صحابیات

ام المومنين حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ

Hazrat Aisha al Siddiqah (R.A) the mother of the believers

ابتدائی تعارف و حالات زندگی
نام و نسب
نام عائشہ لقب صدیقہ ام المومنین، حمیرا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بنت الصدیق سے یاد فرماتے تھے۔

والد کا نام و نسب
عائشہؓ بنت ابوبکر عبداللہ بن ابوقحافہ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک۔

والدہ کا نام و نسب
حضرت عائشہؓ بنت ام رومان زینت بن عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب حضرت عائشہؓ  باپ کی طرف سے قریش تیمیہ اور ماں کی طرف سے کنانیہ تھیں آٹھویں پشت میں آپ کا نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔

ولادت
آپ کی والدہ زینب ام رومان کا پہلا نکاح عبد اللہ یزدی سے ہوا تھا ان کے انتقال کے بعد آپ حضرت ابوبکر ؓ  کے نکاح میں آئیں حضرت ابوبکر ؓ سے ان دو بچے حضرت عبدالرحمن ؓ  اور حضرت عائشہؓ پیدا ہوئے کسی بھی مستند تاریخ میں حضرت عائشہؓ کی تاریخ ولادت کا ذکرنہیں ملتا، تاہم امام محمد بن سعد نے اپنے طبقات میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت نبوت کے چوتھے سال کی ابتدا میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

بچپن
حضرت عائشہؓ کو وائل کی بیوی نے دودھ پلایا تھا وائل کے بھائی افلحہ حضرت عائشہؓ  کے رضاعی چچا کے طور پر کبھی کبھی آپ سے ملنے آیا کرتے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آپ ان کے سامنے آتی تھیں بخاری شریف میں ہے کہ کبھی کبھی ان کے رضائی بھائی بھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔

بچپن میں حضرت عائشہؓ  رضی اللہ تعالی عنہاکی ذہانت کا واقعہ
حضرت عائشہؓ بچپن ہی سے نہایت ذہین وفطین اورعمدہ ذکاوت کی مالک تھیں لڑکپن میں آپ کھیل کود کی بہت شوقین تھیں۔ محلہ کی لڑکیاں ہروقت ان کے پاس جمع رہتیں وہ اکثران کے ساتھ کھیلا کرتیں لیکن اس لڑکپن میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امان کا ادب ہر لحاظ سے ملحوظ رہتا۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ گڑیا گڑیا کھیل رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے دائیں بائیں دو پر بھی لگئے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہؓ  یہ کیا ہے جواب دیا کہ یہ گھوڑا ہے آپ نے فرمایا گھوڑوں پر تو پر نہیں ہوتے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کیوں؟ حضرت سلیمان کے گھوڑوں کے تو پر تھے آپ اس بے ساختہ بن پرمسکرا دیئے۔
(از مشکوۃ باب عشرة النساء)

دینی ذوق اور اسلامی معلومات
اس واقعہ سے حضرت عائشہؓ کی فطری ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں۔
عموماً ہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا جو آجکل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش نہیں ہوتا۔ اور نہ وہ کسی کی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں لیکن حضرت عائشہؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں ان کی روایت کرتی تھیں ان سے احکام مستنبط کرتی تھیں لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی تواسے بھی یاد رکھتی تھیں ہجرت کے وقت ان کا سن عمر آٹھ برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں ان سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے۔
(از سیدہ عائشہؓ ، صفحہ ۲۲)

شادی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی شادی حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے ہوئی اس وقت آپ کی عمر پچیس برس اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس تھی حضرت خدیجہؓ ہجرت سے تین سال قبل ۶۵ سال کی عمر میں فوت ہوئیں حضرت خدیجہؓ کی قربانیوں اور پریشان کن حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی سعادت کا جو حصہ وافر آپ کے پاس تھا اس کی مثال نہیں ہردکھ اور پریشانی حضرت خدیجہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئےغمگسارمونس کا کام دیتی رہیں حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو آپ کی طبیعت پران کی جدائی کا بہت بڑا صدمہ تھا آپ پریشان رہتے تھے کہ ایک روز عثمان بن مطعون کی بیوی خولہ بنت حکیم آپ کے پاس آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ آپ دوسرا نکاح کرلیں۔ آپ نے فرمایا کس سے خولہ نے کہا کہ بیوہ اور کنواری دونوں لڑکیاں موجود ہیں بس آپ پسند کریں فرمایا وہ کون ہیں خولہ نے کہا بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اورکنواری ابوبکر کی لڑکی عائشہؓ ہیں ارشاد ہوا تم ان کی نسبت گفتگو کرو۔ انہی دنوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیزآپ کے سامنے پیش کر رہا ہے پوچھا کیا ہے جواب دیا آپ کی بیوی ہے آپ نے کھول کردیکھا تو حضرت عائشہؓ ہیں۔
(از صحیح بخاری مناقب حضرت عائشہؓ )

حضرت عائشہؓ کا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے نکاح ارادہ مشیت الہی میں مقدر ہو چکا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم  سے نکاح ہو گیا اس وقت آپ کی عمر ۶ برس تھی از صحیح بخاری تاہم رخصتی 9 برس کی عمر میں ہوئی عرب کی گرم آب و ہوا میں نو اور دس سال کی لڑکیاں جوان ہو جاتی تھیں اتنی کمسنی میں حضرت عائشہؓ کا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم  کےگھر آنا گہری حکمتوں اوراعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں بقول حضرت سید سلیمان ندوی کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔
حضرت عطیہ ؓ حضرت عائشہؓ کے نکاح کا واقعہ اس سادگی سے بیان کرتی ہیں کہ عائشہؓ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں ان کی نانی آئی ان کو لے گئی حضرت ابوبکر ؓ نے آکر نکاح پڑھایا۔

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی کہ میرا نکاح ہو گیا جب میری والدہ نے باہر نکلنے سے روک دیا اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھایا۔
(از طبقات بن سعد صفحه ۴۰)

حضرت عائشہؓ نکاح کے بعد تین برس تک اپنے والدین کے گھر رہیں، دو ہجرت برس تین ماہ مکہ میں اور مدینہ میں سات مہینے ہجرت کے بعد اپنے گھر میں رہیں۔

