تاریخ اسلامغزوات

غزوہ أحد (شوال المكرم ۳ هجرى)

Ghazwa e Uhud | Invasion of Ohud | Battle of Uhud

ہجرت کے تیسرے سال کا سب سے بڑا واقعہ غزوہ احد ہے ۔
"احد” ایک پہاڑ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تقریباً تین میل دور ہے چونکہ حق و باطل کا یہ عظیم معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں درپیش ہوا۔ اسی لئے یہ جنگ غزوئہ احد کے نام سے مشہور ہے اور قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں اس لڑائی کے واقعات کا خداوند عالم نے تذکرہ فرمایا ہے۔

غالباً آپ پہلے پڑھ چکے ہونگے کہ جنگ بدر میں ستر کفار قتل اور ستر گرفتار ہوئے تھے اور جو قتل ہوئے ان میں سے اکثر کفار قریش کے سردار تھے، اس بنا پر مکہ کا ایک ایک گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا اور قریش کا بچہ بچہ جوش انتقام میں آتش غیظ و غضب کا تنور بن کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بیقرار تھا۔ عرب خصوصاً قریش کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ وہ اپنے ایک ایک مقتول کے خون کا بدلہ لینے کو اتنا بڑا قرض سمجھتے تھے جس کو ادا کئے بغیر گویا ان کی ہستی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔

چنانچہ جنگ بدر کے مقتولوں کے ماتم سے جب قریشیوں کو فرصت ملی تو انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد مسلمانوں سے اپنے مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا چاہئے، چنانچہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اور امیہ کا لڑ کا صفوان اور دوسرے کفار قریش جن کے باپ، بھائی، بیٹے، جنگ بدر میں قتل ہو چکے تھے۔ وہ سب کے سب ابوسفیان کے پاس گئے اور کہا کہ مسلمانوں نے ہماری قوم کے تمام سرداروں کو قتل کر ڈالا ہے ۔ اس کا بدلہ لینا ہمارا قومی فریضہ ہے لہذا ہماری خواہش ہے کہ قریش کی مشترکہ تجارت میں اس سال جتنا نفع ہوا ہے وہ سب قوم کے جنگی فنڈ میں جمع ہو جانا چاہئے اور اس رقم سے بہترین، ہتھیار خرید کر اپنی لشکری طاقت بہت جلد مضبوط کر لینی چاہئے اور پھر ایک عظیم فوج لے کر مدینہ پر چڑھائی کر کے بانی اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کر دینا چاہئے۔

ابوسفیان نے خوشی خوشی قریش کی اس درخواست کو منظور کرلیا لیکن قریش کو جنگ بدر سے یہ تجربہ ہو چکا تھا کہ مسلمانوں سے لڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ سمندر کی موجوں سے ٹکرانا، پہاڑوں سے ٹکر لینا بہت آسان ہے مگر محمد  کے عاشقوں سے جنگ کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے اس لئے انہوں نے اپنی جنگی طاقت میں بہت اضافہ کرنا نہایت ضروری خیال کیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ہتھیاروں کی تیاری اور سامان جنگ کی خریداری میں پانی کی طرح روپیہ بہانے کے ساتھ ساتھ پورے عرب میں جنگ کا جوش اور لڑائی کا بخار پھیلانے کے لئے بڑے بڑے شاعروں کو منتخب کیا۔ جو اپنی آتش بیانی سے تمام قبائل عرب میں جوش انتقام کی آگ لگا دیں۔ عمرو حمجی اور مسافع یہ دونوں اپنی شاعری میں طاق اور آتش بیانی میں شہرہ آفاق تھے ان دونوں نے باقاعدہ دورہ کر کے تمام قبائل عرب میں ایسا جوش اور اشتعال پیدا کر دیا کہ بچہ بچہ خون کا بدلہ کا نعرہ لگاتے ہوئے مرنے اور مارنے پر تیار ہو گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی فوج تیار ہو گئی۔

مردوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے معزز اور مالدار گھرانوں کی عورتیں بھی جوش انتقام سے لبریز ہو کر فوج میں شامل ہو گئیں۔ جن کے باپ، بھائی، بیٹے، شوہر جنگ بدر میں قتل ہوئے تھے، ان عورتوں نے قسم کھائی تھی کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے قاتلوں کا خون پی کر ہی دم لیں گے۔ حضور کے چچا حضرت حمزہ نے ہند کے باپ عتبہ اور جبیر بن مطعم کے چچا کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا۔ اس بنا پر ہند نے "وحشی” کو جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا حضرت حمزه کے قتل پر آمادہ کیا اور یہ وعدہ کیا کہ اگر اس نے حضرت حمزہ کو قتل کر دیا تو وہ اس کارگزاری کے صلہ میں آزاد کر دیا جائے گا۔

الغرض بے پناہ جوش و خروش اور انتہائی تیاری کے ساتھ لشکر کفار مکہ سے روانہ ہوا اور ابوسفیان اس لشکر جرار کا سپہ سالار بنا حضور  کے چچا عباس جو خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے اور مکہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے ایک خط لکھ کر حضور  کو کفار قریش کی لشکرکشی سے مطلع کر دیا۔ جب آپ کو یہ خوفناک خبر ملی تو آپ نے ۵ شوال ۳ھ کو حضرت عدی بن فضالہ کے دونوں لڑکوں حضرت انس اور حضرت کو جاسوس بنا کر کفار قریش کے لشکر کی خبر لانے کے لئے روانہ فرمایا۔ چنانچہ ان دونوں نے آکر یہ پریشان کن خبرسنی کہ ابو سفیان کا شکر مدینہ کے بالکل قریب آگیا ہے اور ان کے گھوڑے مدینہ کی چراگاہ کی تمام گھاس چر گئے۔

