نہیں پہنچ سکی ہیں ۔

حضرت عمرؓ فاروق کی اصطلاحات اور کارناموں پر بڑے بڑے فلاسفر اورحکمران سردھن چکے ہیں ۔ دنیا کا کوئی مؤرخ اور اسکالر حضرت عمرؓ کی اصطلاحات کو نظرانداز کئے بغیر سستے انصاف کے حامل اصول رقم نہ کر سکا۔ حضرت عمرؓ کا عدالتی نظام عصر حاضر کی طرح نہ تھا۔

انتہائی آسان اورسہل انصاف آپؓ کی خصوصیات میں ہے۔ یہاں کسی قسم کی رشوت، سفارش، جھوٹی گواہی، جانبداری اور بے ایمانی کا تصور ہی نہ تھا۔ خود خلیفہ وقت بھی عدالت کے روبرو پیش ہوکر جواب دینے کا پابند تھا۔

۱۸ ہجری میں نیشاپور، الجزیرہ ، ۱۹ ہجری میں قسیاریہ ، ۲۰ ہجری میں مصر، ۲۱ ہجری میں اسکندریہ اور نہاوند پراسلام کا پر چم لہرایا گیا۔ حضرت عمرؓ فاروق نے دنیا کے تمام مفتوحہ ممالک کا دورہ کیا۔ ہر ہر شہر اور ہر ہرعلاقے میں کھلی کچہریاں لگائیں، موقع پر احکامات جاری کئے، حکمرانوں کےدروازے پردربان مقرر کرنے پرپابندی لگائی، ساری ساری رات بازاروں اور گلیوں کے پہرے دیئے، بھوکوں پیاسوں، بے خانماؤں اورضرورت مندوں کے لئے خود چل کر گئے۔ رعایا کے ہرطبقے کی ضروریات کی تکمیل کے لئے رات اور دن کا آرام چھوڑ دیا تھا۔ قحط میں آپؓ نے گھی اورزیتون ترک کردیا تھا آپؓ کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا لیکن آپؓ رعایا پروری اورغریبوں کےدکھ درد میں برابرشریک رہے۔

حضرت عمرؓ فاروق کا دور اسلامی تاریخ کا درخشندہ اور بے مثال دور ہے۔ اس عہد کی کہانیاں تمام مذاہب میں ضرب المثل بن گئی ہیں ۔ ایڈورڈ گبن، روسو، ویدرک، برناردشا، گاندھی، نہرو اورعیسائی، یہودی، کمیونسٹ کبھی حکمران آپؓ کےطرز زندگی، دستور مملکت پر آج تک رطب اللسان ہیں۔ عہد حاضر کا مسلمان دوسروں کےگھروں کے بجھے ہوئے چراغوں سے روشنی مانگتا ہے افسوس کہ اسے خلافت راشدہ کے چمکتے ہوئے سورج کی کرنیں نظر نہیں آتیں۔ ہمارے مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ مملکتوں کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اورجدید انکشافات میں دوسرے ممالک کی دوڑمیں شریک ہونے کے لئےغیر مسلم حکمرانوں کےطریقے پر چلنےکی بجائےخلفاء راشدین کی اصلاحات کی مشعل راہ بنا ئیں۔ حضرت عمرؓ فاروق کے کارناموں کو نئی نسل کی ہدایت کا ذریعہ بنائیں۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر ان کی خدمات کے ابلاغ کے لئے مستقل شعبے قائم کئے جائیں۔ مسلمانوں کی متاع حیات صحابہ کرام کے کارنامے اور نابغہ روزگارخدمات ہیں ۔ ہم انہیں کے درخشندہ اصولوں کو مشعل بنا کر ہر چیلنج کا جواب دے سکتے ہیں۔

خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کے خلاف تحریر وتقریر سے نکلنے والی ہر تنقید کو قابل تعزیز جرم قراردیا جائے۔ وہ قوم جو اپنے اسلاف کی زندگیوں کو مشعل بناتی ہیں وہ جہاد اور اخلاق کے کسی میدان میں ہزیمت نہیں اٹھا سکتی۔

شہادت
آپؓ کی بے مثال فتوحات سے اہل باطل گھبرا گئے تھے۔ چناچہ ایک ایرانی فیروز ابولولو، مجوس کے حملے سے یکم محرم ۲۳ ہجری میں مدینہ منورہ میں آپؓ نے شہادت پائی اور آپؓ کی تدفین، حضرت عائشہ کی اجازت سے، آنحضرت صلى الله عليه وسلم  کے روضہ اقدس میں ہوئی۔