حضرت عائشہؓ کی رخصتی
حضرت عائشہؓ  نے مدینہ منورہ میں سات ماہ گزارے اسی اثنا میں آپ بیمار ہو گئی۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے سر کے بال گرگئے صحت بحال ہوتے ہی حضرت ابو بکر  ؓ ، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا یا رسول الله آپ اپنی بیوی اپنے گھر کیوں نہیں بلا لیتے۔ آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کی رقم نہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ  نے درخواست کی کہ میری دولت قبول ہو، چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ  سے آپ صلى الله عليه وسلم نے بارہ اوقیہ قرض لیکر حضرت عائشہؓ  کے پاس بھجوا دیئے۔ اس کے بعد مدینہ کی عورتیں دلہن کو لینے حضرت ابو بکر ؓ کے گھرآئیں حضرت ام رومان ؓ نے بیٹی کو آواز دی۔ وہ جھولا جھول رہی تھیں ماں نے منہ دھلایا بال سنوارے تھوڑی دیر کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بھی تشریف لائے اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کی ضیافت دودھ سے کی گئی حضرت اسماء بنت یزید ؓ حضرت عائشہؓ کی ایک سہیلی کہتی ہیں اس وقت میں اس شادی میں موجود تھی آپ صلى الله عليه وسلم نے تھوڑا سا دودھ پی کر باقی حضرت عائشہؓ کی طرف بڑھایا وہ شرمانے لگیں۔ میں نے کہا رسول الله کا عطیہ واپس نہ کرو، انہوں نے شرماتے شرماتے لے لیا اور تھوڑا سا دودھ پی لیا۔ اس کے بعد آپ کی رخصتی عمل میں آئی۔ یہ شوال کا واقعہ ہے۔

حضرت عائشہؓ کی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شادی کے اس واقعہ میں سادگی کا یہ تاریخ سازواقعہ پوری امت کے لئے عظیم اسوہ حسنہ ہے حضرت عائشہؓ کی شادی بھی شوال میں ہوئی اور رخصتی بھی شوال میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مردوں میں بھی تعلیم و تربیت کا رواج نہ تھا عورتوں میں کیسے ہوتا۔ اسلام کے آغاز کے وقت قریش کے سارے قبیلہ میں صرف سترہ آدمی پڑھے لکھے تھے ان میں شفاء بنت عبدالله صرف ایک عورت تھی اسلام کی اشاعت میں انسانوں پر دوسرے احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی ہوا کہ عرب میں لکھنے پڑھنے کا عام رواج پڑ گیا۔

حضرت ابو بکر ؓ اپنی اولاد کی تربیت میں اس قدر سخت تھے کہ اپنے بیٹے عبدالرحمن ؓ کو اس جرم پر (کہ انہوں نے مہمان کو جلد کھانا کیوں نہیں کھلایا) مارنے کے لئے تیار ہو گئے
(از صحیح بخاری)

حضرت عائشہؓ شادی کے بعد بھی لغزشوں کے باعث باپ سے بہت ڈرتی رہتی تھیں۔ کئی موقعوں پر حضرت ابو بکر نے ان کو سخت تنبیہہ کی۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سامنے یہ واقع پیش آیا تو آپ نے عائشہؓ کو بچالیا۔
(سنن ابو داؤد، بحوالہ سیدہ عائشہؓ صفحہ ۳۳)

حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا اصلی زمانہ رخصتی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھا۔ قرآن ناظرہ اسی زمانہ میں آپ نے پڑھا۔ احادیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ کے لئے ان کا غلام ذکوان قرآن لکھتا تھا۔ آپ نے تاریخ وادب کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ طب کا فن وفود عرب سے سیکھا تھا۔ اطبائےعرب جو نسخے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو بتاتے حضرت عائشہؓ ان کو یاد کرلیتی تھی۔ حضرت عائشہؓ کو کسی اور کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ کی ضرورت نہ تھی۔ آپ کا گھر دنیا کے سب سے بڑے شریعت سے آراستہ تھا۔ یہی درسگاہ اور تعلیم گاہ حضرت عائشہؓ کے علم و فضل کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔

گھریلو زندگی
حضرت عائشہؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں وہ کسی عالیشان بلڈنگ یا اعلی درجہ کی بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا۔ مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہؓ کا مسکن تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا۔ اس کا ایک دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا۔ گھریا حجرہ کا صحن ہی مسجد نبی کا صحن تھا۔ آج کل اسی حجرہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اورحضرت ابو بکر ؓ و حضرت عمر ؓ  بھی آرام فرما ہیں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس دروازے سے ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے جب آپ مسجد میں اعتکاف کرتے توسرمبارک مجرے کے اندر کردیتے حضرت عائشہؓ اسی جگہ بالوں کو کنگھا کر دیتی۔
(صحیح بخاری، بحوالہ سیدہ عائشہؓ ، صفحہ ۴۱)

حجرہ کی وسعت چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی۔ دیواریں مٹی کی تھیں۔ چھت کو کھجوروں کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر سے کمبل ڈال دیا گیا تھا۔ کہ بارش کی زد سے محفوظ رہے ۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا۔ گھر کی کل کائنات ایک چار پائی، ایک چٹائی، ایک بستر ایک تکیہ (جس میں کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی آتا اور کھجور میں رکھنے کے لئے دو برتن تھے ۔ پانی کے لئے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لئے ایک پیالہ تھا۔ کبھی کبھی راتوں کو چراغ جلانا بھی استطاعت سے باہر تھا۔ چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔
(از مسند طیالسی صفحه ۲۰۷)


بارگاہ الہی کی طرف سے حضرت عائشہؓ کی صفائی
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب بھی کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تو آپ کی ایک بیوی خدمت گزاری کے لئے ساتھ ہوتی۔ ہرمرتبہ قرعہ اندازی ہوتی جس بیوی کا نام نکلتا اسے ساتھ لے جاتے۔ دو غزوات میں حضرت عائشہؓ آپ کے ہمراہ تھیں۔ غزوہ بنی مصطلق اور غزوہ ذات الرقاع اول الذکرغزوہ سے واپسی پر ایک جگہ قافلہ نے پڑاؤ ڈالا رات کےاندھیرے اور وزن کے کم ہونے کی وجہ سے قافلہ والوں کو علم نہ ہو سکا کہ حضرت عائشہؓ اونٹ کے کچارا پر موجود ہیں یا نہیں۔
حضرت عائشہؓ کو قضائے حاجت سے فراغت میں تاخیر ہو گئی۔ ادھر قافلہ رخصت ہو گیا۔ حضرت ام المومنین ؓ نے پیچھے بھاگنے کی بجائے قافلہ کے قیام کی جگہ پر ہی لیٹ گئیں۔ حضرت صفوان بن معطل ؓ جن کی ڈیوٹی قافلہ کی گری پڑی اشیاء کی نگہداشت تھی، تھوڑی دیر کے بعد یہاں پہنچے تو حضرت عائشہؓ کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے اونٹ میرے قریب بٹھا دیا اور اناالله  پڑھا، میں سوار ہو گئی اس لفظ کے علاوہ پورے راستہ میں ان کی زبان سے کوئی لفظ میں نے نہیں سنا۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے ایسا پاکباز انسان میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ادھرمدینہ منورہ میں منافقین نےطوفان اٹھا دیا۔ چاروں طرف من گھڑت خبروں اور بے بنیاد الزام لگائے جانے لگے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ بھی پریشان ہوگئے۔ حضرت عائشہؓ  پرحضرت صفوان ؓ کے ہمراہ تنہا سفر کو غلط رنگ دیا گیا۔ حضرت عائشہؓ اپنے گھر تشریف لے گئیں۔ تفصیل کے لئے حضرت سید سلیمان ندوی کی کتاب سیدہ عائشہؓ  ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
الزام کی صفائی اور تحقیق کے لئے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو صحابہ کرام کا اعلیٰ سطحی اجلاس مسجد نبوی میں طلب کرنا پڑا۔ بالآخر حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق وحی الہی کے انتظار کا فیصلہ ہوا۔ اگلے ہی روز درج ذیل آیات قرانی نازل ہوئیں۔ تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اورحضرت ابو بکر ؓ سمیت تمام صحابہ کے چہرے خوشی سے ٹمٹما اٹھے۔