یہ خبر سن کر ۱۴ شوال ۳ھ جمعہ کی رات میں حضرت سعد بن معاذ و حضرت اسید بن حضیر و حضرت سعد بن عباده ہتھیار لے کر چند انصاریوں کے ساتھ رات بھر کاشانہ نبوت کا پہرہ دیتے رہے اور شہر مدینہ کے اہم ناکوں پر بھی انصار کا پہرہ بٹھا دیا گیا۔ صبح کو حضور نے انصار و مہاجرین کو جمع فرما کر مشورہ طلب فرمایا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کی فوج کا مقابلہ کیا جائے یا شہر سے باہر نکل کر میدان میں یہ جنگ لڑی جائے؟ مہاجرین نے عام طور پر اور انصار میں سے بڑے بوڑھوں نے یہ رائے دی کہ عورتوں اور بچوں کو قلعوں میں محفوظ کر دیا جائے یا شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے۔ منافقوں کا سردار عبدالله بن ابی بھی اس مجلس میں موجود تھا اس نے بھی یہی کہا کہ شہر میں پناہ گیر ہو کر کفار قریش کے حملوں کی مدافعت کی جائے مگر چند کمسن نوجوان جو جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور جوش جہاد میں آپے سے باہر ہو رہے تھے وہ اس رائے پر اڑ گئے کہ میدان میں نکل کر ان دشمنان اسلام سے فیصلہ کن جنگ لڑی جائے حضور نے سب کی رائے سنی۔

پھر مکان میں جا کر ہتھیار زیب تن فرمایا اور باہر تشریف لائے۔ اب تمام لوگ اس بات پر متفق ہو گئے کہ شہر کے اندر رہ کر کفار قریش کے حملوں کو روکا جائے مگر حضور نے فرمایا کہ پیغمبر کے لئے یہ زیب نہیں ہے کہ ہتھیار پہن کر اتار دے یہاں تک کہ الله تعالیٰ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرمادے، اب تم لوگ خدا کا نام لے کر میدان میں نکل پڑو، اگر تم لوگ صبر کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹے رہو گے تو ضرور تمہاری فتح ہوگی۔ (مدارج النبوت جلد ۲ میں ۱۱۳)

پھر حضور  نے انصار کے قبیلہء اوس کا جھنڈا حضرت اسید بن حضیر کو اور قبیلہ خزرج کا جھنڈا حضرت حباب بن منذر کو اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی کو دیا اور ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ سے باہر نکلے۔ شہر سے نکلتے ہی آپ نے دیکھا کہ ایک فوج چلی آرہی ہے ۔ آپ نے پوچھا کہ یہ لوگ ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول الله! یہ رئیس المنافقین عبدالله بن ابی کے حلیف یہودیوں کا لشکر ہے ۔ جو آپ اے پی کی امداد کے لئے آرہا ہے ۔
آپ  نے ارشاد فرمایا کہ :

"ان لوگوں سے کہہ دو کہ واپس لوٹ جائیں۔ ہم مشرکوں کے مقابلہ میں مشرکوں کی مدد نہیں لیں گے”

چنانچہ یہودیوں کا یہ لشکر واپس چلا گیا پھر عبدالله بن ابی منافقوں کا سردار بھی جو تین سو آدمیوں کو لے کر حضور  کے ساتھ آیا تھا۔ یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ محمد نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا اور میری رائے کے خلاف میدان میں نکل پڑے، لہذا میں ان کا ساتھ نہیں دونگا۔
عبدالله بن ابی کی بات سن کر قبیلہ خزرج میں سے ”بنو سلمہ” کے اور قبیلہ اوس میں سے ”بنو حارثہ” کے لوگوں نے بھی واپس لوٹ جانے کا ارادہ کر لیا۔ مگر الله تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں اچانک محبت اسلام کا ایسا جذبہ پیدا فرما دیا کہ ان لوگوں کے قدم جم گئے چنانچہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:

” جب تم میں سے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامروی کر جائیں اور الله ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو الله ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے “

اب حضور کے لشکر میں کل سات سو صحابہ رہ گئے جن میں کل ایک سو زرہ پوش تھے اور کفار کی فوج میں تین ہزار افراد کا لشکر تھا۔ جن میں سات سو زرہ پوش جوان، دو سو گھوڑے، تین ہزار اونٹ اور پندرہ عورتیں تھیں۔ شہر سے باہر نکل کر حضور نے اپنی فوج کا معائنہ فرمایا اور جو لوگ کم عمر تھے، ان کو واپس لوٹا دیا کہ جنگ کے ہولناک موقع پر بچوں کا کیا کام؟

جب حضرت رافع بن خدیج سے کہا گیا کہ تم بہت چھوٹے ہو، تم ابھی واپس چلے جاؤ تو وہ فوراً انگوٹھوں کے بل تن کر کھڑے ہو گئے تا کہ ان کا قد اونچا نظر آئے، چنانچہ ان کی یہ ترکیب چل گئی اور وہ فوج میں شامل کر لئے گئے۔

