تاریخ اسلامغزوات

غزوہ خیبر (محرم الحرام سے ہجری)

Ghazwa e Khaybar | Ghazwa e Khaybar | The Conquest of Khyber | Battle of Khaybar

خیبرایک بڑے شہر کا نام ہے جس میں متعدد قلعے اوربکثرت کھیتیاں ہیں۔ یہ مدینہ منورہ سے آٹھ برید کے فاصلہ پر شام کی جانب ہے ۔ قاموس میں ہے کہ خیبر مشہور قلعہ کا نام ہے ۔ اس غزوہ کا وقوع ہجرت کے ساتویں سال میں ہوا ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ سات ہجری ماہ محرم کے آخری دنوں میں تشریف لے گئے اور دس یا بارہ روز تک ان کا محاصرہ فرمایا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فتح کرا دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آخرسن چھ ہجری میں ہے ۔ یہ امام مالک سے منقول ہے اور اسی پر ابن حزم نے جزم کیا ہے چنانچہ حضور اکرم مدینہ طیبہ سے ایک ہزار چار سو صحابہ کرام  کے ساتھ تشریف لے گئے مواہب میں ایک ہزار ایک سو پیدل اور دو سو سوار مروی ہے۔

اس غزوہ کے وقوع کا سبب یہ تھا کہ جب حق تعالیٰ نے حدیبیہ سے واپسی کے وقت سورۃ ” انا فتحنا ” نازل فرمائی اور بشارت دی اور اپنے نبی سے وقوع فتح اور غنایم کا وعدہ فرمایا اور حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:۔

وَعَدَكُمُ اللهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةَ تَأْخُذُ وَنَهَا فَجَعَلَ لَكُمْ هذه
” اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا جنہیں تم حاصل کرو گے تو ان غنایم کو تمہارے لئے مقرر کر دیا ”

تو حضور اکرم نے اس وعدہ غنایم کو فتح خیبر پر محمول فرمایا۔ اگر چہ حضورکی عادت شریفہ تویہ تھی اور اشارہ میں بات فرمایا کرتے تھے لیکن اس جگہ حضور نے صحابہ کو صاف صاف بتا دیا۔ اور فرمایا:

” لشکر کی تیاری کرو کیوں کہ ہم غزوہ خیبر کی طرف جانے والے ہیں۔”

مدینہ منورہ میں سباع بن عرفطہ غفاری کو خلیفہ بنا کر چھوڑ دیا اور سیدہ ام سلمہ کو ہمراہ لیا اور دیگر بیس مسلمان عورتوں کو بھی تیمارداری اور مرہم پٹی اور دیگر خدمات کے لئے ساتھ لے لیا۔ اور لشکر کے مقدمہ پر عکاشہ بن محصن اسدی کو اور میمنہ پر حضرت عمر بن الخطاب کو اور میسرہ وغیرہ پر دیگر صحابہ کو مقرر فرمایا لشکر اسلام میں دو سو گھوڑے سوار تھے ۔ اور تین گھوڑے تو خاص رسول اللہ کے تھے اور کثرت سے اونٹ تھے حضور  نے حکم دیا اس سفر میں کوئی شخص اس غرض سے ہمارے ساتھ شامل نہ ہو جسے دنیاوی مال کی شمع ہو۔

ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن سلول منافق نے ہمراہ جانے کی حضور سے اجازت مانگی حضور نے اس کے جواب میں یہ بات فرمائی اس منافق نے یہود کو خبر بھیجی کہ ” محمد تمہارے استیصال کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خبردار اپنے قلعوں میں داخل نہ ہونا باہر نکل کر ان کے ساتھ جنگ کی تیاری کرو ۔ کیوں کہ سامان جنگ تمہارے پاس بہت زیادہ ہے ۔ اور تمہارے “ خدام خذلهم الله “ بہت کثرت سے ہیں ۔

حضور اکرم کا منافقوں کو اس غزوہ میں شریک ہونے سے منع فرمانے کا سبب یہ تھا چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں سے کثیر مغانم کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس پر صراط مستقیم کی ہدایت مترتب ہوتی تھی اس بنا پر اس غزوے کو منافقوں کی ناپاکی سے پاک رکھا اور نہ چاہا کہ ان مغانم میں مخلص مسلمانوں کے ساتھ منافقین بھی شریک ہوں ۔ (واللہ اعلم)