ترجمہ
: جن لوگوں نے یہ افترا باندھا ہے وہ تم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں۔ تم اس کو برا نہ سمجھو، بلکہ اس میں تمہاری بہتری
تھی کہ مومنین اور منافقین کی تمیز ہو گئی ہر شخص کو حصہ کے مطابق گناہ اور جس کا اس میں بڑا حصہ تھا اس کو بڑا عذاب ہوگا۔ جب تم نے یہ سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے بھائی اور بہنوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح تہمت ہے اور کیوں نہیں ان افترا پردازوں نے چار گواہ پیش کئے اور جب گواہ پیش نہیں کیئے توخدا کے نزدیک جھوٹے ٹھرے، اگر خدا کی عنایت و مهربانی دین ودنیا میں تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو جو افواہ تم نے اڑائی تھی اس پر تم کو سخت عذاب پہنچا۔ جب تم اپنی زبان سے اس کو پھیلا رہے تھے اور منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تم کو علم نہ تھا اور تم اس کو ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔

حالانکہ خدا کے نزدیک وہ بڑی بات تھی۔ تم نے سننے کے ساتھ یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم کو ایسی ناروا بات منہ سے نہیں نکالنی چاہئے۔ خدا پاک ہے۔ یہ بہت بڑا بہتان ہے حضرت عائشہؓ کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات کا اترنا تھا کہ حضرت عائشہؓ کی عظمت اسلام تاریخ کا حصہ بن گئی۔

اسی طرح غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر بھی حضرت عائشہؓ کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔

ترجمہ : اگر تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا حاجت ضروری سے فارغ ہوئے ہو یا عورتوں سے مقاربت کی ہے اور تم پانی نہیں پاتے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اس سے کچھ منہ اور ہاتھ پھیر لو۔ الله معاف کرنے والا بخشنے والا ہے اس طرح حضرت ابو بکر اوران کے خاندان کے احسان سے امت محمدیہ قیامت تک سبکدوش نہیں ہو گی۔

حضرت عائشہؓ سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی محبت
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حضرت عائشہؓ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ اور یہ تمام صحابہ کرام ؓ  کو معلوم تھا، چنانچہ لوگ قصدا زیادہ ہدیئے بھیجتے تھے۔ جس روز حضرت عائشہؓ کے ہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قیام کی باری ہوتی تو ازواج مطہرات کو اس کا ملال ہوتا لیکن کوئی ٹوکنےکی ہمت نہ کرتا تھا۔ آخر سب نے مل کر حضرت فاطمہؓ کو راضی کیا۔ وہ پیام لے کر گئیں کہ آپ دوسری بیویوں کے مقابلے میں حضرت عائشہؓ کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا لخت جگر جس کو میں زیادہ چاہتا ہوں کیا تم اس کو نہیں چاہو گی۔ حضرت سیدہ فاطمہؓ کے لئے اس قدر ہی کافی تھا۔ وہ واپس چلی آئیں۔ ایک مرتبہ یہی بات حضرت ام سلمہؓ  نے کہی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا عائشہؓ  کے بارے میں مجھے دق نہ کرو کیونکہ عائشہؓ  کے علاوہ کسی اور بیوی کے لحاف میں مجھ پر وحی نہیں آئی۔ (از نسائی شریف)

ذیل میں حضرت مولانا سید سلمان ندوی کی کتاب سیرۃ عائشہؓ سے حضرت عائشہؓ کے بارے میں چند واقعات نقل کئے جارہے ہیں۔ جن سے سیدہ عائشہؓ کی عظمت محبت، محبت رسول اور دینی تعلق کا اندازہ ہوتا ہے۔

شوہر سے محبت
حضرت عائشہؓ کو بھی رسول الله سے نہ صرف محبت تھی بلکہ شغف وعشق تھا۔ اس محبت کا کوئی اور دعوی کرتا تو ان کو ملال ہوتا تھا۔ چنانچہ تمام ازواج مطہرات میں اس کا بڑا خیال تھا۔ (تفصیل آگے آتی ہے) کبھی راتوں کو حضرت عائشہؓ بیدار ہوتیں اور آپ کو پہلو میں نہ پائیں تو بیقرار ہو جاتیں۔ ایک بار شب کو آنکھ کھلی تو آپ کو نا پایا۔ راتوں کو گھروں میں چراغ نہیں جلتے تھے۔ ادھرادھرٹولنے لگیں۔ آخرایک جگہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا قدم مبارک ملا دیکھا تو آپ سربسجود مناجات الہی میں مصروف ہیں۔ ایک دفعہ یہی واقعہ پیش آیا۔ تو شک سے خیال کیا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں تشریف لےگئے ہیں۔ اٹھ کر ادھرادھردیکھنےلگیں۔ دیکھا توآپ تسبیح و تعلیل میں مصروف ہیں۔ اپنے قصور پر نادم ہو ئیں اور بے اختیار زبان سے نکل گیا میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں کسی خیال میں ہوں اور آپ کسی اورعالم میں ہیں۔

ایک شب کا اور واقعہ ہے کہ آنکھ کھلی تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو نہ پایا۔ شب کا نصف حصہ گزرچکا تھا۔ ادھر ادھر ڈھونڈا، لیکن محبوب کا جلوہ نظر نہیں آیا۔ آخر تلاش کرتی ہوئی قبرستان پہنچیں، دیکھا تو آپ دعا واستغفارمیں مشغول ہیں۔ الٹے پاؤں واپس آئیں اورصبح کو آپ کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا، ہاں رات کوئی کالی کالی چیز سامنے جاتی معلوم ہوتی تھی وہ تم ہی تھیں۔

لباس
زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں۔ اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں۔ ایک کرتا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی، یہ اس زمانہ کے لحاظ سے اس قدر بیش قیمت تھا کہ تقریبوں میں دلہن کے لئےعاریتاً مانگا جاتا تھا۔ کبھی کبھی زعفران رنگ کر کپڑے پہنتی تھیں۔ گاہے گاہے زیور بھی پہن لیتی تھیں۔ گلے میں یمن کا بنا ہوا خاص قسم کے سیاہ و سپید مہروں کا ہار تھا۔ انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنتی تھیں۔

