ام المومنين حضرت سیدہ خديجة بنت خويلد رضي الله عنها
Hazrat Khadijah bint Khuwaylid (R.A) the mother of the believers
حضرت خدیجہ ؓ کا نام اور نسب
حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓ نام اور کنیت ام ہند اور طاہرہ لقب اور سلسلہ نسب یہ ہے۔ خدیجہ بنت خویلد ؓ بن اسد بن عبد العزی بن قصی، قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں۔ وہ مومنوں کی ماں ہیں، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ہیں اور ان کے بچوں کی ماں ہیں، وہ سب سے پہلے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں جب خدا نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی وحی نازل کی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جنہوں نے انہیں بشارت دی کہ وہ امت کے نبی ہیں۔
حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓ کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معزز شخص تھے۔ مکہ آکر اقامت کی، عبد الدارین ابن قصی کے جو ان کے ابن عم تھے، حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل خدیجہ ؓ پیدا ہوئیں، سنِ شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔
حضرت خدیجہ ؓ کی پیدائش اور پرورش
حضرت خدیجہ ؓ 556ء میں مکہ، سعودی عرب میں پیدا ہوئیں، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ وہ قریش کے رئیسوں میں سے تھی۔ ان کی دولت اور ان کے باپ دادا کی دولت عربوں میں مشہور تھی اور وہ ہر سال تجارت کے لیے اپنے تاجروں کو شام بھیجتی تھیں۔ وہ اپنے مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ان میں سے جس کو بھی چنتی تھی اس کے بارے میں بہت محتاط رہتی تھیں۔ انہوں نے تجربہ کار لوگوں کا انتخاب کیا جو اپنے کام میں مخلص تھے اور اپنی دیانتداری، ایمانداری اور عفت کے لیے مشہور تھے۔
انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ وہ بہت امیر اور بااثر خاتون تھیں جو کئی امرا کی جانب سے شادی کی پیشکش ٹھکرا چکی تھیں۔ حضرت خدیجہ ؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد حضرت خدیجہ ؓ سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔
نکاح
باپ نے ان صفات کا لحاظ رکھ کر شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو جو برادر زادہ اور تورات و انجیل کے بہت بڑے عالم تھے، منتخب کیا، لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت نہ ہو سکی اور ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے نکاح ہو گیا۔
ابو ہالہ کے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے عقد نکاح میں آئیں۔
اسی زمانہ میں حرب الفجار چھڑی، جس میں حضرت خدیجہ ؓ کے والد اور شوہر لڑائی کے لیے نکلے اور مارے گئے یہ عام الفیل سے 20 سال بعد کا واقعہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہرت "امین” کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ کے حسن معاملت، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا چرچا عام تھا، خدیجہ ؓ کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، جو معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس سے زیادہ دوں گی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول فرما لیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ (غلام خدیجہ ؓ) کے ہمراہ شام تشریف لے گئے، اس سال کا نفع سال ہائے گزشتہ کے نفع سے زیادہ تھا۔
تاریخ معین پر ابو طالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حمزہ ؓ بن عبد المطلب بھی تھے، حضرت خدیجہ ؓ کے مکان پر آئے، حضرت خدیجہ ؓ نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا، ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔ عمرو بن اسد کے مشورہ سے 500 طلائی درہم مہر قرار پایا اور خدیجہ طاہرہ ؓ حرم نبوت ہو کر ام المومنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں، اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پچیس سال کے تھے اور حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس برس کی تھی۔ یہ بعثت سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔
حضرت خدیجہ ؓ کی اولاد
حضرت خدیجہ ؓ کے بہت سی اولاد ہوئی، ابوہالہ سے جو ان کے پہلے شوہر تھے، دو لڑکے پیدا ہوئے، جن کے نام ہالہ و ہند تھے۔
دوسرے شوہر یعنی عتیق سے ایک لڑکی پیدا ہوئی، اس کا نام بھی ہند تھا۔
قاسم بن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انہی کے نام پر آپ ابو القاسم کنیت کرتے تھے، صغر سنی میں مکہ میں انتقال کیا، اس وقت پیروں پر چلنے لگے تھے۔
زینب بنت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی ابو العاص بن الربیع سے شادی کی اور علی اور امامہ کو جنم دیا، انہوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ مدینہ میں اور ہجرت کے آٹھویں سال وفات پائی۔
عبد اللہ بن محمد
آپ نے بہت کم عمر پائی، چونکہ زمانہ نبوت میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے طیب اور طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے۔
رقیہ ؓ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