حضرت سمرہ جو ایک کم عمر نو جوان تھے۔ جب ان کو واپس کیا جانےلگا تو انہوں نے عرض کیا کہ میں رافع بن خدیج کوکشی میں پچھاڑ لیتا ہوں۔ اس لئے اگر وہ فوج میں لے لئے گئے تو پھر مجھے بھی ضرور جنگ میں شریک ہونے کی اجازت ملنی چاہئے۔ چنانچہ دونوں کا مقابلہ کرایا گیا اور واقعی حضرت سمرہ نے حضرت رافع بن خدیج کو زمین پر دے مارا۔ اس طرح ان دونوں پرجوش نوجوانوں کو جنگ احد میں شرکت کی سعادت نصیب ہو گئی۔

مشرکین تو ۱۲ شوال ۳ھ بدھ کے دن ہی مدینہ کے قریب پہنچ کر کوہ احد پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ مگر حضور اکرم ۱۴ شوال ۳ ھ بعد نماز جمعہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ رات کو بنی نجار میں رہے اور ۱۵ شوال سنیچر کے دن نماز فجر کے وقت احد میں پہنچے، حضرت بلال نے اذان دی اور آپ نے نماز فجر پڑھا کر میدان جنگ میں مورچہ بندی شروع فرمائی۔ حضرت عکاشہ بن محصن اساری کو لشکر کے میمنہ (دائیں بازو) پر اور حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد منخرومی کو میسرہ (بائیں بازو ) پر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح و حضرت سعد بن ابی وقاص کو کی مقدمہ (اگلے حصہ ) پر اور حضرت مقداد بن عمر کو ساقہ ( پچھلے حصہ) پر افسر مقرر فرمایا اور صف بندی کے وقت احد پہاڑ کو پشت پر رکھا اور کوہ عینین کو جو وادی فتاة میں ہے اپنے بائیں طرف رکھا لشکر کے پیچھے پہاڑ میں ایک درہ ( تنگ راستہ) جس میں سے گزر کر کفار قریش مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے سے حملہ آور ہو سکتے تھے۔
اس لئے حضور اکرم  نے اس درہ کی حفاظت کے لئے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر فرما دیا اور حضرت عبدالله بن جبیر کو اس دستہ کا افسر بنا دیا اور یہ حکم دیا کہ دیکھو ہم چاہے مغلوب ہوں یا غالب۔ مگر تم لوگ اپنی اس جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس کسی کو نہ بھیجوں۔

مشرکین نے بھی نہایت با قاعدگی کے ساتھ اپنی صفوں کو درست کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لشکر کے میمنہ پر خالد بن ولید کو اور میسرہ پر عکرمہ بن ابو جہل کو افسر بنا دیا، سواروں کا دستہ صفوان بن امیہ کی کمان میں تھا۔ تیر اندازوں کا ایک دستہ الگ تھا۔ جن کا سردار عبدالله بن ربیعہ تھا اور پورے لشکر کا علمبردار طلحہ بن ابوطلحہ تھا جو قبیلہ بنی عبدالدار کا ایک آدمی تھا۔
حضور  نے جب دیکھا کہ پورے لشکر کفار کا علمبردار قبیلہ بنی عبدالدار کا ایک شخص ہے تو آپ نے بھی اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر کو عطاء فرمایا۔ جوقبیلہ بنو عبدالدار سے تعلق رکھتے تھے۔

سب سے پہلے کفار قریش کی عورتیں دف بجا بجا کر ایسے اشعار کاتی ہوئی آگے بڑھیں جن میں جنگ بدر کے مقتولین کا ماتم اور انتقام خون کا جوش بھرا ہوا تھا۔ لشکر کفار کے سپہ سالار ابوسفیان کی بیوی ”ہند“ آگے آگے اور کفار قریش کے معزز گھرانوں کی چودہ عورتیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں اور یہ سب آواز ملا کر اشعار گا رہی تھیں کہ :

مشرکین کی صفوں میں سب سے پہلے جو شخص جنگ کے لئے نکلا ” ابو عامر اوسی” تھا۔ جس کی عبادت اور پارسائی کی بنا پر مدینہ والے اس کو "راہب” کہا کرتے تھے مگر رسول الله نے اس کا نام فاسق رکھا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ شخص اپنے قبیلہ اوس کا سردار تھا اور مدینہ کا مقبول عام آدمی تھا۔ مگر جب رسول اکرم مدینہ میں تشریف لائے تو یہ شخص جذبہ حسد میں جل بھن کر خدا کے محبوب خدا کی مخالفت کرنے لگا اور مدینہ سے نکل کر مکہ چلا گیا اور کفار قریش کو آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ اس کو بڑا بھروسہ تھا کہ میری قوم جب مجھے دیکھے گی تو رسول الله کا ساتھ چھوڑ دے گی۔ چنانچہ اس نے میدان میں نکل کر پکارا کہ اے انصار! کیا تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں ابو عامر راہب ہوں۔

انصار نے چلا کر کہا ہاں۔ ہاں! اے فاسق! ہم تجھ کو خوب پہچانتے ہیں۔ خدا تجھے ذلیل فرمائے۔ ابو عامر اپنے لئے فاسق کا لفظ سن کر تلملا گیا۔ کہنے لگا کہ ہائے افسوس! میرے بعد میری قوم بالکل ہی بدل گئی۔ پھر کفار قریش کی ایک ٹولی جو اس کے ساتھ تھی مسلمانوں پر تیر برسانے لگی۔ اس کے جواب میں انصار نے بھی اس روز اتنی سنگ باری کی کہ ابو عامر اور اس کے ساتھی میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