اس غروے کا مکمل قصہ، جزئی اور کلی واقعات کے ساتھ کتب سیر میں مذکور ہے۔ ہماری روش چونکہ اختصار کی ہے اس لئے ہم ان بڑے بڑےکلی واقعات کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں جن میں فوائد عظیمہ مذکور ہیں ۔ (وباللہ التوفیق)

جاننا چاہئے کہ صحیح بخاری میں سلمہ بن الاکوع کی حدیث مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ خیر کے لئے نکلے ہم قطع مسافت کر رہے تھے کہ ایک رات ہم میں سے عامر بن سنان بن الاکوع کہا گیا تم ہمیں اپنے ان اشعار و رجز میں سے کچھ سناتے نہیں جو تمہیں یاد ہیں؟ چونکہ عامر شاعر اور حدی خواں شخص تھا اور بلند آواز سے خوب پڑھا کرتا تھا۔ اور اہل عرب کی عادت تھی کہ جب ان پر راہ کی تھکن لاحق ہوتی اور چلنے سے مجبور ہو جاتے تو حدی پڑھتے یہاں تک کہ اونٹ مست ہو کر تیزی کے ساتھ مسافت طے کر لیتے اس پر عامر اونٹ سے نیچے اتر آئے اور حدی پڑھنے لگے اور عبد اللہ بن رواحہ کے وہ اشعار جن کے شروع میں یہ ہے کہ:

اللّهُمَّ لَوْلا انت ما أهتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّ قُنَا وَلاَ صَلَّيْنَا .
خوش آوازی اور عمدہ لحن و نغمہ کے ساتھ پڑھا۔ اس کے بعد صحابہ کرام کا وقت ان کی خوش آوازی کے ساتھ نغمہ پڑھنے سے اچھا گزر گیا اور ان پر ایک رقت سی طاری ہوگئی اور ان کے اونٹ بھی مست ہو کر تیزی سے سفر طے کرنے لگے۔

اس پر حضور نے بیوی نے فرمایا: یہ کون ہے؟ ” جو اونٹوں کو چلاتا اور حدی گاتا ہے "

صحابہ بی ایم نے عرض کیا عامر یا اللہ بن الاکوع ہیں۔ فرمایا: ” يرحمه الله ”
ایک روایت میں ہے فرمایا: غفر لك ربك

اس پر لشکر اسلام میں سے کسی نے عرض کیا ۔ ایک روایت میں ہے کہ عمربن الخطاب نے عرض کیا:

” یارسول اللہ! ان کے لئے شہادت واجب ہو گئی اور یا رسول اللہ! کس لئے انہیں کچھ عرصہ اور رہنے نہ دیا جائے کہ ہم ان سے بہرہ مند ہوتے اور وہ ہمارے ساتھ کچھ عرصہ اور حیات رہتے؟ “

چونکہ حضور اکرم کا قاعدہ مبارکہ یہ تھا کہ جس کے لئے حضور ایسی دعا فرماتے وہ شرف شہادت سے مشرف ہو جاتا۔

مواہب لدنیہ میں مقید کر کے لکھا ہے کہ اس غزوہ اور جہاد میں حضور اکرم نے جس کے لئے بھی ایسی دعا فرمائی بالآخر وہ شہید ہو گیا۔

روضتہ الاحباب میں کسی سیر کی کتاب سے منقول ہے کہ جب عامرپڑھنے سے خاموش ہوئے تو حضور نے عبد اللہ بن رواحہ سے فرمایا ” کیا تم ہمارے لئے حدی نہیں کہو گے اور اونٹوں کی رفتار میں تیزی نہیں لاؤ گے ؟ ” اس پر انہوں نے بھی حدی پڑھی اور وہی اشعار پڑھے جو عامر  نے پڑھے اور اخیر کا ایک شعر اس میں زیادہ کیا ۔ حضور سے تم نے فرمایا "رحمه الله “ چنانچہ غزوہ موتہ میں انہوں نے بھی شہادت پائی سبحان اللہ ۔ عجب دربار مہر بار ہے کہ اس دربار کی خدمت کا اجر و ثواب ، ایسی رحمت کا حصول ہے کہ جان دیں اور شہید ہو جائیں ۔ درحقیقت لطف و رحمت یہی ہے کہ اس جہان کی تنگ دامانی سے چھٹکارا پائے ؎

