صحابیات

حضرت فاطمتہ الزھرا بنت محمد صلى الله عليه وسلم

Faṭima al Zahra bint Muḥammad (P.B.U.H)

قرآن و حدیث سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آنحضرت کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ ان کے علیحدہ علیحدہ فضائل سے احادیث کی کتب بھری ہوئی ہیں۔ آپ کی چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجتہ الکبری کے بطن سے تھیں۔ حضرت خدیجتہ الکبری کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی پہلی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ صاحبزادیوں کے علاوہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے صاحبزادے حضرت قاسم اور طاہر طیب (عبدالله) بھی آپ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ (از صحیح الرواستہ صفحہ ۲۲۰ ج ۹)
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی تمام اولاد حضرت ابراہیم کے علاوہ حضرت خدیجتہ الکبری کی بطن سے تھی۔
آنحضرت کی چار صاحبزادیوں کے متعلق ذخائر احادیث میں اس قدر تصریحات موجود ہیں جنہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بارے میں شیعہ کی بعض کتب بھی چار صاحبزادیوں کو تسلیم کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں شیعہ کی بنیادی کتاب اصول کافی کی درج ذیل روایت ملاحظہ ہو۔
 و تزويج الخديجة و هو ابن بضع و عشرين سنه فولد له منها قبل مبعثه القاسم و رقیه و زینب و ام کلثوم و ولدله بعد المبعث الطيب و الطاهر و فاطمہ علیہ السلام
(اصول کافی صفحہ ۲۷۹ کتاب الحجہ ، باب مولائے النبی از محمد بن یعقوب کلینی)

آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آپ کی عمر میں بیس سال سے زیادہ تھی۔ پھر خدیجہ سے جناب کی جو اولاد بعثت سے پہلے پیدا ہوئی وہ قاسم، زینب رقیہ اور ام کلثوم تھی۔ اور بعثت کے بعد حضرت خدیجہ سے آپ کی اولاد طیب طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئی۔
اصول کافی کی اس معتبر روایت کے بعد شیعہ کی طرف سے ایک سے زائد بیٹیوں کا انکار ھٹ دھرمی اور ضد پر مبنی ہے اصول کافی کے شارحین میں مراۃ العقول (از ملا باقر مجلسی) اور الصافی (از ملا خلیل قزوینی) نے اس روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح شیعہ کے اصول رابعہ کے ایک اور مصنف شیخ صدوق ابن بابویہ القمی نے بھی اپنی تصنیف کتاب الحصال میں امام جعفر صادق کے حوالہ سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی چار صاحبزادیوں کو تسلیم کیا ہے۔

(از کتاب بنات اربعہ صفحہ ۶۳ مولانا محمد نافع صاحب)
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی چار صاجزادیوں کی تصریح کے بعد یہ بات کہنا کہ اگر آپ کی ایک سے زیادہ صاحبزادیاں بھی تھیں۔ تو دوسری صاحبزادیوں کے فضائل و مناقب کا اس انداز سے ذکر کیوں نہ کیا گیا۔ جیسا حضرت فاطمہ ” کا ہے یا مباہلہ کے موقع پر آپ نے باقی صاحبزادیوں کو اس میں کیوں شامل نہ کیا۔ یہ بلاجواز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ آپ کی سب سے چھوٹی اولاد ہیں۔ وفات رسول صلى الله عليه وسلم سے دو سال قبل یعنی ۸ ہجری تک آپ کی پہلی تینوں صاجزادیاں فوت ہو چکی تھیں۔ مباہلہ کے موقع پر حضرت فاطمہ کے علاوہ آپ کی اولاد میں کوئی زندہ نہ تھا ظاہر ہے کہ فراوانی اور خوشحالی کے وقت اولاد میں جو بھی موجود ہو اس کے ساتھ محبت کا اضافہ ہونا فطری امر ہے۔ جبکہ پہلی تین صاحبزادیوں کے فضائل و مناقب بھی احادیث میں بکثرت موجود ہیں۔

ابتدائی حالات
پیدائش

بعثت نبوت کے وقت جب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی عمر ۲1 سال تھی۔ حضرت فاطمہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہو ئیں۔

لقب
 حضرت فاطمہ کے القاب میں زہراء اور بتول خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بہن بھائی : آپ کی بہنوں میں حضرت زینب، حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم اور بھائیوں میں حضرت قاسم ، حضرت طاہر طیب اور حضرت ابراہیم شامل ہیں۔

فضائل و مناقب
مسلم شریف میں ہے۔
فاقبلت فاطمه تمشى ما تخطئة مشيتد الرسول شيئا
ترجمہ: یعنی حضرت فاطمہ الله عنا جس وقت چلتی تھیں تو آپ چال ڈھال سے اپنے والد حضرت محمد کے بالکل مشابہ ہوتی تھیں۔
حضرت عائشہ کی روایت
عن عائشة قالت مَا رَأَيت أَحَداً أَشْبَه سمتا ودلا و دهیا برسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من فاطمه
ترجمہ: یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام و قعود اور اٹھنے بیٹھنے میں فاطمہ سے زیادہ مشابہت رکھنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔

فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے
البدایہ میں ہے آنحضرت نے فرمایا الفاطمہ سیدۃ نساء اہل الجنہ فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔
کنز العمال میں ہے۔ فاطمہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی۔
. صحیح بخاری میں ہے آپ نے فرمایا فاطمہ خواتین امت کی سردار ہیں۔ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے تنگ کیا اس نے مجھے تنگ کیا، جس نے مجھے تنگ کیا اس نے الله کو تنگ کیا جس نے الله کو تنگ کیا قریب ہے کہ الله اس کا مواخذہ کرے۔