اخلاق وعادات
ام المومنین حضرت عائشہؓ  نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذات اقدس کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے آئی تھی اور جس کے روئے جمال کا غازہ انک لعلی خلق عظیم ہے۔ اس تربیت گاہ روحانی یعنی کا شانہ نبوت نے پردگیان حرم کو حسن اخلاق کے اس رتبہ تک پہنچا دیا تھا جو انسانیت کی روحانی ترقی کی آخری منزل ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہؓ کا اخلاق نہایت بلند تھا۔ وہ نہایت سنجیدہ، فیاض قانع عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔ عورت اور قناعت پسندی دو متضاد مفہوم ہیں۔

قناعت پسندی

حضورنے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں سب سے زیادہ عورتوں کو دیکھا، وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ شوہروں کی ناشکرگزاری کی وجہ سے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کی ذات میں وہ دونوں مجتمع ہیں۔ انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی عسرت اور فقروفاقہ سے بسر کی۔ لیکن وہ کبھی شکایت کا کوئی حرف زبان پر نہیں لائیں۔ بیش بہا لباس گراں قیمت زیور، عالی شان عمارت لذیذ الوان نعمت ان میں سے کوئی چیز شوہرکے ہاں ان کو حاصل نہیں ہوئی اوردیکھ رہی تھیں کہ فتوحات کا خزانہ سیلاب کی طرح ایک طرف سے آتا ہے اور دوسری طرف سے نکل جاتا ہے، تاہم کبھی ان کی طلب بلکہ ہوس بھی ان کو دامن گیر نہیں ہوئی۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک دفعہ انہوں نے کھانا طلب کیا پھر فرمایا میں کبھی سیر ہو کر نہیں کھاتی، کہ مجھے رونا نہ آتا ہو، ان کے ایک شاگرد نے پوچھا یہ کیوں؟ فرمایا مجھے وہ حالت یاد آتی ہے۔ جس میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا ۔ خدا کی قسم دن میں دو دفعہ کبھی سیر ہوکر آپ نے روٹی اور گوشت نہیں کھایا۔ (ترمذی)

خدا نے اولاد سے محروم کیا تھا، تو عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کو لے کر پرورش کیا کرتی تھیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔

خدا نے ان کو کاشانہ نبوت کی ملکہ بنایا تھا۔ اس فرض کو وہ نہایت خوبی سے انجام دیتی تھیں۔ عورتیں جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ضرورت لے کر آتیں۔ اکثر ان کی اعانت اور سفارش حضور کی خدمت میں کیا کرتی تھیں۔

شوہر کی اطاعت
رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپ کی مسرت و رضا کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں۔ اگر ذرا بھی آپ کے چہرے پر حزن و ملال و کبیدہ خاطری کا اثر نظر آتا۔ بیقرار ہو جاتیں۔ رسول کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں۔ ایک دفعہ عبدالله بن زبیر سے خفا ہو کر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا بیٹھی تھیں۔ لیکن جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نننہالی لوگوں نے سفارش کی تو انکار کرتے نہ بنا۔ آپ کے دوستوں کی بھی اتنی عزت کرتی تھیں اور ان کی کوئی بات بھی رد نہیں کرتی تھیں۔

غیبت اور بد گوئی سے احتراز
وہ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتی تھیں۔ ان کی رواتیوں کی تعداد ہزاروں تک ہے مگر اس دفتر میں کسی شخص کی توہین یا بدگوئی کا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ سوکنوں کو برا کہنا عورتوں کی خصوصیت ہے مگر آپ کشادہ پیشانی سے اپنی سوکنوں کی خوبیوں کو بیان اور ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کرتی ہیں۔
حضرت حسان جن سے افک کے واقعہ میں حضرت عائشہؓ  رضی الله تعالی عنہاکو سخت صدمہ پہنچا تھا۔ ان کی مجلس میں شریک ہوتے اور وہ ان کو بڑی خوشی سے جگہ دیتیں۔ ایک دفعہ حضرت حسان آئے اور اپنا ایک قصیدہ سنانے لگے۔ اس کے ایک شعر کا مطلب یہ تھا کہ وہ بھولی بھالی عورتوں پر تہمت نہیں لگاتی۔ حضرت عائشہؓ کو افک کا واقعہ یاد آگیا۔ اس پر صرف اسی قدر فرمایا! لیکن تم ایسے نہیں ہو۔ بعض عزیزوں نے افک کے واقعہ میں ان کی شرکت کے سبب سے حضرت عائشہؓ کے سامنے حضرت حسان کو برا کہنا چاہا۔ تو انہوں نے سختی سے روکا کہ ان کو برا نہ کہو کہ یہ رسول کی طرف سے مشرک شاعروں کو جواب دیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ ایک شخص کا ذکر چلا آپ نے اس کو اچھا نہیں کہا، لوگوں نے کہا، ام المومنین اس کا تو انتقال ہو گیا۔ یہ سن کر فورا ہی اس کی مغفرت کی دعا مانگی۔ سب نے سبب پوچھا کہ ابھی تو آپ نے اس کو اچھا نہیں کہا اور ابھی آپ اس کی مغفرت کی دعا مانگتی ہیں۔ جواب دیا کہ حضور کا ارشاد ہے کہ مُردوں کو بھلائی کے سوا یاد نہ کرو۔

قبول احسان
کسی کا احسان کم قبول کرتی تھیں اور کرتی بھی تھیں تو اس کا معاوضہ ضرور ادا کرتی تھیں۔ فتوحات عراق کے مال غنیمت میں موتیوں کی ایک ڈبیہ آئی۔ عام مسلمانوں کی اجازت سے حضرت عمر  نے وہ حضرت عائشہؓ کو نذر بھیجی۔ حضرت عائشہؓ   نے ڈبیہ کھول کر کہا خدایا! مجھے ابن خطاب کا احسان اٹھانے کے لئے اب زندہ نہ رکھے اطراف ملک سے ان کے پاس ہدیئے اور تحفے آیا کرتے تھے۔ حکم تھا کہ ہر تحفہ کا معاوضہ ضرور بھیجا جائے۔ عبدالله بن عامر عرب کے ایک رئیس نے کچھ روپے اور کپڑے بھیجے ان کو یہ کہہ کر واپس کر دینا چاہا کہ ہم کسی کی کوئی چیز قبول. نہیں کرتے لیکن پھر آپ کا ایک فرمان یاد آگیا تو واپس لے لیا۔

