نعتیں
یادِ شفیعِ مُذنبین ہے
یادِ شفیعِ مُذنبین ہے
اس دل میں اور کچھ نہیں ہے
کس کا رقیب دل بنا جو
محبوبِ ربّ العالمین ہے
خورشید و ماہتاب و انجم
لیکن تم ایسا اب نہیں ہے
صدیوں کے فاصلے ہیں پھر بھی
سایہ ہے دُور ، وہ قریب ہے
بعثت میں آخرالزّماں وہ
خلقت میں نورِ اوّلیں ہے
وہ آسماں ہیں معرفت کے
بندہ فقط، زمیں زمیں ہے
جب سے ملی ہے ان کی نسبت
دنیا اپنی حَسیں حَسیں ہے
یہ سوز، یہ گداز، یہ نم
سب میں کہاں، کہیں کہیں ہے
نازاں ہیں اہلِ عرش اس پر
کہنے کو یہ زمیں، زمیں ہے
نقشِ قدم جہاں جہاں ہیں
میری جبیں وہیں وہیں ہے
سیکھو انداز التجا کے
ان کے یہاں کمی نہیں ہے
عصیاں مرے بہت ہیں ، لیکن
وہ رحمۃ اللّعالمیں ہے
دشمن بھی کہہ ر ہے ہیں جس کو
صادق ہے وہ ، وہی امیں ہے
مٹھی میں جسکی سب کے دل ہیں
دل میں ادیب کے مکیں ہے