چند اہم واقعات
زینی دحلان نے سیرۃ صلبیہ کے حاشیہ پر لکھا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ حضور کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں ایک دن ابو جہل نے سیدہ فاطمہ کو کسی بات پر تھپڑ مار دیا کمسن سیدہ روتی ہوئی آنحضرت کے پاس آئیں آپ نے ان سے فرمایا ”بیٹی جاؤ اور ابو سفیان کو ابو جہل کی اس حرکت سے آگاہ کرو وہ ابوسفیان کے پاس گئیں اور ان سے سارا واقعہ سنایا۔ ابو سفیان نے سیدہ فاطمہ کی انگلی پکڑی اور سیدھے وہاں پہنچے جہاں ابو جہل بیٹھا ہوا تھا انہوں نے سیدہ سے کہا بیٹی جس طرح اس نے تمہارے منہ پر تھپڑ مارا تھا تم بھی اس کے منہ پر تھپڑ ما رو اگر یہ کچھ بولے گا تو میں اس سے نمٹ لوں گا، چنانچہ سیدہ نے ابو جہل کو تھپڑ مارا اور پھر گھر جا کر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو یہ واقعہ سنایا۔ آپ نے دعا فرمائی۔ اے الله! ابو سفیان کے اس سلوک کو نہ بھولنا حضور کی اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ چند سال بعد ابو سفیان اسلام کے زیور سے آراستہ ہوئے اور خلعت اسلام زیب تن کیا۔
(بحوالہ کتاب سيرة فاطمۃ الزھرا صفحہ  ۶۷)

حضرت فاطمہ اور حضرت علی کی شادی 
حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ کی شادی کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ ایک دن حضرات ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور سعد بن ابی وقاص نے مشورہ کیا کہ فاطمہ کے لئے کئی پیغام حضور کو پہنچے ہیں لیکن آپ نے کوئی بھی منظور نہیں فرمایا اب علی باقی ہیں جو رسول الله کے جانثار اور محبوب بھی ہیں اور عم زاد بھی معلوم ہوتا ہے فقر و تنگدستی کی وجہ سے وہ فاطمہ کیلئے پیغام نہیں دیتے۔ کیوں نہ انہیں پیغام بھیجنے کی ترغیب دی جائے اور ضرورت ہو تو ان کی مدد بھی کی جائے۔ تینوں حضرات یہ مشورہ کر کے حضرت علی کو ڈھونڈنے نکلے، وہ جنگل میں اپنا اونٹ چرا رہے تھے۔ تینوں بزرگوں نے بڑے خلوص کے ساتھ حضرت علی کو حضرت فاطمہ کے لئے پیغام بھیجنے کی ترغیب دی۔ انہیں اپنی بے سرو سامانی کی بناء پر ایسا کرنے میں تامل ہوا مگر ان حضرات کے مجبور کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ دلی خواہش تو ان کی بھی یہی تھی۔ لیکن فطری حیا پیغام بھیجنے میں مانع تھی، اب جرات کر کے حضور کو پیغام بھیج دیا۔ حضور نے انکی استدعا فوراً قبول فرمالی۔ پھر حضور نے حضرت فاطمہ سے اسکا ذکر کیا۔ انہوں نے بزبان خاموشی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین کی ایک جماعت نے حضرت علی کرم الله وجہہ کو حضرت فاطمہ کے لیے پیغام بھیجنے کی ترغیب دی۔ حضرت علی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حرف مدعا زبان پر لائے۔ حضور نے فورا فرمایا اہلاً و مرحبا اور پھر خاموش ہوگئے۔ صحابہ کی جماعت باہر منتظر تھی۔ حضرت علی نے انہیں حضور کا جواب سنایا۔ انہوں نے حضرت علی کو مبارک باد دی کہ حضور نے آپ کا پیغام منظور فرمالیا۔
حضور نے پوچھا تمہارے پاس حق مہر ادا کرنے کیلئے بھی کچھ ہے۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ایک زرہ اور ایک گھوڑے کے سوا کچھ نہیں  حضور  نے فرمایا  گھوڑا تو لڑائی کیلئے ضروری ہے۔ زرہ کو فروخت کر کے اسکی قیمت لے آؤ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد نبوی کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔

اس کے بعد حضرت علیؓ نے یہ زرہ فروخت کے لئے صحابہ کے سامنے پیش کی۔ حضرت عثمان ذوالنورین نے ۳۸۰ در هم پر یہ زرہ خرید لی۔ اور پھر ہدیتا حضرت علی کو واپس دے دی۔ حضرت علی یہ رقم لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا تو آپ نے عثمان کے حق میں دعائے خیر کی۔ اسی اثناء میں حضور نے حضرت فاطمہ کی رضامندی حاصل کر لی تھی۔ حضرت علی نے زرہ کی قیمت فروخت حضور کی خدمت میں پیش کی تو آپ نے فرمایا : دو تہائی خوشبو وغیرہ پر صرف کرد اور ایک تہائی سامان شادی اور دیگر اشیائے خانہ داری پر خرچ کرو۔ پھر حضور نے حضرت انس بن مالک کو حکم دیا کہ جاؤ ابو بکر ، عمر طلحہ زبیر عبد الرحمن بن عوف اور دیگر مهاجرین و انصار کو مسجد نبوی میں بلا لاؤ۔  خود حضرت انس کا بیان ہے کہ اس سے پہلے حضور پر وحی آنے کی سی کیفیت طاری ہوئی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ جبریل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لائے تھے کہ فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیا جائے۔  جب بہت سے صحابہ کرام دربار رسالت (مسجد نبوی) میں جمع ہو گئے تو حضور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا اے گروہ مہاجرین و انصار مجھے الله تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ فاطمہ بنت محمد کا نکاح علی بن ابی طالب سے کردوں۔ میں تمہارے سامنے اسی حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔اس کے بعد آپ نے خطبہ نکاح پڑھا۔ پھر حضور نے بایں الفاظ دعا کی۔

جمع الله شملكما واسعد جد كما وبارك عليكما و اخرج منكما زرية طيبة
ترجمہ: اللہ تعالی تم دونوں کی پراگندگی کو جمع کرے ، تمہاری کوششوں کو سعید بنائے ، تم پر برکت کرے اور تم سے پاک اولاد پیدا کرے۔