لشکر کفار کا علمبر دار طلحہ بن ابی طلحہ صف سے نکل کر میدان میں آیا اور کہنے لگا کہ کیوں مسلمانو! تم میں کوئی ایسا ہے کہ وہ مجھ کو دوزخ میں پہنچا دے یا خود میرے ہاتھ سے وہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کا یہ گھمنڈ سے بھرا ہوا کلام سن کر سے حضرت علی شیر خدا  نے فرمایا کہ ہاں میں ہوں یہ کہہ کر فتح خیبر نے ذوالفقار کے ایک ہی وار سے اس کا سر پھاڑ دیا اور وہ زمین پر تڑپنے لگا اور شیر خدا منہ پھیر کر وہاں سے ہٹ گئے، لوگوں نے پوچھا کہ آپ  نے اس کا سر کیوں نہیں کاٹ لیا۔ شیر خدا نے فرمایا کہ جب وہ زمین پر گرا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی اور وہ مجھے قسم دینے لگا کہ مجھے معاف کر دیجئے اس بے حیا کو بے ستر دیکھ کر مجھے شرم دامن گیر ہو گئی اس لئے میں نے منہ پھیر لیا۔

حضرت حمزہ عثمان بن ابوطلحہ کے مقابلہ کے لئے تلوار لے کر نکلے اور اس کے شانے پر ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ تلوار ریڑھ کی ہڈی کو کاٹتی ہوئی کمر تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد عام جنگ شروع ہوگئی اور میدان جنگ میں کشت وخون کا بازار گرم ہو گیا۔

حضور اقدس کے دست مبارک میں ایک تلوار تھی جس پر یہ شعر کندہ تھا کہ

في   الجبن   عارُ   وَفِي   الْإِقْبَالِ   مَكْرُمَةُ
وَالْمَرْءُ   بِالْجُبْنِ   لَا   يَنْجُو   مِنَ   الْقَدرِ
”بزدلی میں شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے اور آدمی بزدلی کر کے تقدیر سے نہیں بچ سکتا“

حضور  نے فرمایا کہ "کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے ” یہ سن کر بہت سے لوگ اس سعادت کے لئے لپکے مگر یہ فخر و شرف حضرت ابو دجانہ  کے نصیب میں تھا کہ تاجدارِ دو عالم  نے اپنی یہ تلوار اپنے ہاتھ سے حضرت ابو دجانہ کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ یہ اعزاز پا کر جوش مسرت میں مست و بے خود ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول الله! اس تلوار کا حق کیا ہے؟

ارشاد فرمایا کہ :
"تو اس سے کافروں کو قتل کرے یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے”

حضرت ابو دجانہ نے عرض کیا کہ یا رسول الله! میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں پھر وہ اپنے سر پر ایک سرخ رنگ کا رومال باندھ کر اکڑتے اور اتراتے ہوئے میدان جنگ میں نکل پڑے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اور تلوار چلاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جارہے کہ ایک دم ان کے سامنے ابوسفیان کی بیوی "ہند” آگئی۔ حضرت ابو دجانہ نے ارادہ کیا کہ اس پر تلوار چلا دیں مگر پھر اس خیال سے تلوار ہٹالی کہ رسول الله کی مقدس تلوار کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی عورت کا سر کاٹے۔ حضرت ابو دجانہ کی طرح حضرت حمزہ اور حضرت علی بھی دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور کفار کا قتل عام شروع کر دیا۔

حضرت حمزہ انتہائی جوش جہاد میں دو دستی تلوار مارتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے اسی حالت میں ” سباغ غبشانی” سامنے آگیا۔ آپ  نے تڑپ کر فرمایا کہ اے عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کے بچے! ٹھہر ، کہاں جاتا ہے؟ تو الله و رسول سے جنگ کرنے چلا آیا ہے۔ یہ کہہ کر اس پر تلوار چلا دی اور وہ دوٹکڑے ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

وحشی” جو ایک حبشی غلام تھا اور اس کا آقا جبیر بن مطعم اس سے وعدہ کر چکا تھا تو اگر حضرت حمزہ کو قتل کر دے تو میں تجھے آزاد کر دوں گا۔ وحشی ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور حضرت حمزہ کی تاک میں تھا۔ جوں ہی آپ اس کے قریب پہنچے اس نے دور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا جو کہ آپ کی ناف میں لگا اور پشت کے پار ہو گیا۔ اس حال میں بھی حضرت حمزہ تلوار لے کر اس کی طرف بڑھے۔ مگر زخم کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور شہادت سے سرفراز ہو گئے۔

کفار کے علمبر دار خود کٹ کٹ کر گرتے چلے جارہے تھے مگر ان کا جھنڈا کرنا گرنے نہیں پاتا تھا۔ ایک کے قتل ہونے کے بعد دوسرا اس جھنڈے کو اٹھالیتا تھا۔ ان کافروں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ جب ایک کافر نے جس کا نام "صواب” تھا مشرکین کا جھنڈا اٹھایا تو ایک مسلمان نے اس کو اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے دونوں ہاتھ کٹ کر زمین پر گر پڑے مگر اس نے اپنے قومی جھنڈے کو زمین پر گرنے نہیں دیا بلکہ جھنڈے کو اپنے سینے سے دبائے ہوئے زمین پر گر پڑا۔ اسی حالت میں مسلمانوں نے اس کو قتل کر دیا مگر وہ قتل ہوتے ہوتے یہی کہتا رہا کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اس کے مرتے ہی ایک بہادر عورت جس کا نام "عمرہ” تھا اس نے جھپٹ کر قومی جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کر دیا۔ یہ منظر دیکھ کر قریش کو غیرت آئی اور ان کی بکھری ہوئی فوج سمٹ آئی ان کے اکھڑے ہوئے قدم پھر جم گئے۔