خود ستائی سے پر ہیز
اپنے منہ سے اپنی تعریف پسند نہیں کرتی تھیں۔ مرض الموت میں حضرت ابن عباس ؓ نے عیادت کے لئے آنا چاہا۔ لیکن وہ سمجھ چکی تھیں کہ وہ آکر میری تعریف کریں گے۔ اس لئے اجازت دینے میں تامل کیا۔ لوگوں نے سفارش کی تو منظور کیا۔ اتفاق یہ کہ حضرت ابن عباس نے اگر واقعاً تعریف شروع کی، سن کر بولیں، کاش! میں پیدا نہ ہوئی ہوتی۔ اس عجز و خاکساری کے باوجود وہ خوددار بھی تھیں۔ کبھی کبھی یہ خود داری دوسروں کے مقابلے میں تنک مزاجی کی حد تک پہنچ جاتی اور خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے مقابلہ میں وہ ناز محبوبانہ بن جاتی۔ واقعہ افک کے موقع آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے برأت کی آیتیں پڑھ کر سنائیں اور ماں نے کہا بیٹی شوہر کا شکریہ ادا کرو، بولیں میں صرف اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کروں گی جس نے مجھ کو پاکدامنی و طہارت کی عزت بخشی۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے خفا ہوتیں تو آپ کا نام لے کر قسم کھانا چھوڑ دیتیں۔ یہ سب محبوبانہ انداز ہیں۔ جن کو اس نظر سے دیکھنا چاہئے کہ میاں بیوی کے درمیان کے معاملات ہیں۔

حضرت عبدالله بن زبیر اکثر اپنی خالہ کی خدمت کیا کرتے تھے اوروہ فیاض طبعی سے اس کو ہمیشہ ادھرادھر دے دیا کرتی تھیں۔ ابن زبیر نے تنگ آکر کہا کہ اب ان کا ہاتھ روکنا ضروری ہے۔ حضرت عائشہؓ کو یہ معلوم ہوا تو قسم کھالی کہ اب بھانجے کی کوئی چیز نہ چھوؤں گی۔ لوگوں نے بڑی بڑی سفارشیں کیں اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے اعزہ کو درمیان میں ڈالا تب جاکر صاف ہوئیں۔ عام خوددارانسانوں سےانصاف پسندی کا ظہور کم ہوتا ہے۔ لیکن پروردگاران تربیت نبوی کے کمال اخلاق ہی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ جس کی بڑی مثال باہم متضاد اخلاقی انواع میں تطبیق ہے۔ حضرت صدیقہ کمال خود داری کے ساتھ انصاف پسند بھی تھیں۔

صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ مصر کے ایک صاحب ام المومنین ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ملک کے موجودہ حاکم و والی کا رویہ میدان جنگ میں کیا رہتا ہے جواب میں عرض کیا کہ ہم کو اعتراض کے قابل کوئی بات نظر نہیں آئی۔ کسی کا اونٹ مرجاتا ہے تو دوسرا اونٹ دیتے ہیں اور خادم نہ رہے تو خادم دیتے ہیں خرچ کی ضرورت پڑتی ہے تو خرچ بھی دیتے ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ انہوں نے بھائی محمد بن ابی بکر کے ساتھ جو بھی بدسلوکی کی ہو، تاہم ان کی بدسلوکی مجھے تم کو یہ بتانے سے باز نہیں رکھ سکتی کہ حضور نے میرے اس گھر کے اندر یہ دعا فرمائی کہ اے الله! جو میری امت کا والی ہو، اگر وہ امت پر سختی کرے تو تو بھی اس کے ساتھ سختی کرنا اور جو نرمی کرے اس کے ساتھ نرمی فرمانا۔

دلیری
نهایت شجاع اور پردل تھیں راتوں کو تنہا اٹھ کر قبرستان چلی جاتی تھیں۔ میدان جنگ میں آکر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں میں اضطراب برپا تھا، اپنی پیٹھ پر مشک لاد لاد کر زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ غزوہ خندق میں جب چاروں طرف سے مشرکین محاصرہ کئے ہوئے تھے اور شہر کے اندریہودیوں کے حملہ کا خوف تھا۔ وہ بے خطر قلعہ سے نکل کر مسلمانوں کا نقشہ جنگ معائنہ کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے لڑائیوں میں بھی شرکت کی اجازت چاہی تھی۔ لیکن نہ ملی، جنگ جمل میں وہ جس شان سے فوجوں کو لائیں۔ وہ بھی ان کی طبعی شجاعت کا ثبوت ہے۔

فیاضی
حضرت عائشہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی دونوں بہنیں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماء ؓ نہایت کریم النفس اور فیاض تھیں۔ حضرت عبدالله ابن زبیر کہتے ہیں کہ ان دونوں سے زیادہ سخی اور صاحب کرم میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ فرق یہ تھا کہ حضرت عائشہؓ ذرا ذرا جوڑ کر جمع کرتی تھیں۔ جب کچھ رقم اکٹھی ہو جاتی تھی۔ بانٹ دیتی تھیں اور حضرت اسماء ؓ کا یہ حال تھا کہ جو کچھ پاتی تھیں۔ اس کو اٹھا نہیں رکھتی تھیں۔ اکثر مقروض رہتی تھیں اور ادھر ادھر سے قرض لیا کرتی تھیں۔ لوگ عرض کرنے لگے کہ آپ کو قرض کی کیا ضرورت ہے فرماتیں کہ جس کی قرض ادا کرنے کی نیت ہوتی ہے۔ خدا اس کی اعانت فرماتا ہے۔ میں اس کی اسی اعانت کو ڈھونڈتی ہوں۔ خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں، جو موجود ہو تا سائل کی نذر کر دیتیں۔ ایک دفعہ ایک سائلہ آئی جس کی گود میں دو ننھے ننھے بچے تھے ، اتفاق سے اس وقت گھر میں کچھ نہ تھا، صرف ایک چھوہارا تھا، اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں میں تقسیم کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر سے تشریف لائے تو ماجرا عرض کیا۔ ایک دفعہ سائل آیا سامنے کچھ انگور کے دانے پڑے تھے۔ ایک دانہ اٹھا کر اس کے حوالہ کیا، اس نے دانہ کو حیرت سے دیکھا کہ ایک دانہ بھی کوئی دیتا ہے، یہ دیکھو کہ اس میں کتنے ذرے ہیں۔ یہ اس کی طرف اشارہ تھا۔ فمن يعمل مثقال ذرة خیرایره (زلزال) جس نے ایک ذرہ بھر بھی نیکی کی، وہ اس کو دیکھیے گا۔