صحیح روایت کے مطابق یہ نکاح ۳ ہجری کو ہوا اور فوری رخصتی عمل میں آئی۔
از کتاب سیرت فاطمتہ الزهرا صفحه ۹۴
رخصتی کے دوسرے دن حضور نے خواہش ظاہر کی کہ ولیمہ بھی ہونا چاہیے۔ حضرت سعد نے اس مقصد کے لیے فوراً ایک بھیٹر ہدیہ پیش کر دی اور کچھ انصار نے بھی اس کام میں ہاتھ بٹایا۔ حضرت علی نے مہر میں سے جو رقم بیچ رہی تھی اس سے کچھ اشیاء خریدیں۔ دعوت ولیمہ میں دستر خوان پر کھجور، پنیر زمان جو اور گوشت تھا۔ حضرت اسماء سے روایت ہے کہ یہ اس زمانے کا بہترین ولیمہ تھا۔
جو اصحاب نکاح کے کچھ عرصہ بعد رخصتی کے قائل ہیں انہوں نے اس سلسلے میں یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سرور کائنات کے کاشانہ اقدس سے کچھ فاصلے پر ایک مکان کرایہ پر لے لیا تھا۔ ایک دن حضرت علی کے بھائی عقیل بن ابی طالب ان کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں رسول کریم اپنی لخت جگر کو اب رخصت کر دیں۔ حضرت علی نے جواب دیا، میری بھی یہی خواہش ہے۔ چنانچہ دونوں حضرات حضرت ام ایمن کے پاس تشریف لے گئے جو حضور کی آزاد کردہ کنیز تھیں اور جنہوں نے حضور کے بچپن میں آپ کی خبر گیری اور خدمت کی تھی ۔ سرور عالم ا ان کی بے حد تعظیم و توقیر فرماتے تھے اور میری ماں کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ حضرت ام ایمن ان دونوں کو ازواج مطہرات کے پاس لے گئیں۔
انہوں نے حضور سے عرض کیا : یا رسول الله علی کی خواہش ہے کہ ان کی بیوی کو رخصت کر دیجئے۔ حضور رسالت باب راضی ہو گئے۔ چند درھم حضرت علی کو دیے اور فرمایا جاؤ بازار سے چھوہارے اور پنیر خرید لاؤ۔ حضرت علی نے پانچ در ھم کا گھی خریدا۔ ایک درھم کا پنیر اور چار درہم کے چھوہارے اور سب اشیاء لا کر حضور کے سامنے رکھ دیں۔ حضور نے ان چیزوں کو دعوت ولیمہ کے لئے رکھ دیا۔ پھر آپ نے حضرت فاطمتہ الزہراء کو بلایا اپنے سینہ مبارک پر ان کا سر رکھا، پیشانی پر بوسہ دیا اور ان کا ہاتھ حضرت علی کے ہاتھ میں دے کر فرمایا
اے علی پیغمبر کی بیٹی تجھے مبارک ہو۔ اور اے فاطمہ تیرا شوہر بہت اچھا ہے اب تم دونوں میاں بیوی اپنے گھر جاؤ۔ پھر دونوں کو میاں بیوی کے فرائض و حقوق بتائے اور خود دروازے تک وداع کرنے آئے۔ دروازے پر حضرت علی مرتضیٰ کے دونوں بازو پکڑ کر انہیں دعائے خیر و برکت دی۔ حضرت علی اور سیدۃ النساء دونوں اونٹ پر سوار ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی نے اس کی نکیل پکڑی۔ حضرت اسماء بنت عمیس اور بعض روایتوں کے مطابق سلمی ام رافع یا حضرت ام ایمن سیدہ کے ہمراہ گئیں۔

سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم نے اپنی لخت جگر کو جو جہیز دیا مختلف روایتوں کے مطابق اس کی  تفصیل یہ ہے

ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی
ایک نقشی تخت یا پلنگ
ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی
ایک مشکیزہ
دو مٹی کے برتن (یا گھڑے) پانی کیلئے
ایک چکی ایک روایت میں دو چکیاں درج ہیں
ایک پیالہ
دو چادریں
دو بازو بند نقرئی
ایک جاء نماز

حضرت فاطمہ کی رخصتی کے بعد حضور نے حضرت علی کی طرف سے دعوت ولیمہ کا اہتمام فرمایا۔ آپ نے جو اشیاء اس مقصد کے لئے منگوائی تھیں ان سب کا مالیدہ تیار کرنے کا حکم دیا اور پھر حضرت علیؓ سے فرمایا کہ باہر جا کر جو مسلمان بھی ملے اسے اندر لے آؤ۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین و انصار کو اس بابرکت دعوت میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب مہمانوں نے کھانا کھا لیا تو آپ نے ایک پیالہ کھانا حضرت علی کو اور ایک سیدہ فاطمتہ الزہراء کو مرحمت فرمایا۔

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں علی و فاطمہ کی دعوت ولیمہ میں حاضر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس سے بہتر اور عمدہ دعوت ولیمہ کسی کی نہیں دیکھی۔ رسول اللہ نے ہمارے لئے گوشت اور چھوہارے سے کھانا تیار کرایا۔ جب کھانا تیار ہو گیا تو آپ نے مدینہ کے لوگوں کو بلا بھیجا اور اپنے دست مبارک سے مہمانوں میں تقسیم فرمایا۔
(بحوالہ سیرۃ فاطمۃ الزہرا صفحہ ۹۶)

شادی کے بعد حضرت فاطمہ، نئے گھر میں
سیدہ فاطمتہ الزہرا میکے سے رخصت ہو کر جس گھر میں گئیں۔ وہ مسکن نبوی سے کسی قدر فاصلے پر تھا۔ حضور کو وہاں آنے جانے میں تکلیف ہوتی تھی۔ ایک دن آپ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا

بیٹی مجھے اکثر تمہیں دیکھنے کے لیے آنا پڑتا ہے۔ میں چاہتا ہوں، تمہیں اپنے قریب بلا لوں