ابو عامر راہب کفار کی طرف سے لڑ رہا تھا مگر اس کے بیٹے حضرت خظلہ پرچم اسلام کے نیچے جہاد کر رہے تھے ۔ حضرت خظلہ  نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول الله! مجھے اجازت دیجئے میں اپنی تلوار سے اپنے باپ ابو عامر راہب کا سرکاٹ کر لاؤں مگر حضور رحمت للعالمین کی رحمت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کا سر کاٹے ۔ حضرت خظلہ اس قدر جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ سر ہتھیلی پر رکھ کر انتہائی جان بازی کے ساتھ لڑتے ہوئے قلب لشکر تک پہنچ گئے اور کفار کے سپہ سالار ابوسفیان پر حملہ کر دیا اور قریب تھا کہ حضرت خظلہ کی تلوار ابوسفیان کا فیصلہ کر دے کہ اچانک پیچھے سے شداد بن الاسود نے جھپٹ کر وار کو روکا اور حضرت خظلہ کو شہید کر دیا۔

حضرت خظلہ  کے بارے میں حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا کہ "فرشتے خطہ کو غسل دے رہے ہیں” جب ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ جنگِ اُحد کی رات میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوئے تھے۔ غسل کی حاجت تھی مگر دعوت جنگ کی آواز سن کر اسی حالت میں شریک جنگ ہو گئے۔ یہ سن کر حضور اقدس نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے جو فرشتوں نے اس کو غسل دیا۔ اسی واقعہ کی بناء پر حضرت خظلہ کو غسیل الملائکہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مجاہدین انصار اور مہاجرین بڑی دلیری اور جان بازی سے لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ مشرکین کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ حضرت علی و حضرت ابو دجانہ و حضرت سعد بن ابی وقاص وغیره کے مجاہدانہ حملوں نے مشرکین کی کمر توڑ دی۔ کفار کے تمام علمبر دارعثمان، ابوسعید، مسافع طلحہ بن ابی طلحہ وغیرہ ایک ایک کر کے کٹ کٹ کر زمین پر ڈھیر ہو گئے ۔

کفار کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگنے لگے اور ان کی عورتیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر لشکر کفار کو جوش دلا رہی تھیں، وہ بھی بدحواسی کے عالم میں اپنے ازار اٹھائے ہوئے برہنہ ساق بھاگتی ہوئی پہاڑوں پر دوڑتی ہوئی چلی جارہی تھیں اور مسلمان قتل و غارت میں مشغول تھے۔

کفار کی بھگدڑ اور مسلمانوں کے فاتحانہ قتل و غارت کا یہ منظر دیکھ کر وہ پچاس تیر انداز جو مسلمان درہ کی حفاظت پر مقرر کئے گئے تھے۔ وہ بھی آپس میں ایک دوسرے سے یہ کہنے لگے کہ غنیمت لوٹو غنیمت لوٹو، تمہاری فتح ہو گئی۔ ان لوگوں کے افسر حضرت عبدالله بن جبیر  نے ہر چند روکا اور حضور کا فرمان یاد دلایا اور فرمان مصطفوی کی مخالفت سے ڈرایا مگر ان تیر انداز مسلمانوں نے ایک نہیں سنی اور اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے لشکر کفار کا ایک افسر ” خالد بن ولید” (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) پہاڑ کی بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ درہ پہرہ داروں سے خالی ہو گیا ہے۔ فوراً اس نے درہ کے راستہ سے فوج لا کر مسلمانوں کے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ حضرت عبدالله بن جبیر  نے چند جان بازوں کے ساتھ انتہائی دلیرانہ مقابلہ کیا۔ مگر یہ سب کے سب شہید ہو گئے اب کیا تھا۔ کافروں کی فوج کے لئے راستہ صاف ہو گیا۔ خالد بن ولید نے زبردست حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر بھاگتی ہوئی کفار قریش کی فوج بھی پلٹ پڑی مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے۔  پیچھے پھر کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں اور کفار آگے پیچھے دونوں طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر رہے تھے اور مسلمانوں کا لشکر چکی کے دو پاٹوں میں دانہ کی طرح پسنے لگا اور مسلمانوں میں ایسی بدحواسی اور ابتری پھیل گئی کہ اپنے اور بیگانے کی تمیز نہیں رہی۔ خود مسلمان مسلمانوں کی تلواروں سے قتل ہوئے۔

چنانچہ حضرت حذیفہ کے والد حضرت یمان مسلمان کی تلوار سے ہی شہید ہوئے۔ حضرت حذیفہ چلاتے رہے کہ ” اے مسلمانو! یہ میرے باپ ہیں، یہ میرے باپ ہیں"۔ مگر کچھ عجیب بدحواسی پھیلی ہوئی تھی کہ کسی کو کسی کا دھیان ہی نہیں تھا اور مسلمانوں نے حضرت یمان کو شہید کر دیا۔

پھر بڑا غضب یہ ہوا کہ لشکر اسلام کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیر پر ابن قمیہ کافر جھپٹا اور ان کے دائیں ہاتھ پر اس زور سے تلوار چلا دی کہ ان کا دایاں ہاتھ کٹ کر گر پڑا۔ اس جان باز مہاجر نے جھپٹ کر اسلامی جھنڈے کو بائیں ہاتھ سے سنبھال لیا۔ مگر ابن قمیہ نے تلوار مار کر ان کے بائیں ہاتھ کو بھی شہید کر دیا۔ دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے۔ حضرت عمیر اپنے دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے کھڑے رہے اور بلند آواز سے یہ آیت پڑھتے رہے کہ :

