وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے سَاماں عرب کے مہماں کے لئے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
اُتار کے اُن کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہاتھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک ہرا ہے وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے
بچا جو تلو وں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنھوں نے دولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
اُٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی نہ کہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چَکر میں دائرے تھے
حجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ دصل و فرقت جنم کہ بچھڑے گلے ملے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اس کی طرف گئے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطوں تم اّول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
نبیِ رحمت شفیعِ اُمت رضؔا پہ للہ ہو عنائت
اُسے بھی ان خلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سَرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیے تھے