عثمان بن عفان ؓ نے ان سے شادی کی، اور وہ اس کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئیں، ان کا انتقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت کے سترہ ماہ بعد رمضان کے مہینے میں ہوا۔
ام کلثوم ؓ بنت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ام کلثوم ؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب ان کی والدہ محترمہ خدیجہ ؓ نے اسلام قبول کیا، انہوں نے اپنی بہن رقیہ ؓ کی وفات کے بعد ہجرت کے تیسرے سال عثمان بن عفان ؓ سے شادی کی۔ عثمان ؓ سے ان کی اولاد نہیں تھی اور ہجرت کے نویں سال شعبان کے مہینے میں ان کا انتقال ہوا۔
حضرت فاطمہ ؓ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے چھوٹی ہیں – صحیح اقوال کے مطابق کہا جاتا ہے کہ ام کلثوم ؓ سب سے چھوٹی ہیں، حضرت فاطمہ ؓ کی شادی حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے ہوئی تھی۔
اسلام کی ابتداء
صحیح بخاری باب بدۤ الوحی میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور وہ یہ ہے،
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدیجہ ؓ سے کہا مجھ کو کپڑا اڑھاؤ، مجھ کو کپڑا اڑھاؤ، انہوں نے کپڑا اڑھایا تو ہیبت کم ہوئی پھر خدیجہ ؓ سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا "مجھ کو ڈر ہے” خدیجہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پریشان نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں، مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے، اب وہ بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ خدیجہ ؓ نے کہا اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی باتیں سنو، بولے ابن الاخ تو نے کیا دیکھا؟ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ پر اترا تھا۔ کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کرے گی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں جو کچھ آپ پر نازل ہوا جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہو جاتی ہے اور اگر اس وقت تک میں زندہ رہا تو تمھاری ضرور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہو گیا اور وحی کچھ دنوں کے لیے رک گئی۔
استیعاب میں ہے۔
سیرت ابن ہشام میں ہے۔
فضائل و مناقب
ابن ہشام میں ہے۔ وہ اسلام کے متعلق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سچی مشیر کار تھیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کو جو محبت تھی، وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور دولت و ثروت کے جو انکو حاصل تھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں،
چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ خدیجہ ؓ برتن میں کچھ لا رہی ہیں۔ آپ ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجیے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو زید بن حارثہ ؓ سے سخت محبت تھی، لیکن وہ مکہ میں غلام کی حیثیت سے رہتے تھے، خدیجہ ؓ نے ان کو آزاد کرایا اور اب وہ کسی دنیاوی رئیس کے خادم ہونے کی بجائے شہنشاہ رسالت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے غلام تھے۔
صحیح بخاری و مسلم میں ہے: عورتوں میں بہترین مریم بنت عمران ہے اور پھر عورتوں میں بہترین خدیجہ بنت خویلد ؓ ہیں۔ ایک مرتبہ جبریل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، خدیجہ ؓ آئیں تو فرمایا، ان کو جنت میں ایک ایسا گھر ملنے کی بشارت سنا دیجیے جو موتی کا ہو گا اور جس میں شور و غل اور محنت و مشقت نہ ہو گی۔
اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون
لوگوں میں سے سب سے پہلے جو ایمان لائے اور اس پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق
جنت کی بہترین عورتیں۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں،
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جنت کی بہترین عورتوں میں سے مریم بنت عمران ہیں، اور دنیا کی بہترین عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ؓ ہیں، اور وہ ان چار عورتوں میں سے ایک ہیں: مریم بنت عمران، فاطمہ ؓ بنت محمد، آسیہ، فرعون کی بیوی، اور خدیجہ بنت خویلد ؓ ۔
ان پر خدا کی سلامتی ہو۔
اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کے زریعے ان کے پاس سلامتی بھیجی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتایا کہ انہیں جنت میں ایسے گھر کی بشارت دیں جس میں کوئی شور و غل نہیں ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا ۔
خدیجہ بنت خویلد ؓ کی وفات
حضرت خدیجہ ؓنکاح کے بعد 25 برس تک زندہ رہیں اور 11 رمضان سنہ 10 نبوی (ہجرت سے تین سال قبل) انتقال کیا، اس وقت ان کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی گئی تھی کیونکہ اس وقت نماز جنازہ سمیت پانچ وقت کی نماز بھی فرض نہیں ہوئی تھی۔ بالکل اسی طرح رمضان کا مہینہ ہونے کے باوجود کوئی فرد روزے سے بھی نہ تھا کیونکہ اس وقت روزے بھی فرض نہیں ہوئے تھے۔ اسی سال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب چچا جناب ابو طالب کی بھی رحلت ہوئی تھی۔ ان دوصدموں نے آپ کو بہت غمگین کردیا ۔اسی لیے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات مدینہ کی ہجرت اور نماز فرض ہونے سے پہلے اسی سال ہوئی تھی جب حضرت ابو طالب کی وفات ہوئی۔