وما محمد الأَرسُول قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ –

پھر ابن قمیہ نے ان کو نیزہ مار کر شہید کر دیا۔ حضرت مصعب بن عمیر جو صورت میں حضور اقدس سے کچھ مشابہ تھے ان کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھ کر کفار نے غل مچا دیا کہ (معاذ الله) حضور تاجدار دو عالم قتل ہو گئے۔ الله اکبر! اس آواز نے غضب ہی ڈھا دی۔ مسلمان یہ سن کر بالکل ہی سراسمیہ اور پراگندہ دماغ ہوگئے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں میں تین گروہ ہو گئے۔ کچھ لوگ تو بھاگ کر مدینہ کے قریب پہنچ گئے۔ کچھ لوگ سہم کر مردہ دل ہو گئے۔ جہاں تھے وہیں رہ گئے ۔ اپنی جان بچاتے رہے یا جنگ کرتے رہے۔ کچھ لوگ جن کی تعداد تقریبا بارہ تھی جو رسول الله کے ساتھ ثابت قدم رہے ۔

اس ہلچل اور بھگدڑ میں بہت سے لوگوں نے تو بالکل ہی ہمت ہار دی اور جو جان نثاری کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے وہ بھی دشمنوں کے دو طرفہ حملوں کے نرغے میں پھنس کر مجبور ولا چار ہو چکے تھے۔ تاجدار دو عالم کہاں میں اور کس حال میں ہیں؟ کسی کو اس کی خبر نہ تھی، حضرت علی شیر خدا  تلوار چلاتے اور دشمنوں کی صفوں کو درہم برہم کرتے چلے جاتے تھے۔ مگر وہ ہر طرف مڑ مڑ کر رسول اکرم کو دیکھتے تھے مگر جمال نبوت نظر نہ آنے سے وہ انتہائی اضطراب و بیقراری کے عالم میں تھے۔ حضرت انس کے چچا حضرت انس بن نضر لڑتے لڑتے میدان جنگ سے بھی کچھ آگے نکل پڑے وہاں جا کر دیکھا کہ کچھ مسلمانوں نے مایوس ہو کر ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔

حضرت انس بن نضر نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اب ہم لڑ کر کیا کریں گے؟ جن کے لئے لڑتے تھے وہ تو شہید ہو گئے۔ حضرت انس بن نضر  نے فرمایا کہ اگر واقعی رسول خدا شہید ہو چکے ہیں تو پھر ہم ان کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے؟ چلو ہم بھی اسی میدان میں شہید ہو کر حضور کے پاس پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ دشمنوں کے لشکر میں لڑتے ہوئے گھس گئے اور آخری دم تک انتہائی جوش جہاد اور جان بازی کے ساتھ جنگ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔

لڑائی ختم ہونے کے بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو اسی سے زیادہ تیر و تلوار اور نیزوں کے زخم ان کے بدن پر تھے۔ کافروں نے ان کے بدن کو چھلنی بنا دیا تھا اور ناک، کان وغیرہ کاٹ ڈالے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان کی انگلیوں کو دیکھ کر ان کو پہچانا تھا۔ جنگ جاری تھی اور جان نثاران اسلام جو جہاں تھے وہیں لڑائی میں مصروف تھے مگر سب کی نگاہیں انتہائی بیقراری کے ساتھ جمال نبوت کو تلاش کرتی تھیں۔

عین مایوسی کے عالم میں سب سے پہلے جس نے تاجدار دو عالم کا جمال دیکھا وہ حضرت کعب بن مالک کی خوش نصیب آنکھیں میں انہوں نے حضور اکرم کو پہچان کر مسلمانوں کو پکارا کہ اے مسلمانو! ادھر آؤ رسول خدا یہ ہیں اس آواز کو سن کر تمام جاں نثاروں میں جان پڑ گئی اور ہر طرف سے دوڑ دوڑ کر مسلمان آنے لگے کفار نے بھی ہر طرف سے حملہ روک کر رحمت عالم پر قاتلانہ حملہ کرنے کے لئے سارا زور لگا دیا۔ کفار کا لشکر ہجوم کے ساتھ امنڈ پڑا اور بار بار مدنی تاجدار  پر یلغار کرنے لگا مگر ذوالفقار کی بجلی سے یہ بادل دور ہو جاتا تھا۔

سراسیمگی اور پریشانی کے عالم میں جب کہ بکھرے ہوئے مسلمان ابھی رحمت عالم کے پاس جمع بھی نہیں ہوئے تھے کہ عبدالله بن قمیہ نے جو قریش کے بہادروں میں بہت ہی نامور تھا اس نے ناگہاں حضور اکرم کو دیکھ لیا۔ ایک دم بجلی کی طرح صفوں کو چیرتا ہوا آیا اور تاجدار دو عالم پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ ظالم نے پوری طاقت سے آپ کے چہرہ انور پر تلوار ماری جس سے خود کی دو کڑیاں رخ انور میں چبھ گئیں ۔ ایک دوسرے کافر نے آپ کے چہرہ اقدس پر ایسا پتھر مارا آپ کے دو دندان مبارک شہید اور نیچے کا مقدس ہونٹ زخمی ہو گیا۔