سیدہ فاطمہ نے عرض کیا آپ کے قرب و جوار میں حارثہ بن نعمان کے بہت سے مکانات ہیں، آپ ان سے فرمائیے وہ کوئی نہ کوئی مکان خالی کر دیں گے۔
حضرت حارثہ بن نعمان ایک متمول انصاری تھے اور کئی مکانات کے مالک تھے۔ جب سے حضور مدینہ منورہ تشریف لائے تھے وہ اپنے کئی مکانات حضور کی نذر کر چکے تھے۔ رحمت عالم نے یہ مکانات مستحق مهاجرین میں تقسیم فرما دیئے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ نے حارثہؓ کے مکان کے لئے حضور سے التماس کی تو آپ نے فرمایا
جان پدر! حارثہ سے اب کوئی اور مکان مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ وہ پہلے ہی اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی کے لیے کئی مکانات دے چکے ہیں۔
حضور کا ارشاد سن کر حضرت فاطمہ خاموش ہو گئیں۔ ہوتے ہوتے یہ خبر حضرت حارثہ بن نعمان تک پہنچی کہ رسول اکرم ا سیدہ فاطمہ کو اپنے قریب بلانا چاہتے ہیں لیکن مکان نہیں مل رہا۔ وہ نہایت مخلص اور ایثار پیشہ آدمی تھے، یہ خبر سنتے ہی بے تاب ہو گئے اور دوڑتے ہوئے رسول کریم ا ی ا الک کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی

"یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ آپ سیدہ فاطمہ کو کسی قریب کے مکان میں لانا چاہتے ہیں۔ میں یہ مکان جو آپ کے کاشانہ اقدس کے متصل ہے، خالی کیئے دیتا ہوں آپ فاطمہ کو اس میں بلا لیجئے۔ اے میرے آقا میری جان و مال آپ پر قربان ہے۔ خدا کی قسم جو چیز حضور مجھ سے لیں گے، مجھے اس کا آپ کے پاس رہنا زیادہ محبوب ہوگا بہ نسبت اس کے کہ میرے پاس رہے۔
سرور عالم نے حضرت حارثہ کے جذبہ ایثار کی تحسین فرمائی اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا کی۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور نے حضرت حارثہ کی پیشکش کے جواب میں فرمایا۔
تم سچ کہتے ہو اللہ تعالی تمہیں خیر و برکت دے۔

اس کے بعد حضور نے حضرت علی اور سیدہ فاطمہ کو حضرت حارثہ بن نعمان والے قریبی مکان میں منتقل کرا لیا۔

حضرت فاطمہ کی گھریلو زندگی
مدارج النبوۃ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی اور سیدہ فاطمہ کے درمیان گھریلو کاموں کی تقسیم فرمادی تھی۔ چنانچہ گھر کے اندر جتنے کام تھے۔ مثلاً چکی پینا، جھاڑو دینا، کھانا پکانا وغیرہ وہ سب سیدہ فاطمہ کے ذمہ تھے اور باہر کے سب کام مثلاً بازار سے سودا سلف لانا اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ حضرت علی کے ذمہ تھے۔ اس طرح ان کی ازدواجی زندگی میں نہایت خوشگوار توازن پیدا ہو گیا تھا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل کے بھائی نے حضرت علی کو غوراء بنت ابی جہل سے نکاح کرنے کی ترغیب دی اور انہوں نے اس کی حامی بھر لی۔ چنانچہ غوراء کے سرپرست حضور سے اس نکاح کی اجازت لینے آئے۔ حضور کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔ آپ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا

بنی ہشام بن مغیر، علی بن ابی طالب سے اپنی بیٹی کا عقد کرنا چاہتے ہیں اور مجھ سے اجازت مانگتے ہیں۔ لیکن میں اجازت نہ دوں گا، کبھی نہ دوں گا، البتہ علی میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کر سکتے ہیں۔ فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔

اس کے بعد اپنی دوسری بیٹی حضرت زینب کے شوہر حضرت ابو العاص بن ربیع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا

"اس نے مجھ سے جو بات کہی اس کو سچ کر کے دکھلا دیا اور جو وعدہ کیا وفا کیا ۔ اور میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے نہیں کھڑا ہوا لیکن خدا کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔
حضور کو اس طرح ناراض دیکھ کر حضرت علیؓ نے بنت ابو جہل سے نکاح کا ارادہ فورا ترک کر دیا اور پھر حضرت فاطمتہ الزہرا کی زندگی میں کسی دوسرے نکاح کا خیال تک دل میں نہ لائے۔

صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور علی کو نہ پایا۔ (حضرت فاطمہ سے) پوچھا، تمہارے ابن عم کہاں ہیں ؟ بولیں، مجھ میں اور ان میں کچھ جھگڑا ہو گیا تھا وہ غصہ میں چلے گئے ہیں اور یہاں (دوپہر کو نہیں لیے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک شخص سے فرمایا ا ا ا دیکھو وہ کہاں ہیں۔ اس نے آکر خبر دی کہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تشریف لے گئے۔ وہ (حضرت علی ) لیٹے ہوئے تھے۔ پہلو سے چادر ہٹ گئی تھی اور مٹی جسم میں لگ گئی تھی۔ رسول اللہ مٹی پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ اٹھو ابو تراب اٹھو ابو تراب۔
حضور، حضرت علی کو اپنے ساتھ گھر لائے اور دونوں میاں بیوی میں صلح کرا دی۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ حضرت علی کو ابو تراب کہلایا جانا عمر بھر بہت محبوب رہا۔
ایک بار سیدہ فاطمہ کو بخار آگیا۔ رات انہوں نے سخت بے چینی میں کائی۔ حضرت علی کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا۔ پچھلے پر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ فاطمہ معمول کے مطابق چکی ہیں رہی ہیں۔ میں نے کہا، فاطمہ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا۔ رات بھر تمہیں بخار رہا، صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا اب چکی ہیں رہی ہو ۔ خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہو جاؤ۔ حضرت فاطمہ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے کرتے مر بھی جاؤں تو کچھ پروا نہیں ہے۔ میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کے لئے۔ اور چکی پیسی تمہاری اطاعت اور بچوں کی خدمت کے لئے۔ سیدنا حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ہماری مادر گرامی کی زندگی میں باہر کے تمام کام ہمارے والد بزرگوار انجام دیتے تھے اور گھر کے اندر تمام کام کاج کھانا پکانا چکی پیسنا، جھاڑو دینا وغیرہ سب ہماری مادر گرامی خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں۔