فتح بیت المقدس کا واقعہ
حضرت عمرؓو بن العاص نے جب بیت المقدس کا محاصرہ کیا تو علمائے نصاری نے کہا کہ تم لوگ بے فائدہ تکلیف اٹھاتے ہو، تم بیت المقدس کو فتح نہیں کر سکتے۔ فاتح بیت المقدس کا حلیہ، اس کی علامات ہمارے یہاں لکھی ہوئی ہیں۔ اگر تمہارے امام میں وہ سب باتیں موجود ہیں تو بغیر لڑائی کے ہم بیت المقدس ان کے حوالے کر دیں گے۔ اس واقعہ کی خبر حضرت فاروق اعظمؓ کو دی گئی اور آپؓ بیت المقدس تشریف  لے گئے ۔

یہ واقعہ تاریخ عالم میں ہمیشہ زریں حروف میں چمکتا رہےگا کہ حضرت عمرؓ فاروق کا زادِ راہ اس سفر میں جو  اور چھوہارے کےسوا کچھ نہ تھا۔ ایک اونٹ آپؓ کے پاس تھا۔ جس پر آپؓ اور آپؓ کا غلام باری باری سوار ہوتے تھے۔ آپؓ کے کرتہ میں پیوند لگے ہوئے تھے۔  مسلمان جب آپ کی پیشوائی کو  آئے اور آپ کو اس حال میں دیکھا تو سب نے اصرار کرکے آپؓ کو عمدہ لباس پہنایا اور ایک گھوڑے پر سوار کیا۔ چند قدم چلنے کے بعد آپ نے فرمایا میرے نفس پر اس کا برا اثر پڑتا ہے پھر وہی پیوند لگا ہوا کرتا پہن لیا، گھوڑے سے اتر پڑے۔

رومیوں نے اس عرب و عجم کے فرمانروا، اس روحانی بادشاہ کو جس کے نام سے تمام عالم میں زلزلہ بپا ہوا تھا، دیکھا تو کہا کہ بے شک فاتح بیت المقدس یہی ہیں اوردروازہ آپؓ کے لئے کھول دیا ۔ (از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، ازالته الخفا مقصد ، دوم ص۶۰)

حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت عمرؓ کی بیعت
سید نا حضرت ابوبکر صدیقؓ  کےانتقال کا وقت قریب ہوا تو آپؓ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا

میں نے ایک عہد کیا ہے (مسلمانوں کیلئے خلیفہ کا انتخاب ) کیا تم اس پر رضا مند ہوتے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اے خلیفہ رسول ! ہم اس بات پر راضی ہیں ۔ حضرت علیؓ  نے فرمایا کہ عمرؓ بن خطاب کے بغیر ہم کسی دوسرے شخص کےحق میں راضی نہیں ہوں گے ۔ (اسد الغابہ، جلد ۲ ص ۷ ۔ صواعق محرقہ ص ۵۴ – ریاض النضرة جلد ۲ ص ۸۸)
چناچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت سید نا عمرؓ خلیفۃ المسلمین ہوئے۔ آپؓ کے سب اصحاب ، بشمول سیدنا علیؓ  نے بھی بیعت فرمائی۔

 حضرت علیؓ المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ
پس مسلمانوں نے ابوبکر کی بیعت کی تو میں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ان کی بیعت کی ۔ پس جب وہ جہاد کے لئے مجھے کہتے تو میں جہاد میں شریک ہوتا۔ جب وہ مجھےعطایا و ہدایا دیتے تو میں قبول کرتا۔ پس ابوبکر نے(آخری وقت میں) عمرؓ کےحق میں اشارہ کیا اور اس معاملہ میں انہوں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ پس مسلمانوں  نے عمرؓ کی بیعت کی۔ میں نے بھی مسلمانوں کےساتھ عمرؓ کی بیعت کی۔ جب وہ غزوات میں مجھے طلب کرتے تو ان کا شریک کار ہوتا اورعطیات و غنائم وغیرہ جب وہ مجھے عنایت کرتے توان کوقبول کرتا۔ (کنزالعمال ، جلد ۶ – صفحه ۸۲)

علمائے اہلسنت کی ان کتابوں اوران حقائق سے شیعہ متفق نہ ہوں تو ان کی تسلی کے لئے شیعہ مجتہد شیخ ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی ( ۴۶۰ ھ ) کا قول درج کیا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیے

فیایـعـت ابـابـكـر كـما يا يعتموه ….. فبايعت عمرؓ كما يا يعتموه …… فوقيت له ببيعته حتى لما قتل جعلنى سادس ستة قد خلت حيث ادخلني . (امام شیخ طوسی، جلد ثانی، ص ۱۲۱، طبع نجف اشرف عراق)

جس طرح تم  نے ابوبکر کی بیعت کی اسی طرح میں نے بھی ان سے بیعت کی … پھر جس طرح تم نے عمرؓ کی بیعت کی میں نے بھی اسی طرح عمرؓ کی بیعت کی اور بیعت کے حقوق کو میں نے پورا کیا حتی کہ جب عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو عمرؓ نے مجھے چھ آدمیوں( کی کمیٹی ) میں ایک ممبر قرار دے کر شامل کیا اورمیں نے شامل ہونا قبول کیا۔ (رحماء بينهم ، حصہ دوم ،ص ۵۷)

شیعہ حضرات کی اس روایت کے پیش نظر، یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیدنا حضرت علیؓ المرتضیٰ نے حضرت عمرؓ کی بیعت کی تھی اور آپؓ کوامیر المومنین بدل وجان تسلیم کیا تھا۔ یہ اوربات ہے کہ شیعہ مجتہدین  نے انہیں تقیہ کی سیاہ چادر اوڑھا کر اپنے ہی پیشوا کی تعلیمات کا مذاق اڑایا۔

اسلام میں حضرت عمرؓ فاروق کا مقام
حضرت عمرؓ چالیسویں نمبر پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ آپؓ کی بہادری اور ناموری پہلے ہی عرب میں مسلم تھی لیکن جب آپؓ اسلام کے خلعت سے آراستہ ہوئے تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم سمیت تمام مسلمان خوشی سے جھوم اُٹھے۔

آپ صلى الله عليه وسلم نےایک مرتبہ فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے ۔

دوسری حدیث میں فرمایا اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمرؓ نبی ہوتے ۔

 حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رقمطراز ہیں
عمرؓ بن خطاب کا دل آئینہ شفاف کی مانند روشن تھا۔ آپؓ کےافکار وخیالات میں حقیقت کاعکس نظر آتا تھا۔ اس بات کا اندازہ اس سےلگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کی ستائیس (۲۷) آیات ایسی ہیں جو حضرت عمرؓ فاروق کی رائے کےمطابق نازل ہوئی ہیں ۔
( ازالة الخفاء)

حضرت عمرؓ فاروق عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں ہرموقع پرآپ صلى الله عليه وسلم کےساتھ رہے۔ مدنی زندگی میں آپ صلى الله عليه وسلم کی رفاقت میں حضرت عمرؓ نے۲۷ جنگوں میں شرکت فرمائی ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے گہری عقیدت اور محبت کی وجہ سے اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ، آپ صلى الله عليه وسلم کے نکاح میں دی ۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ  کے دور میں دو سال تک آپؓ نے بطور مشیر اورخصوصی وزیرکام کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ  نے وفات کے وقت رائےعامہ اوراسلام کی تعمیر وترقی کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے جب آپؓ کوخلیفہ نامزد کیا تو آپؓ اس اعتماد پرپورے اترے اورخلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد آپ نے دس سال چھ ماہ بارہ دن تک ۲۲ لاکھ مربع میل پر عدل وانصاف کا مینہ برسایا۔

حضرت عمرؓ فاروق کا دور حکومت
خلیفہ راشد حضرت عمرؓفاروق کا دور ساده نفسی، عاجزی اور فروتنی کا زندہ جاوید نمونہ تھا ۔ آپؓ کا سیکٹریٹ مسجد نبوی تھا۔ یہیں سے قیصر و کسری کے زیرو زبر کرنے اور دنیا بھر میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے فیصلے صادر ہوتے تھے ۔ ۲۲ جمادی الثانی، ۱۳ ہجری کو آپؓ نے منصب خلافت سنبھالا جس کمال قوت اورحسن سیاست سے آپؓ نے خلافت کی مسند کو رونق بخشی اس کی نظیر نہیں ملتی ۔