اسی حالت میں ابی بن خلف ملعون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کو شہید کر دینے کی نیت سے آگے بڑھا۔ حضور اقدس  نے اپنے ایک جاں نثار صحابی حارث بن صمہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لے کر ابی بن خلف کی گردن پر مارا۔ جس سے وہ تلملا گیا۔ گردن پر بہت معمولی زخم آیا اور وہ بھاگ لگا۔ مگر اپنے لشکر میں جا کر اپنی گردن کے زخم کے بارے میں لوگوں سے اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر کرنے لگا اور بے پناہ ناقابل برداشت درد کی شکایت کرنے لگا۔ اس پر اس کے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تو معمولی خراش ہے۔ تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ ایک مرتبہ مجھ سے محمد  نے کہا تھا کہ میں تم کو قتل کروں گا۔ اس لئے یہ تو بہر حال زخم ہے۔ میرا تو اعتقاد ہے کہ اگر وہ میرے اوپر تھوک دیتے تو بھی میں سمجھ لیتا کہ میری موت یقینی ہے۔

جب حضور اکرم زخمی ہو گئے تو چاروں طرف سے کفار نے آپ پر تیر و تلوار کا وار شروع کردیا اور کفار کا ہجوم آپ ہر چہار طرف سے حملہ کرنے لگا جس سے آپ کفار کے نرغہ میں محصور ہو گئے۔ یہ منظر دیکھ کر جان نثار صحابہ کا جوش جان نثاری سے خون کھولنے لگا اور وہ اپنا سر تھیلی پر رکھ کر آپ کو بچانے کے لئے اس جنگ کی آگ میں کود پڑے اور آپ سے پیار کے گرد ایک حلقہ بنا لیا۔ حضرت ابو دجانہ جھک کر آپ کے لئے ڈھال بن گئے اور چاروں طرف سے جو تلواریں برس رہی تھیں ان کو وہ اپنی پشت پر لیتے رہے اور آپ نے یوم تک کسی تلوار یا نیزے کی مارکو پہنچنے ہی نہیں دیتے تھے۔

حضرت طلحہ کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ وہ کفار کی تلواروں کے دار کو اپنے ہاتھ پر روکتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ کرشل ہو گیا اور ان کے بدن پر پینتیس یا انتالیس زخم لگے جاں نثار صحابہ نے حضور کی حفاظت میں اپنی جانوں کی پروا نہیں کی اور ایسی بہادری اور جاں بازی سے جنگ کرتے رہے کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت ابوطلحہ نشانہ بازی میں مشہور تھے انہوں نے اس موقع پر اس قدر تیر برسائے کہ کئی کمانیں ٹوٹ گئیں۔ انہوں نے حضور کو اپنی پیٹھ کے پیچھے بٹھا لیا تھا تا کہ دشمنوں کے تیر یا تلوار کا کوئی وار آپ پر نہ آسکے ۔ کبھی کبھی آپ دشمنوں کی فوج کو دیکھنے کے لئے گردن اٹھاتے تو حضرت طلحہ عرض کرتے کہ یارسول الله!

میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نےگردن نہ اٹھائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمنوں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے ۔ یارسول الله! آپ میری پیٹھ کے پیچھے ہی رہیں۔ میرا سینہ آپ کے لئے ڈھال بنا ہوا ہے۔

حضرت قتادہ بن نعمان انصاری حضور کے چہرہ انور کو بچانے کے لئے اپنا چہرہ دشمنوں کے سامنے کئے ہوئے تھے۔ ناگہاں کافروں کا ایک تیر ان کی آنکھ میں لگا اور آنکھ بہہ کر ان کے رخسار پر آگئی حضور نے اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھ کو اٹھا کر آنکھ کے حلقہ میں رکھ دیا اور یوں دعا فرمائی کہ یا الله! قتادہ کی آنکھ بچالے جس نے تیرے رسول کے چہرہ کو بچایا ہے۔ مشہور ہے کہ ان کی وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ روشن اور خوبصورت ہوگئی۔

حضرت سعد بن ابی وقاص بھی تیر اندازی میں انتہائی باکمال تھے۔ یہ بھی حضور کی مدافعت میں جلدی جلدی تیر چلا رہے تھے اور حضور انور خود اپنے دست مبارک سے تیر اٹھا کر ان کو دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے سعد! تیر برساتے جاؤ ۔ تم پر میرے ماں باپ قربان۔

ظالم کفار انتہائی بے دردی کے ساتھ حضور انور پر تیر برسا رہے تھے۔ مگر اس وقت بھی حضور اکرم سے کی زبان مبارک پر یہ دعا تھی: رَبِّ اغْفِرْ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

 ” اے الله! میری قوم کو بخش دے وہ مجھے جانتے نہیں ہیں ”

حضور اقدس دندان مبارک کے صدمہ اور چہرہ انور کے زخموں سے ند ھال ہو رہے تھے۔ اس حالت میں آپ ان گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں گر پڑے جو ابو عامر فاسق نے جابجا کھود کر ان کو چھپا دیا تھا تاکہ مسلمان لاعلمی میں ان گڑھوں کے اندر گر پڑیں۔ حضرت علی نے آپ کا دست مبارک پکڑا اور حضرت طلحہ بن عبد الله  نے آپ کو اٹھایا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح  نے خود (لوہے کی ٹوپی) کی کڑی کا ایک حلقہ جو چہرہ انور میں چبھ گیا تھا اپنے دانتوں سے پکڑ کر نکالا اور حضرت ابو سعید خدری کے والد حضرت مالک بن سنان نے جوش عقیدت سے آپ کا خون چوس چوس کر پی لیا اور اس کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیا۔