حضرت فاطمہ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی اپنی کسی رشتہ داریا ہمسایہ کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں۔ نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت مشقت سے گھبراتی تھیں۔ ساری عمر شوہر کے سامنے حرف شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی۔
کھانے کا یہ اصول تھا کہ چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔
ایک دفعہ حضرت علی سر پر گھاس کا گٹھا اٹھائے گھر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ سے کہا ذرا یہ گٹھا اتارنے میں میری مدد کرو۔ اس وقت وہ کسی کام میں مصروف تھیں جلد نہ اٹھ سکیں۔ حضرت علی نے گٹھا زمین پر دے مارا اور کہا معلوم ہوتا ہے تم گھاس کے گٹھے کو ہاتھ لگانے میں سبکی محسوس کرتی ہو۔

حضرت فاطمہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا ہر گز نہیں میں کام میں مصروفیت کی وجہ سے جلد نہ اٹھ سکی ورنہ جو کام میرے ابا جان رسول خدا ہوتے ہوئے اپنے دست مبارک سے کرتے ہیں میں انہیں کرنے میں سیکی کیسے محسوس کر سکتی ہوں۔

حضرت فاطمہ کے یہی اوصاف و خصائل تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب کسی نے حضرت علی سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ فاطمہ کا حسن معاشرت کیسا تھا تو وہ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا

فاطمہ جنت کا ایک خوشبودار پھول تھا جس کے مرجھانے کے باوجود اس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔

شمائل و خصائل
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا قول ہے کہ میں نے طور و طریق کی خوبی اخلاق و کردار کی پاکیزگی، نشست و برخاست طرز گفتگو اور لب ولہجہ میں رسول کے مشابہ فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ ان کی رفتار بھی بالکل رسول اللہ کی رفتار تھی۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ فاطمہ رفتار و گفتار میں رسول اللہ کا بہترین نمونہ تھیں۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم سب بیویاں آپ کے پاس بیٹھی تھیں کہ فاطمہ سامنے سے آئیں، بالکل رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی چال تھی۔ ذرا بھی فرق نہ تھا۔ آپ نے بڑے تپاک سے بلا کر ( مرحبا یا بفتی کہہ کر پاس بٹھا لیا۔ پھر آپ نے ان کے کان میں کچھ فرمایا ، وہ رونے لگیں۔ ان کو روتے دیکھ کر آپ نے ان کے کان میں کچھ کہا وہ ہننے لگیں۔

میں نے فاطمہ سے کہا، فاطمہ تمام بیویوں کو چھوڑ کر تم سے رسول اللہ اللہ اپنے راز کی باتیں کہتے ہیں اور تم روتی ہو۔ آپ جب تشریف لے گئے تو میں نے فاطمہ سے واقعہ رونے اور بننے کا سبب) پوچھا۔ انہوں نے کہا میں ابا جان کا راز فاش نہیں کروں گی۔ جب رسول اللہ ا و وفات پاگئے تو میں نے فاطمہ سے کہا’ فاطمہ میرا تم پر جو حق ہے میں تم کو اس کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ اس دن کی بات مجھ سے کہہ دو۔ انہوں نے کہا، ہاں اب ممکن ہے، میرے رونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے اپنی جلد وفات کی خبر دی تھی اور بننے کا سبب یہ  تھا کہ آپ نے فرمایا’ فاطمہ کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ تم دنیا کی عورتوں کی سردار ہو۔
(سیرۃ عائشہ بحوالہ صحیحین)

 سیدہ فاطمہ ہمیشہ کچی اور صاف بات کہتی تھیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے ان کی صدق مقالی اور صاف گوئی کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے۔

میں نے فاطمہ کے والد بزرگوار رسول الله ال کے سوا فاطمہ سے زیادہ سچا اور صاف گو کسی کو نہ دیکھا۔
(الاستیعاب)

حضرت فاطمہ کی عبادت اور شب بیداری
سیدہ فاطمتہ الزہراء کو عبادت الہی سے بے انتہا شغف تھا۔ وہ قائم اللیل اور دائم الصوم تھیں۔ خوف الہی سے ہر وقت لرزاں و ترساں رہتی تھیں۔ مسجد نبوی کے پہلو میں گھر تھا۔ سرور عالم اصلى الله عليه وسلم کے ارشادات و مواعظ گھر بیٹھے سنا کرتی تھیں۔ ان میں عقوبت عالم اور محاسبہ آخرت کا ذکر آتا تو ان پر ایسی رقت طاری ہوتی کہ روتے روتے غش آجاتا تھا۔ تلاوت قرآن کرتے وقت عقوبت و عذاب کی آیات آجائیں تو جسم اطہر پر کپکپی طاری ہو جاتی اور آنکھوں سے سیل اشک رواں ہو جاتا۔
زبان پر اکثر اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ خدا کا ذکر کرتی جاتی تھیں۔
حضرت سلمان فارسی کا بیان ہے کہ حضرت فاطمتہ الزہراء گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں اور قرآن پڑھتی رہتی تھیں۔ وہ چکی پیتے وقت بھی (کوئی گیت گانے کے بجائے) قرآن پاک پڑھتی رہتی تھیں۔
علامہ اقبالؒ نے اس شعر میں ان کی اس عادت کی طرف اشارہ کیا ہے
آن          ادب           پروردہ         صبر و رضا
آسیا       گردان   و       لب    قرآن      سرا

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ فاطمہ اللہ تعالٰی کی بے انتہا عبادت کرتی تھیں لیکن گھر کے کام دھندوں میں فرق نہ آنے دیتی تھیں۔
سید نا حضرت حسن بن علی فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کو گھر کے کام دھندوں سے فرصت پانے کے بعد) صبح سے شام تک محراب عبادت میں اللہ تعالی کے آگے گریہ و زاری کرتے، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی حمد و ثناء کرتے اور دعائیں مانگتے دیکھا کرتا تھا۔ یہ دعائیں وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے مانگتی تھیں۔

عبادت کرتے وقت سیدہ فاطمہ کا نورانی چہرہ زعفرانی ہو جاتا تھا۔ جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا، آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی یہاں تک کہ اکثر مصلی آنسوؤں سے بھیگ جاتا تھا۔
ایک اور روایت میں حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میری مادر گرامی نماز کے لیے اپنی گھریلو مسجد کی محراب میں کھڑی ہوئیں اور ساری رات نماز میں مشغول رہیں، اسی حالت میں صبح ہوگئی۔ مادر گرامی نے مومنین اور مومنات کے لئے بہت دعائیں مانگیں مگر اپنے لیے کوئی دعا نہ مانگی۔