اہم فتوحات
سن ۱۴ ہجری میں دمشق، بصرہ، بعلبک کےعلاقے فتح کئے ۔ اسی سال آپؓ نے پوری امت کو تراویح کی نماز پرجمع کیا۔
سن ۱۵ ہجری میں شرق اردن، یرموک، قادسیہ کےعظیم الشان معرکے ہوئے ۔ اسی سال آپؓ نے کوفہ شہر کی بنیاد ڈالی۔
سن ۱۶ ہجری میں اہواز مدائن اور ایران کے کئی علاقوں پراسلام کا پرچم لہرایا گیا۔ اسی سال عراق اسلامی حکومت میں شامل ہوا۔
سن ۱۶ ہجری اواخر میں تکریت، انطاکیہ، حلب کی فتوحات کے بعد بغیر جنگ بیت المقدس قبضہ میں آیا۔ اسی سال حضرت علیؓ لی المرتضیٰ کے مشورے سے سن ہجری کا آغاز کیا۔ حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ولادت یا وفات کے بجائے مسلمانوں کی فتوحات اور وسعت کا باعث بننے والے واقعہ ہجرت سے اسلام کے نئے سال کا آغاز کر کے تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیا۔ محرم الحرام سے آپؓ نے اسلامی سال کا آغاز کیا۔ اسی ماہ کی یکم کو شہید ہو کر نئے سال کا آغاز ہی قربانی اور جذ بہ سے کیا۔

سن۱۷ ہجری میں ملک حجاز پر قحط پڑا ۔ آپؓ نے حضرت عباس سے درخواست کی کہ آپؓ حضور صلى الله عليه وسلم کے چچا اور ہم تمام لوگوں کے بزرگ ہیں ، بارش کے لئے دعا فرمائیں ۔
حضرت عباس نے دعا مانگی اے اللہ سفید ریش انسان تیرے دروازے پر حاضر ہوئے ۔ اس کی اس قرابت کی وجہ سے جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مجھے حاصل ہے اس کے وسیلے سے بارش نصیب کر ۔
اُن کی اِس دعا کی برکت سے دفعتہ جبل سلع کی پشت سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔

حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت عمرؓ کا ادب و احترام
سید نا حضرت علیؓ المرتضی ، اس کے بعد آپؓ کو ہمیشہ یا امیر المومنین کہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ تا کہ بعد میں آنے والے کوکسی طرح کی بھی بدگمانی پھیلانے کا موقع نہ ملے ۔ ادب و احترام کی اس کیفیت کو شارح نہج البلاغہ ابن الحدید شیعی (۶۵۶ ھ ) کی زبانی سنئے
علیؓ ، عمرؓ کو اس وقت سے جب وہ خلیفہ ہوئے ان کی کنیت سے مخاطب نہیں کرتے تھے بلکہ امیر المومنین کہہ کر خطاب کرتے تھے اور یہ بات اسی طرح کتب حدیث و کتب سیر و تاریخ میں بیان ہوئی ہے۔ (شرح نہج البلاغہ ، جلد ۲، ص۶۳۴)

دوستانه ذمه داری
ادب و احترام کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت علیؓ المرتضیٰ نے سید نا حضرت عمرؓ کی ہمیشہ بھلائی چاہی ہے ۔ آپؓ کی دنیوی اور اخروی زندگی کو بہتر اور اچھی دیکھنے کے آرزو مند رہتے تھے ۔

حضرت امام ابویوسف، حضرت امام ابوحنیفہ سے نقل فرماتے ہیں کہ
جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنائے گئے تو اس وقت حضرت علیؓ  نے از راہ ترغیب و تلقین حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگر آپؓ اپنے سابق خلیفہ کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں تو اپنی قمیض کو پیوند لگائیے، اپنے جوتے وموزے کو پیوند لگائیے۔ دنیوی امید میں کم کر دیجئے اور سیر ہو کر نہ کھائیے۔ (کنز العمال ، جلد ۸، ص ۲۱۹ ، الخراج ص ۱۵، مصر)

یہ ایک دوستانہ احساس تھا۔ آپؓ اس امرکو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ اپنے دوستوں کی آخرت کو بہتر اور عمدہ بنانے کے لئے جو جو تجاویز ہوں وہ پیش کردی جائیں۔ اگر دوستوں کی بھلائی نہ چاہے توگویا اس نےحق دوستی ہی ادا نہ کیا اس لئے آپؓ نے ہمیشہ اس کااہتمام کیا تھا۔ تاریخ یعقوبی کا مصنف احمد بن ابی یعقوب بن جعفر الكاتب الكات العباسی شیعی (۲۰۲ ھ ) بھی اسی قسم کا ایک واقعہ لکھتا ہے کہ