حضرت عروہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ  رضی الله تعالی عنہانے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ جھاڑ دیا۔
امیر معاویہ ؓ نے ایک لاکھ درہم بھیجے ، شام ہوتے ہوتے ایک حبہ بھی پاس نہ رکھا، سب محتاجوں کو دے دلا دیا۔ اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا۔ لونڈی نے عرض کی افطار کے سامان کے لئے تو کچھ رکھنا تھا۔ فرمایا کہ تم نے یاد دلا دیا ہوتا۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ حضرت ابن زبیر  نے ایک دفعہ دو بڑی تھیلیوں میں ایک لاکھ کی رقم بھیجی۔ انہوں نے ایک طبق میں یہ رقم رکھ لی اور اس کو بانٹنا شروع کیا اور اس دن بھی روزہ سے تھیں۔ شام ہوئی تو لونڈی سے افطار لانے کو کہا، اس نے عرض کی یا ام المومنین اس رقم سے ذرا سا گوشت افطار کے لئے نہیں منگوا سکتی تھیں، فرمایا ! اب ملامت نہ کرو تم نے اس وقت کیوں یاد نہیں دلایا۔
ایک دفعہ اور اسی قسم کا واقعہ پیش آیا، روزے سے تھیں ، گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا، اتنے میں ایک سائلہ نے آواز دی، لونڈی کو حکم دیا کہ وہ ایک روٹی بھی اس کی نذر کر دو عرض کی کہ شام کو افطار کس چیز سے کیجئے گا۔ فرمایا یہ تو دے دو شام ہوئی تو کسی نے بکری کا سالن ہدستہ بھیجا، لونڈی سے کہا دیکھو یہ تمہاری روٹی سے بہتر چیز خدا نے بھیج دی۔ اپنے رہنے کا مکان امیر معاویہ ؓ کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ قیمت جو آئی وہ سب راہ خدا میں صرف کردی۔

حضرت عبدالله بن زبیر کو بھانجے تھے اور خالہ کی نظر میں سب سے زیادہ چہیتے تھے وہ زیادہ تر خدمت کیا کرتے تھے ، لیکن اس فیاضی کو دیکھتے دیکھتے وہ بھی گھبرا گئے ، کہیں ان کے منہ سے نکل گیا اب ان کا ہاتھ روکنا چاہئے، خالہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے قسم کھالی کہ اب کبھی ابن زبیر سے بات نہیں کروں گی، وہ میرا ہاتھ روکے گا ، حضرت ابن زبیر مدت تک معتوب رہے اور آخر بڑی مشکل سے ان کو معاف فرمایا۔

خشیت الهی و رقیق القلبی
دل میں خوف اور خشیت الہی تھی، رقیق القلب بھی بہت تھیں، بہت جلد رونے لگتی تھیں، حجتہ الوداع کے موقع پر جب نسوانی مجبوری سے حج کے بعض فرائض کے ادا کرنے سے معذوری پیش آگئی، تو اپنی محرومی پر بے اختیار رونے لگیں، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم  نے تشفی دی تو قرار آیا۔ ایک دفعہ دجال کا خیال کر کے اس قدر رقت طاری ہوئی کہ رونے لگیں۔ جنگ جمل کی شرکت کا واقعہ یاد آجاتا تو پھوٹ پھوٹ کر روتیں۔ مرض الموت میں بعض اجتہادی غلطیوں پر اس قدر ندامت ہوتی کہ فرماتی تھیں کہ کاش میں نیست و نابود ہو گئی ہوتی۔

ایک دفعہ کسی بات پر قسم کھائی تھی، پھر لوگوں کے اصرار پر ان کو اپنی قسم توڑنی پڑی اور گو اس کے کفارے میں چالیس غلام آزاد کئے، تاہم ان کے دل پر اتنا گہرا اثر تھا کہ جب یاد کرتیں تو روتے روتے آنچل تر ہو جاتا (بخاری باب الہجرت واقعہ افک میں جب منافقین کی اس تہمت کا حال ان کو معلوم ہوا تو رونے لگیں، والدین لاکھ تشفی دیتے تھے ،لیکن ان کے آنسو نہیں تھمتے تھے۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک سائلہ ان کے دروازے پر آئی، دو ننھے ننھے بچے اس کے ساتھ تھے ، اس وقت گھر میں کچھ اور نہ تھا، تین کھجوریں ان کو دلوادیں، سائلہ نے ایک ایک کھجور ان بچوں کو دی اور ایک اپنے منہ میں ڈال لی، بچوں نے اپنا اپنا حصہ کھا کر حسرت سے اپنی ماں کی طرف دیکھا، ماں نے اپنے منہ سے کھجور نکال کر آدھی آدھی دونوں میں بانٹ دی اور خود نہیں کھائی، ماں کی محبت کا یہ حسرت ناک منظر اور اس کی یہ بے کسی دیکھ کر بے تاب ہو گئیں اور ان کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

عبادت الہی
عبادت الہی میں اکثر مصروف رہتیں، چاشت کی نماز پڑھا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئے اور مجھ کو منع کرے تو میں باز نہ آؤں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر نماز تہجد ادا کرتی تھیں۔ آپ کی وفات کے بعد بھی اس قدر پابند تھیں کہ اگر اتفاق سے آنکھ لگ جاتی اور وقت پر نہ اٹھ سکتیں، تو سویرے اٹھ کر نماز فجر سے پہلے تجد ادا کر لیتیں ، ایک دفعہ ای موقع پر ان کے بھیجے قاسم پہنچ گئے تو انہوں نے دریافت کیا کہ پھوپھی جان یہ کیسی نماز ہے؟ فرمایا میں رات کو نہیں پڑھ سکی اور اب اس کو چھوڑ نہیں سکتی ہوں۔ رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں۔ ذکوان نام کا ایک خواندہ غلام تھا وہ امام ہوتا تھا، سامنے قرآن رکھ کر پڑھتا تھا، یہ مقتدی ہوتیں۔

اکثر روزے رکھا کرتی تھیں، اور بعض روایتوں میں ہے کہ ہمیشہ روزے سے رہتی تھیں۔ ایک دفعہ گرمی کے دنوں میں عرفہ کے روز روزے سے تھیں ، گرمی اور تپش اس قدر شدید تھی کہ سر پر پانی کے چھینٹے دیئے جاتے تھے ، عبدالرحمن آپ کے بھائی نے کہا کہ اس گرمی میں روزہ کچھ ضروری نہیں، افطار کرلیجئے، فرمایا کہ جب میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم  کی زبانی یہ سن چکی ہوں کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنا سال بھر کے گناہ معاف کرا دیتا ہے تو کیا میں روزہ توڑ دوں۔

حج کی شدت سے پابند تھیں، کوئی ایسا سال بہت کم گزرتا تھا جس میں وہ حج نہ کرتی ہوں۔