میں نے عرض کیا اماں جان آپ نے سب کے لئے دعا مانگی لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہ مانگی؟
فرمایا بیٹا پہلا حق باہر والوں کا ہے اس کے بعد گھر والوں کا۔ (مدارج النبوة)

حضرت خواجہ حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت فاطمتہ الزہراء کی عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر ساری ساری رات نماز میں گزار دیتی تھیں۔

بہت سی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمتہ الزہراء بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی عبادت الہی کو ترک نہ کرتی تھیں۔ اللہ تعالی کی عبادت اس کے احکام کی تعمیل ، اس کی رضا جوئی اور سنت نبوی کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر گرہستی کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اللہ کی ہو کر رہ گئی تھیں۔
اسی لیے ان کا لقب بتول پڑ گیا تھا۔

زہد و قناعت
ایک دفعہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے پاس مال غنیمت میں کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سیدہ فاطمہ سے فرمایا
فاطمہ چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں آبلے (گھٹے) پڑ گئے ہیں اور چولہا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا ہے۔ آج حضور کے پاس مال غنیمت میں بہت سی لونڈیاں آئی ہیں۔ جاؤ اپنے ابا جان سے ایک لونڈی مانگ لاؤ۔

سیدہ فاطمتہ الزہراء رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن شرم و حیا حرف مدعا زبان پر لانے میں مانع ہوئی۔ تھوڑی دیر بارگاہ نبوی میں حاضر رہ کر گھر واپس آگئیں اور حضرت علی سے کہا مجھے حضور اس سے کتنی مانگنے کی ہمت نہیں پڑتی آپ . میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ دوسرے دن دونوں میاں بیوی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنی تکالیف بیان کیں اور ایک لونڈی کے لئے درخواست کی۔ حضور نے فرمایا میں تمہیں کوئی لونڈی خدمت کے لئے نہیں دے سکتا۔ ابھی اصحاب صفہ کی خوردو نوش کا تسلی بخش انتظام مجھے کرنا ہے میں ان لوگوں کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر فقر و فاقہ اختیار کیا ہے۔

حضور کا ارشاد سن کر دونوں میاں بیوی خاموشی سے اپنے گھر چلے گئے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ فاطمہ لونڈی مانگنے کیلئے سرور عالم اے کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو وہاں لوگوں کا مجمع دیکھ کر کچھ کہہ نہ سکیں کیونکہ انکے مزاج میں شرم و حیا بہت زیادہ تھی۔ آخر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے اپنی ضرورت کا اظہار کر کے واپس آگئیں۔ ام المومنین نے حضور ان تک یہ بات پہنچائی تو دوسرے دن حضور خود حضرت علی اور سیدہ فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور سیدہ سے پوچھا”فاطمہ کل تم کسی غرض کیلئے میرے پاس گئی تھیں۔
سیدہ شرم کے مارے اب بھی کچھ عرض نہ کر سکیں۔ اس موقع پر حضرت علی نے عرض کیا یا رسول اللہ! فاطمہ کی یہ حالت ہے کہ چکی پیتے پیتے ہاتھوں میں گھٹے پڑگئے ہیں۔ مشک بھرنے سے سینے پر رسی کے نشان ہو گئے ہیں۔ ہر وقت گھر کے کاموں میں مصروف رہنے سے کپڑے میلے ہو جاتے ہیں کل میں نے ان سے کہا تھا کہ آجکل حضور کے پاس مال غنیمت میں لونڈیاں آئی ہوئی ہیں تم جا کر اپنی تکلیف بیان کرو اور ایک لونڈی مانگ لاؤ تاکہ تمہاری تکلیف کچھ ہلکی ہو جائے۔ یہی درخواست لے کر یہ کل آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں۔

رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا بیٹی بدر کے شہیدوں کے یتیم تم سے پہلے مدد کے حقدار ہیں۔

پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم جس چیز کی خواہش مند تھیں اس سے بہتر ایک چیز میں تم کو بتاتا ہوں۔ ہر نماز کے بعد دس دس بار سبحان اللہ ۔ الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمد لله اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل تمہارے لیے لونڈی اور غلام سے بڑھ کر ثابت ہو گا۔

سیدہ فاطمہ نے عرض کیا میں اللہ اور اللہ کے رسول سے اسی حال میں راضی ہوں۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ فاطمہ کو لونڈی نہیں دی گئی لیکن وہ بالکل مطمئن ہو گئیں اور حسب سابق خوشدلی کے ساتھ اپنے کام کاج میں مصروف رہنے لگیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے اس واقعہ کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے۔

افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیر نہ کوئی غلام تھا

گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکی کے پینے کا جو دن رات کام تھا

مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار
گو نور سے بھرا تھا مگر نیل نام تھا

اٹ جاتا تھا لباس مبارک غبار سے
جھاڑو کا مشغلہ بھی ہر صبح و شام

آخر گئیں جناب رسول خدا کے پاس
یہ بھی کچھ اتفاق وہاں اذن عام تھا

محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض
واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا

پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضور نے
کل کس لیے تم آئی تھیں کیا خاص کام تھا

غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہیں
حیدر نے ان کے منہ سے کہا جو پیام تھا

ارشاد یہ ہوا کہ غریبان بے وطن
جن کا کہ صفہ نبوی میں قیام تھا

میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز
ہر چند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا

جو جو مصیبتیں کہ اب ان پر گزرتی ہیں
میں اس کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا

کچھ تم سے بھی زیادہ مقدم تھا ان کا حق
جن کو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا

خاموش ہو کے سیدہ پاک رہ گئیں
جرات نہ کر سکیں کہ ادب کا مقام تھا

یوں کی بسر ہر اہل بیت مُطی نے زندگی
ماجرائے دختر خیر الانام تھا

دختر رسول اللہ کی سخاوت
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ساری رات ایک باغ سینچا اور اجرت میں تھوڑے سے جو حاصل کیے سیدہ فاطمہ نے ان کا ایک حصہ لے کر آٹا پیسا اور کھانا تیار کیا۔ عین کھانے کے وقت ایک مسکین نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا "میں بھوکا ہوں” حضرت سید ہے نے وہ سارا کھانا اسے دے دیا۔ پھر باقی اناج میں سے کچھ حصہ پیسا اور کھانا پکایا۔ ابھی کھانا پک کر تیار ہوا ہی تھا کہ ایک یتیم نے دروازہ پر آکر دست سوال دراز کیا۔ وہ سب کھانا اسے دے دیا۔ پھر انہوں نے باقی اناج پیسا اور کھانا تیار کیا۔ اس مرتبہ ایک مشرک قیدی نے اللہ کی راہ میں کھانا مانگا۔ وہ سب کھانا اس کو دے دیا۔ غرض سب اہل خانہ نے اس دن فاقہ کیا۔ اللہ تعالی کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس گھر کے قدسی صفات مکینوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی
و يطعمون الطعام على حبه مسكينا و يتيما و اسيرا (الدهر)
(اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں)

ایک دفعہ کسی نے سیدہ فاطمہ سے پوچھا، چالیس اونٹوں کی زکوۃ کیا ہوگی؟ سیدہ نے فرمایا
تمہارے لیے صرف ایک اونٹ اور اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو میں سارے ہی راہ خدا میں دے دوں۔

سیدنا حضرت حسن سے روایت ہے کہ ایک دن ایک وقت کے فاقہ کے بعد ہم سب کو کھانا میسر ہوا۔ والد بزرگوار حضرت علی کرم اللہ وجہ) حسین اور میں کھا چکے تھے لیکن والدہ ماجدہ (سیدۃ النساء) نے ابھی نہیں کھایا تھا۔ انہوں نے ابھی روٹی پر ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ دروازے پر ایک سائل نے صدا دی۔ رسول اللہ کی بیٹی میں دو وقت کا بھوکا ہوں میرا پیٹ بھر دو۔

والدہ محترمہ نے فورا کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا اور مجھ سے فرمایا جاؤ یہ کھانا سائل کو دے آؤ۔ مجھے تو ایک ہی وقت کا فاقہ ہے اور اس نے دو وقت سے نہیں کھایا۔

شرم و حیاء
سیدہ فاطمتہ الزہراء پردہ کی نہایت پابند تھیں اور حد درجہ حیا دار تھیں۔ ایک بار سرور عالم صلى الله عليه وسلم نے انہیں طلب فرمایا تو وہ شرم سے لڑکھڑاتی ہوئی آئیں۔
ایک مرتبہ حضور  نے ان سے پوچھا بیٹی عورت کی سب سے اچھی صفت کونسی ہے تو انہوں نے عرض کیا
عورت کی سب سے اعلیٰ خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کو دیکھیے۔
ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ حضور کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوئیں کہ آپ سے کوئی لونڈی طلب کریں لیکن فرط حیا سے دل کی بات زبان پر نہ لا سکیں اور بغیر کچھ کے واپس آگئیں۔

ایک دفعہ حضور ا حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے آپ ای پیچھے ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتوم بھی اندر چلے گئے۔ سیدہ فاطمہ انہیں دیکھ کر کوٹھڑی میں چھپ گئیں، جب وہ چلے گئے تو حضور نے فرمایا ، بیٹی تم چھپ کیوں گئیں تھیں۔ ابن ام مکتوم تو اندھے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، بابا جان اگر وہ اندھے ہیں تو میں تو ایسی نہیں ہوں کہ خواہ مخواہ غیر مرد کو دیکھا کروں۔

شرم و حیاء کی انتہا یہ تھی کہ عورتوں کا جنازہ بغیر پردہ کے نکلنا پسند نہ تھا۔ اسی بناء پر اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میرے جنازے پر کھجور کی شاخوں کے ذریعے کپڑے کا پردہ ڈالدیا جائے اور جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ اس پر غیر مردوں کی نظر نہ پڑے۔

آنحضرت ا کی حضرت فاطمہ سے محبت کے واقعات
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ جب فاطمہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ از راہ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ فاطمہ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑے ہو جاتیں ، محبت سے آپ کا سر مبارک چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ (ابو داؤد)

رسول اکرم ا کے غلام حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ حضور کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں سیدہ فاطمہ سے رخصت ہوتے اور سفر سے واپس تشریف لاتے تو خاندان بھر میں سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ہی سے ملاقات کرتے پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے۔ (مدارج النبوة )

بعض روایتوں میں ہے کہ حضور حضرت فاطمہ کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے اور تقریباً ہر روز ان کے گھر جاتے۔ ان کی خبر گیری کرتے کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دور کرنے کی کوشش فرماتے اگر سرور عالم اللہ کے گھر میں فقر و فاقہ ہوتا تو بیٹی کے گھر میں بھی یہی کیفیت ہوتی تھی۔ حضور کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ اس میں کچھ نہ کچھ حضرت فاطمہ کو بھی بھجواتے۔

حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے۔ پہلے آپ ا نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی۔ حضور کو یہ بات زیادہ پسند تھی کہ جب کبھی سفر سے واپس ہوتے پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا فرماتے اس کے بعد اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے پاس جاتے پھر ازواج مطہرات کے یہاں۔ چنانچہ آپ اس دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد حضرت فاطمہ سے ملنے تشریف لے چلے۔ حضرت فاطمہ آپ ا کے استقبال کے لئے گھر کے دروازہ پر آگئیں اور آپ ” کا چہرہ مبارک چومنا شروع کر دیا۔ بروایت دیگر آنکھ اور دہن مبارک کو چوما اور رونے لگیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے پوچھا روتی کیوں ہو؟ عرض کیا، آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ مشقت سے متغیر اور پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر رونا آگیا۔ آپ نے فرمایا اے فاطمہ ریه و زاری نہ کر تیرے باپ کو اللہ تعالی نے ایک ایسے کام کے لیے بھیجا ہے کہ روئے زمین پر کوئی اینٹ اور گارے کا مکان اور نہ کوئی ادنی سوتی خیمہ بچے گا جس میں اللہ تعالی یہ کام (دین اسلام) نہ پہنچا دے اور یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن رات کی پہنچ ہے۔
(کنز العمال، طبرانی ، شیمی ، حاکم)