حضرت علیؓ نے فرمایا کہ
یہ تین چیزیں اگر آپؓ محفوظ کرلیں اور ان پرعمل درآمد کریں تو یہ آپؓ کے لئےدیگر اشیاء سے کفایت کریں گے اورچیزوں کی حاجت نہ رہےگی اوراگر آپؓ ان کوترک کردیں گے تو ان کےسوا آپؓ کوکوئی چیز نفع نہ دے گی۔
اس وقت عمرؓ بن الخطاب نے فرمایا۔ بیان کیجئے
حضرت علیؓ المرتضیٰ نے فرمایا کہ
ایک تو قریب و بعید سب لوگوں پراللہ کی حدود کے قوانین جاری کیجئے۔ دوسرا یہ کہ کتاب اللہ کےموافق رضامندی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں یکساں حکم لگائیے۔ تیسرا یہ کہ سیاہ و سفید ہر قسم کےآدمیوں میں حق وانصاف کےساتھ تقسیم کیجئے۔
یہ کلام سننے کے بعد حضرت عمرؓ  نے فرمایا کہ
مجھے اپنی زندگی کی قسم ہے کہ آپؓ نے مختصر کلام کیا مگرابلاغ تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے۔( تاریخ یعقوبی شیعی جلد۲، ص ۲۰۸ ۔ رحماء بینھم حصہ دوم ، ص ۱۲۶)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت عمرؓ فاروق اور سید نا حضرت علیؓ المرتضی کے مابین بے پناہ محبت ومودت تھی اور ایک دوسرے کی آخرت کو اچھی دیکھنے کے خواہش مند رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو نصیحت کیا کرتے تھے۔ نصیحت کرنا اور بھلائی چاہنا اس امر کا شاہد ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے گہرے محب تھے۔

بے تکلفانہ روابط
دوستی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے کندھا ملا کر چلیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں، ایک دوسرے کومحبت بھری نظر سے دیکھیں۔ ایک دوسرے کی بھلائی چاہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی میں غمی میں شامل ہوں۔ سید نا حضرت عمرؓ اور حضرت سید نا علیؓ کے بے تکلفانہ روابط کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیے

ایک مرتبہ قیس بن سعد بن عبادہ حصول علم واخلاق کے لئے مدینہ منورہ پہنچےایک شخص کو دیکھا کہ دو چادروں میں ملبوس ہے۔ سر پر زلفیں ہیں ( دوستوں کی طرح) عمرؓ کے کندھا مبارک پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ علیؓ بن ابی طالب ہیں ۔ (تذکرہ الحفاظ للذہبی جلد ۱ ص ۲۱)

اگر شیعہ کی اس روایت سے کہ وہ ایک دوسرے کے پکے دشمن اور ان کے درمیان گہری عداوت تھی ( معاذ اللہ ) اس سے اتفاق کر لیا جائے تو بتلائیے کیا یہ محبانہ ادائیں ہوتیں؟ ان اداؤں کا ہونا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے۔ (از کتاب رحماء بینھم ج ۲)

سیدنا عمرؓ فاروق کے ارشادات
اگرصبر و شکر دو سواریاں ہوتیں تومیں پرواہ نہ کرتا کہ کس پر سوار ہوں۔
جو شخص راز چھپاتا ہے، اس کا راز اس کے ہاتھ میں ہے۔ لوگوں کی فکرمیں اپنےتئیں نہ بھول جاؤ۔
مجھے سائل کے سوال سے اس کی عقل کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ دنیا تھوڑی سی لو، تب آزادانہ بسرکر سکو گے۔
آدمی کے نماز، روزہ پر نہ جاؤ بلکہ اس کی درست معاملگی اورعقل کودیکھو۔ حاليا علم عقل کی زیادتی پر موقوف نہیں ۔
اشعار عرب، بلند اخلاق ، صحت لغات اور انساب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ توبہ کی تکلیف سے گناہ کا ترک کر دینا زیادہ سہل ہے۔
دولت سر اونچا کئے بغیر نہیں رہتی ۔
جو شخص برائی سے آگاہ نہیں وہ ضروراس میں گرفتار ہوگا۔
آج کا کام کل پر نہ اٹھا رکھو۔
جو چیز پیچھے ہٹی پھر آگے نہیں بڑھتی ۔
کسی کی شہرت آواز سن کر دھوکا نہ کھاؤ۔
حکومت کے لئے ایسی شدت کی ضرورت ہے، جس میں جبر نہ ہو اور ایسی نرمی کی جس میں سستی نہ ہو۔

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button