حضرت عمر ؓ نے اپنے اخیر زمانے میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کو ازواج مطہرات ؓ کے ساتھ حج کے سفر میں روانہ کیا تھا۔ حج میں ان کے ٹھرنے کے مقامات مقرر تھے۔ پہلے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تبعیت کے خیال سے میدان عرفہ کی آخری سرحد نمر میں اترا کرتی تھیں۔ جب یہاں لوگوں کا ہجوم ہونے لگا تو وہاں سے ذرا ہٹ کر اراک میں اپنا خیمہ کھڑا کراتی تھیں۔ کبھی کوہ شہیر کے دامن میں آکر ٹھرتی تھیں، جب تک یہاں قیام رہتا وہ خود اور جو لوگ ان کے ساتھ رہتے تکبیر پڑھا کرتے ، جب یہاں سے چل کھڑی ہوتیں تو تکبیر موقوف کرتیں، پہلے یہ دستور تھا کہ حج کے بعد ذی الحجہ ہی کے مہینہ میں عمرہ ادا کرتی تھیں، بعد کو اس میں ترمیم کی، ماہ محرم سے پہلے وہ جمعہ میں جاکر ٹھرتی تھیں، محرم کا چاند دیکھ کر عمرہ کی نیت کرتیں۔ عرفہ کے دن روزے سے ہوتیں، شام کو جب سب لوگ یہاں سے روانہ ہو جاتے افطار کرتیں۔

معمولی باتوں کا لحاظ
منہیات کی چھوٹی چھوٹی باتوں تک سے بھی پرہیز کرتی تھیں راستہ میں اگر کبھی ہو تیں اور گھنٹے کی آواز آتی تو ٹھر جاتیں کہ کان میں اس کی آواز نہ آئے۔ ان کے ایک گھر میں کرایہ دار تھے ، یہ شطرنج کھیلا کرتے تھی ان کو کہلا بھیجا کہ اگر اس حرکت سے باز نہ آؤ گے تو گھر سے نکلوا دوں گی۔
ایک دفعہ گھر میں ایک سانپ نکلا اس کو مارڈالا، کسی نے کہا آپ نے غلطی کی، ممکن ہے کہ یہ کوئی مسلمان جن ہو، فرمایا! اگر یہ مسلمان ہوتا تو امہات المومنین ؓ کے حجروں میں نہ آتا اس نے کہا آپ ستر پوشی کی حالت میں تھیں، جب وہ آیا، یہ سن کر متاثر ہوئیں اور اس کے فدیہ میں ایک غلام آزاد کیا؟

غلاموں پر شفقت
صرف ایک قسم کے کفارہ میں ایک دفعہ انہوں نے چالیس غلام آزاد کئے آپ کے کل آزاد کئے ہوئے غلاموں کی تعداد تھی تمیم کے قبیلہ کی ایک لونڈی ان کے پاس تھی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا کہ یہ قبیلہ بھی حضرت اسماعیل ہی کی اولاد میں سے ہے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے اشارہ سے اس کو آزاد کر دیا (بخاری کتاب العتق) بریرہ نام کی مدینہ میں ایک لونڈی تھیں ان کے مالکوں نے ان کو مکاتب کیا تھا یعنی کہہ دیا تھا کہ اگر تم اتنی رقم جمع کر دو تو آزاد ہو، اس رقم کے لئے انہوں نے لوگوں سے چندہ مانگا، حضرت عائشہؓ نے سنا تو پوری رقم اپنی طرف سے ادا کر کے ان کو آزاد کرا دیا۔ ایک دفعہ بیمار پڑیں لوگوں نے کہا کسی نے ٹوٹکا کیا ہے انہوں نے لونڈی کو بلا کر پوچھا کہ کیا تو نے ٹوٹکا کیا ہے اس نے اقرار کیا پوچھا کیوں؟ بولی تاکہ آپ جلد مرجائیں تو میں جلدی چھوٹوں، حکم دیا کہ اس کو شریر کے ہاتھ بیچ ڈالو، اور اسکی قیمت سے دوسرا غلام خرید کرآزاد کرو ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا گویا ایک قسم کی سزا تھی لیکن کتنی عجیب۔

فقراء کی حسب حیثیت اعانت
فقراء اوراہل حدیث کی اعانت ان کے حسب حیثیت کرنا چاہئے اگر کسی نیچے طبقے کا آدمی تمہارے پاس آتا ہے تو اس کی حاجت براری ہی اس کی درد کی سزا ہے لیکن اگر اس سے بلند درجہ کا آدمی ہے تو وہ اس کے ساتھ کسی قدر عزت و تعظیم کا بھی مستحق ہے حضرت عائشہؓ اس نکتہ کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں۔
ایک دفعہ ایک معمولی سائل آیا اس کو روٹی کا ٹکڑا دے دیا، وہ چل دیا اسکے بعد ایک اور شخص آیا جو کپڑے پڑے پہنے تھے اور کسی قدر عزت دار معلوم ہوتا تھا اس کو بٹھا کر کھانا کھلایا اور پھر رخصت کیا لوگوں نے عرض کی کہ ان دونوں آدمیوں کے ساتھ دو قسم کے برتاؤ کیوں کئے گئے فرمایا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے حسب حیثیت برتاؤ کرنا چاہئے۔

پردہ کا بہت خیال رکھتی تھیں آیت حجاب کے بعد تو یہ تاکیدی فرض پردہ کا اہتمام ہو گیا تھا۔ جن ہونہار طالب علموں کا اپنے یہاں بے روک ٹوک آجانا اور رکھنا چاہتی تھی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ایک خاص حدیث کے مطابق اپنی کسی بہن یا بھانجی سے ان کو دودھ پلوا دیتی تھیں اور اسطرح ان کی رضاعی خالہ یا نانی بن جاتی تھیں۔ اور ان سے پردہ نہیں ہو تا ورنہ ہمیشہ طالب علموں کے اور ان کے درمیان پردہ پڑا رہتا تھا ایک دفعہ حج کے موقع پر چند بی بیوں نے عرض کی کہ اے ام المومنین چلئے حجر اسود کو بوسہ دے لیں فرمایا تم جاسکتی ہو ، مردوں کے ہجوم میں میں نہیں جاسکتی۔ کبھی دن کو طواف کا موقع پیش آتا۔ تو خانہ کعبہ مردوں سے خالی کرالیا جاتا تھا۔
ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی حالت میں بھی چہرہ پر نقاب پڑی رہتی تھی ایک غلام کو مکاتب کیا تھا اس سے کہا کہ جب تمہارا رز فدیہ اتنا ادا ہو جائے تو میں تمہارے سامنے نہیں آسکتی۔ اسحاق تابعی نابینا تھے وہ خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت عائشہؓ  نے ان سے پردہ کیا وہ بولے کہ مجھ سے کیا پردہ میں تو آپ کو دیکھتا نہیں، فرمایا تم مجھے نہیں دیکھتے تو میں تم کو دیکھتی ہوں، مردوں سے شریعت میں پردہ نہیں، لیکن ان کا کمال احتیاط دیکھئے کہ وہ اپنے حجرہ میں حضرت عمر کے دفن ہونے کے بعد بے پردہ نہیں جاتی تھیں۔

فضل و کمال
علمی حیثیت سے حضرت عائشہؓ کو نہ صرف عام عورتوں پر نہ صرف امهات المومنین ؓ پر نہ صرف خاص خاص صحابیوں پر، بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ ؓ پر فوقیت عام حاصل تھی