حضور نے فرمایا۔ کہ اے مالک بن سنان! کیا تو نے میرا خون پی ڈالا، عرض کیا کہ جی ہاں۔ یا رسول الله! ارشاد فرمایا کہ جس نے میرا خون پی لیا، جہنم کی کیا مجال جو اس کو چھو سکے۔ اس حالت میں رسول اپنے جاں نثاروں کے ساتھ پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گئے جہاں کفار کے لئے پہنچنا دشوار تھا۔ ابوسفیان نے دیکھ لیا اور فوج لے کر وہ بھی پہاڑ پر چڑھنے گا لیکن حضرت عمر اور دوسرے جاں نثار صحابہ  نے کافروں پر اس زور سے پتھر برسائے کہ ابوسفیان اس کی تاب نہ لاسکا اور پہاڑ سے اتر گیا۔

حضور اقدس اپنے چند صحابہ کے ساتھ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں کے تشریف فرما تھے اور چہرہ انور سے خون بہہ رہا تھا۔ حضرت علی اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا  اپنے ہاتھوں سے خون دھو رہی تھیں، مگر خون بند نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم پر رکھ دی تو خون فورا ہی تھم گیا۔

ابوسفیان جنگ کے میدان سے واپس جانے لگا تو ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور زور زور سے پکارا کیا یہاں محمد ہیں؟ حضور  نے فرمایا کہ تم لوگ اس کا جواب نہ دو، پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں ابوبکر ہیں، حضور  نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں عمر ہیں؟ جب اس کا بھی کوئی جواب نہ ملا تو ابوسفیان گھمنڈ سے کہنے لگا کہ یہ سارے مر گئے، کیونکہ اگر زندہ ہوتے تو ضرور میرا جواب دیتے۔ یہ سن کر حضرت عمر سے ضبط نہ ہو سکا اور آپ نے چلا کر کہا کہ اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے ۔ ہم سب زندہ ہیں۔

ابو سفیان نے اپنی فتح کے گھمنڈ میں یہ نعرہ مارا کہ "اعل ھبل” یعنی اے ہبل! تو سر بلند ہو جا۔ اے ہبل تو سر بلند ہو جا۔ حضور  نے صحابہ سے فرمایا کہ تم لوگ بھی اس کے جواب میں نعرہ لگاؤ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ہم کیا کہیں؟ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ یہ نعرہ مارو کہ الله اعلى وَاجَلَ یعنی الله سب سے بڑھ کر بلند مرتبہ اور بڑا ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ لَنَا العُزَّى وَلَا عُزّى لَكُمْ یعنی ہمارے لئے عزی (بت) ہے اور تمہارے لئے کوئی عزی نہیں ہے حضور  نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے جواب میں یہ کہو کہ اللهُ مَوْلانَا وَلا مَوْلى لَكُمْ یعنی الله ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیں ۔

ابوسفیان نے با آواز بلند بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ اور جواب ہے لڑائی میں کبھی فتح کبھی شکست ہوتی ہے۔ اے مسلمانو! آج ہماری فوج نے تمہارے مقتولوں کے کان، ناک کاٹ کر ان کی صورتیں بگاڑ دی ہیں، مگر میں نے نہ تو اس کا حکم دیا تھا، نہ مجھے اس پر کوئی رنج و افسوس ہوا ہے۔ یہ کہہ کر ابوسفیان میدان سے ہٹ گیا اور چل دیا۔

کفار قریش کی عورتوں نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لئے جوش میں شہداء کرام کی لاشوں پر جا کر ان کے کان، ناک وغیرہ کاٹ کر صورتیں بگاڑ دیں اور ابو سفیان کی بیوی ہند نے تو اس بیدردی کا مظاہرہ کیا کہ ان اعضاء کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا۔ ہند حضرت حمزہ کی مقدس لاش کو تلاش کر رہی تھی کیونکہ حضرت حمزہ  نے جنگ بدر کے دن ہند کے باپ عتبہ کو قتل کیا تھا۔ جب اس بیدرد نے حضرت حمزہ کی لاش کو پالیا تو خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ کر کلیجہ نکالا اور اس کو چیا گئی لیکن حلق سے نہ اتر سکا۔ اس لئے اگل دیا، تاریخوں میں ہند کا لقب جو جگر خوار ہے وہ اسی واقعہ کی بنا پر ہے۔

ہند اور اس کے شوہر ابوسفیان نے رمضان ۸ پنجری میں فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔

حضرت زید بن ثابت کا بیان ہے کہ میں حضور  کے حکم سے حضرت سعد بن الربیع کی لاش کی تلاش میں نکلا ، تو میں نے ان کو سکرات کے عالم میں پایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم رسول الله سے میرا سلام عرض کر دینا اور اپنی قوم سے بعد سلام میرا یہ پیغام سنا دینا کہ جب تک تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ ہے اگر رسول الله تک کفار پہنچ گئے تو خدا کے دربار میں تمہارا کوئی عذر قابل قبول نہ ہو گا۔ یہ کہا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔

اس جنگ میں ستر صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں چار مہاجر اور چھیاسٹھ انصار تھے۔ تیس کی تعداد میں کفار بھی نہایت ذلت کے ساتھ قتل ہوئے ۔ مگر مسلمانوں کی مفلسی کا یہ عالم تھا کہ ان شہداء کرام کے کفن کے لئے کپڑا بھی نہیں تھا حضرت مصعب بن عمیر کا یہ حال تھا کہ بوقت شہادت ان کے بدن پر صرف ایک اتنی بڑی کملی تھی کہ ان کی لاش کو قبر میں لٹانے کے بعد اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور اگر پاؤں چھپائے جاتے تو سرکھل جاتا تھا بالآخر سر چھپا دیا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی ، شہداء کرام خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ دو دو شہید ایک ایک قبر میں دفن کئے گئے۔

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button