حضرت عائشہ صدیقہ سے محبت رکھنے کی ترغیب
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ دیگر ازواج مطہرات نے حضرت فاطمہ کو ایک کام کے لئے آنجناب کی خدمت اقدس میں بھیجا۔ آنحضرت ا حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر میں تشریف فرما تھے تو اس کام کے متعلق گفتگو ہوئی۔ نبی اقدس صلى الله عليه وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا۔
ا بنية الست تحبين ما احب قالت بلى قال فاحبی هذه

 یعنی اے میری بیٹی جس کو میں محبوب رکھتا ہوں کیا تو اسے محبوب نہیں رکھتی؟ تو حضرت فاطمہ نے عرض کیا کیوں نہیں! میں محبوب رکھتی ہوں۔ تو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ کے ساتھ محبت رکھنا۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ حضرت عائشہ کا احترام ام المومنین ہونے کی بناء پر لازما کرتی تھیں اور اس کی آنحضرت  نے انہیں تاکید کر رکھی تھی ۔ ارشاد نبوی ہوا کہ عائشہ کیساتھ محبت اور عمدہ سلوک قائم رکھنا۔ نبی کریم علیہ الصلوة والسلام جسکو محبوب جانیں اسکو محبوب ہی رکھنا  چاہئے۔ (بحوالہ کتاب بنات اربعه صفحه ۲۷۸)

سیدہ فاطمہ کی وفات
نبی کریم کے وصال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ بیمار ہو ئیں اور چند روز بیمار رہیں۔ پھر تین رمضان المبارک االله کو منگل کی شب انکا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے اٹھائیس (۲۸) یا انتیس (۲۹) برس ذکر کی ہے حضرت فاطمہ کے سن وفات اور انکی عمر کی تھیں میں سیرت نگاروں نے متعدد اقوال لکھے ہیں ہم نے یہاں مشہور قول کے مطابق تاریخ انتقال اور مدت عمر درج کی ہے۔
حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نی کریم کی بلاواسطہ آخری اولاد تھیں جنکا انتقال اب ہوا۔ انکے بعد آنجناب کی کوئی بلا واسطہ اولاد باقی نہ رہی اور سردار دوجہاں کی جو ایک نشانی باقی رہ گئی تھی وہ بھی اللہ تعالی کے ہاں پہنچ گئی۔

حضرت فاطمہ کا انتقال اور ارتحال خصوصاً اس وقت کے اہل اسلام کے لئے ایک عظیم صدمہ تھا جو مدینہ منورہ میں صحابہ کرام موجود تھے ان کے غم والم کی انتہا نہ رہی اور ان کی پریشانی حد سے متجاوز ہو گئی۔ تمام اہل مدینہ اس صدمہ سے متاثر تھے خصوصاً مدینہ طیبہ میں موجود صحابہ کرام اس صدمہ کبری کی وجہ سے نہایت اندوہ میں تھے اور صحابہ کرام کا اندوہ گین ہونا اس وجہ سے بھی نہایت اہم تھا کہ ان کے محبوب کریم صلى الله عليه وسلم کی بلاواسطہ اولاد کی نسبی دنیا سے اٹھ گئی تھی۔ اب صرف آپ صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات (امہات المومنین ) آنجناب کی نشانی باقی رہ گئیں تھیں۔ ان حالات میں سب حضرات کی خواہش تھی کہ ہم اپنے نبی اقدس صلى الله عليه وسلم کی پیاری صاحبزادی کے جنازہ میں شامل ہوں اور اس سعادت عظمی سے بہرہ اندوز ہوں۔ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کا بعد از مغرب اور قبل العشاء انتقال ہونا علماء نے ذکر کیا ہے۔ اس مختصر وقت میں جو حضرات موجود تھے وہ سب جمع ہوئے۔
(بحوالہ کتاب بنات اربعہ صفحہ ۲۹۷)

حضرت فاطمہ کا غسل اور اسماء بنت عمیس کی خدمات
حضرت فاطمہ نے قبل از وفات حضرت صدیق اکبر کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس کو یہ وصیت کی تھی۔ کہ آپ مجھے بعد از وفات غسل دیں اور حضرت علی ان کے ساتھ معاون ہوں۔

چنانچہ حسب رصیت حضرت اسماء بنت عمیس نے آپ کے غسل کا انتظام کیا ان کے ساتھ غسل کی معاونت میں بعض اور پیساں بھی شامل تھیں۔ مثلاً آنحضرت ا کے غلام ابو رافع کی بیوی سلمی اور ام ایمن وغیرہا حضرت علی المرتضے اس سارے انتظام کی نگرانی کرنے والے تھے۔

حضرت فاطمہ کی صلوٰۃ جنازہ اور شیخین کی شمولیت
غسل اور تجہیز و تکفین کے مراحل کے بعد حضرت فاطمتہ الزہرا ان کے جنازہ کا مرحلہ پیش آیا تو آنحترمہ کے جنازہ پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ہی اللہ اور حضرت عمر بی الیہ اور دیگر صحابہ کرام جو اس موقعہ پر موجود تھے تشریف لائے۔ حضرت علی المرتضیٰ جو خون کو صدیق اکبر نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھا ئیں۔ جواب میں حضرت علی المرتضیٰ نے ذکر کیا کہ آنجناب خلیفہ رسول ا یہ ہیں ۔ جناب کی موجودگی میں میں جنازہ پڑھانے کیلئے پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ نماز جنازہ پڑھانا آپ ہی کا حق ہے آپ تشریف لائیں اور جنازہ پڑھائیں اسکے بعد حضرت صدیق اکبر آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کا چار تکبیر کیساتھ جنازہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں صلوۃ جنازہ ادا کی۔

یہ چیز متعدد مصنفین نے اپنی اپنی تصانیف میں باحوالہ ذکر کی ہے چنانچہ چند ایک عبارتیں اہل علم کی تسلی کی خاطر کے لئے بعینہ یہاں نقل کرتے ہیں۔

عن حماد عن ابراهيم قال صلى ابو بكر الصديق على فاطمة بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فكبر عليها اربعا

یعنی ابراہیم فرماتے ہیں۔ کہ ابوبکر صدیق نے فاطمہ بنت رسول اللہ کا جنازہ پڑھایا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button