صحیح ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے
۔
ما أشكل علينا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم حديث قط فسالنا عائشة الأوجدنا عندها منه علما
ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات کبھی پیش نہیں آئی۔ کہ جس کو ہم نے عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔

عطا بن ابی الرباح تا بھی جن کو متعدد صحابہ کے تلمذ کا شرف حاصل تھا کہتی ہیں۔
كانت عائشة افقه الناس واعلم الناس واحسن الناس رايا في العامة

حضرت عائشہؓ سب سے زیادہ فقیہ، سب سے زیادہ صاحب علم اور عوام میں سب سے زیادہ اچھی رائے والی تھیں۔ امام زہری جو تابعین کے پیشوا تھے ، جنہوں نے بڑے بڑے صحابہ کے آغوش میں تربیت پائی تھی ، کہتے ہیں۔
كانت عائشة اعلم الناس يسئها الأكابر اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
حضرت عائشہؓ  رضی الله تعالی عنہاتمام لوگوں میں سے زیادہ عالم تھی، بڑے بڑے صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے صاحبزادے ابو سلمہ کو وہ بھی جلیل القدر تابعی تھے ، کہتے ہیں۔

مارايت احدا اعلم بسنن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولاافقه فى راى ان احتيج الى رايه والا اعلم باية فيما نزلت ولا فريضة من عائشة

میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کا جانے والا اور رائے میں اگر اس کی ضرورت پڑے، ان سے زیادہ فقیہ اور آیتوں کے شان نزول اور فرائض کے مسئلہ کا واقف کار حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔

ایک دن امیر معاویہ ؓ نے ایک درباری سے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے، اس نے کہا امیر المومنین ؓ آپ ہیں انہوں نے کہا نہیں، میں قسم دیتا ہوں سچ سچ بتاؤ اس نے کہا اگر یہ ہے تو عائشہؓ

 عروہ بن زبیر کا قول ہے۔
ما رايت حد حمم بالحلال والحرام ، والعلم والشعر والطب من عائشة ام المومنين
میں نے حلال و حرام و علم و شاعری اور طب میں ام المومنین عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔

ایک اور روایت میں یہ الفاظ اس طرح ہیں۔
مارايت احدا اعلم بالقرآن ولا بفريضة ولا بحلال ولا بفقه ولا بشعر ولا بطب ولا بحديث العرب ولانسب من عائشة
قرآن، فرائض حلال و حرام ،فقہ ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر عالم کسی کو نہیں دیکھا۔

ایک شخص نے مسروق تابعی سے جو تمام تر حضرت عائشہؓ کے تربیت یافتہ تھے۔ دریافت کیا کہ ام المومنین فرائض کا فن جانتی ہیں؟ جواب دیا۔

اى والذي نفسي بيده لقد رايت مشيخة اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسئلونها عن الفرائض
خدا کی قسم میں نے بڑے بڑے صحابہ کو ان سے فرائض کے مسئلے دریافت کرتے دیکھا ہے۔

حفظ حدیث اور سنن نبوی صلى الله عليه وسلم کی اشاعت کا فرض گودیگر ازواج مطہرات بھی ادا کرتی تھیں۔ تاہم حضرت عائشہؓ کے رتبہ کو ان میں سے کوئی بھی نہیں پہنچیں ،

محمود بن لبید کا بیان ہے۔
كان ازواج النبي صلى الله عليه سلم يحفظن من حديث النبي صلى الله عليه وسلم كثيرا ولامثلا العائشة وام سلمة
ازواج مطہرات بہت سی حدیثیں زبانی یاد رکھتیں تھیں۔ لیکن حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے برابر نہیں۔

امام زہری کی شہادت ہے۔
لوجمع علم الناس كلهم وعلم ارواج النبي صلى الله عليه وسلم فكانت عائشة اوسعهم علما
اگر تمام مردوں کا اور امہات المومنین ؓ کا علم ایک جگہ جمع کیا جاتا تو حضرت عائشہؓ کا علم ان میں سب سے وسیع ہوتا۔

بعض محدثین نے حضرت عائشہؓ  رضی الله تعالی عنہاکے فضائل میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نےفرمایا
خذو اشطر دينكم عن حميراء
اپنے مذہب کا ایک حصہ اس گوری عورت سے سیکھو

اس حدیث کو ابن اثیر نہایہ میں اور فردوسی اپنی مسند میں (بتغیر الفاظ) لائے ہیں لیکن لفظ اس کی سند ثابت نہیں اور اس کا شمار موضوعات میں ہے تاہم معنی اس کے صحیح ہونے میں کس کو شک ہے۔

وفات
امیر معاویہ ؓ کی خلافت کا آخری حصہ حضرت عائشہؓ کی زندگی کا آخیر زمانہ ہے، اس وقت ان کی عمر سرسٹھ برس کی تھی۔ ۵۸ھ میں رمضان کے مہینہ میں بیمار پڑیں۔ چند روز تک علیل رہیں کوئی خیریت پوچھتا، فرماتی اچھی ہوں جو لوگ عیادت کو آتے بشارت دیتے، فرماتیں اے کاش میں پتھر ہوتی اے کاش میں کسی جنگل کی جڑیں ہوئی ہوتی۔

مرض الموت میں وصیت کی کہ اس حجرہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ مجھے دفن نہ کرنا، مجھے دیگر ازواج مطہرات ؓ کے ساتھ جنت البقیع میں دفن کرنا، اور رات ہی کو دفن کر دی جاؤں۔ صبح کا انتظار نہ کیا جائے۔ ۵۸ ہجری تھا اور رمضان کی سترہ تاریخ مطابق ۱۳ جون ۶۷۸ ء تھی کہ نماز وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی۔

جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ عورتوں کا اثر دھام دیکھ کر روز عید کے ہجوم کا دھوکا ہوتا تھا حضرت ام سلمہ نوحہ اور ماتم سن کر بولیں، عائشہؓ کے لئے جنت واجب ہے کہ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھیں۔

یہ حاکم کی روایت ہے، مسند طیالسی میں ہے کہ انہوں نے کہا خدا ان پر رحمت بھیجے کہ اپنے آپ کے سوادہ آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں حضرت ابو ہریرہ ؓ ان دنوں مدینہ کے قائم مقام حاکم تھے انہوں نے جنازہ کی نماز پڑھائی، قاسم بن محمد ابي بكرة عبد الله بن عبدالرحمن بن ابی بکر عبدالله بن عقیق عروہ بن زبیر اور عبدالله بن زبیر بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا۔ اور حسب وصیت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
حضرت عائشہؓ انے اپنے بعد کچھ متروکات چھوڑے جن میں ایک جنگل بھی تھا۔ یہ ان کی بہن حضرت اسماء ؓ کے حصہ میں آیا، امیر معاویہ ؓ نے تبرکا اس کو ایک لاکھ درم میں خریدا، اس کثیر رقم کو حضرت اسماء ؓ نے عزیزوں میں تقسیم کر دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button