اتفاقاً     بسر   کوئے   کسی   افتاده  است
کہ دراں کوئے چمن کشتہ بے افتاده است

اس مقام میں بجز جان قربان کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہے ۔

خیبر والوں کو جب حضور اکرم کی عزیمت کی اطلاع ملی تو انہوں نے کنانہ بن ابی الحقیق کو اپنے حلیف و ہم سوگند غطفانیوں کے پاس بھیجا اور ان سے مدد مانگی ۔ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے خیبر والوں کی بات کو درخور اعتناء نہ جانا ، ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے چار ہزار جنگی ، مرد نکلے پہلی منزل میں آسمان سے ایک آواز سنی کہ جن کو تم اپنے گھروں پر چھوڑ کے آتے ہو ان پر تباہی آگئی ۔ اس پر وہ اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے ۔ نیز مروی ہے کہ غطفانیوں نے اپنے عقب سے حس و حرکت کی آواز سنی اور انہوں نے گمان کیا کہ مسلمان تاخت و تاراج اور تباہ کرنے کے لئے آگئے ہیں ۔ اس پر وہ واپس چلے گئے۔ یہ بھی حضور اکرم کے معجزات میں سے تھا۔ اس کے باوجود ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ دس ہزار سوار خیبریوں کے لشکر میں تھے  وہ تمام ذلیل وخوار ہوئے ۔

اہلِ سیر بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم مٹے ہیں کہ جب قلعہ خیبر کے درمیان تشریف لائے اور چشم مباک ان بستیوں پر ڈالی تو دعا پڑھی:

اللّهُمَّ رَبِّ السَّمَوتِ السَّبْعِ وَ مَا أَظْلَلْنَ وَ رَبِّ الْأَرْضِينَ السَّبْعِ وَمَا اقْلَلْنَ وَرَبِّ الشَّيطِيْنِ وَ مَا أَضْلَلْنَ وَرَبِّ الرِّيَاحَ وَمَا وَزِيْنَ أَسْئَلُكَ خَيْرَ هذِهِ الْقَرْيَةَ وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِهَا شَرِّ مَا فِيهَا .

اور صحابہ کرام  نے بھی یہ دعا پڑھی۔ اس دعا کا پڑھنا جس وقت کہ کسی شہر یا گاؤں کو دیکھے یا ان میں داخل ہو تو ماثور و منقول ہے اور فرمایا: اُدْخُلُوا عَلَى بَرَكَتِ اللهِ –

اس کے بعد حضور اس مقام پر پہنچے جسے ” منزلہ” کہتے ہیں پھرحضور  نے اس منزل میں اقامت فرمائی۔ اور ایک جگہ نماز کے لئے متعین فرمائی۔ اس جگہ نماز تہجد ادا فرمائی اور فجر کی نماز بہت تڑ کے پڑھی اور متوجہ ہو گئے چونکہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ علی الصباح آپ پیش قدمی فرماتےتھے۔

قادر مطلق نے اس رات خیبر والوں پر خواب غفلت مسلط کر دی گو وہ پہلے سے باخبر تھے کہ حضور تشریف لا رہے ہیں مگر اس وقت حضور کی آمد کی انہیں خبر نہ ہوئی ۔ حالانکہ انہوں نے جب سے یہ سنا تھا کہ حضور خیر کی طرف آ رہے ہیں تو وہ ان بستیوں کی حفاظت کرتے اور ہر رات چند سوار دیکھ بھال کرتے اور جستجو میں رہتے۔ لیکن اس رات وہ سب غفلت کے مارے سوتے رہ گئے ۔ یہاں تک کہ ان کے مرغوں نے بھی بانگ نہ دی اور ان کے چوپائے حرکت و تیر جنبش کرنے سے رکے رہے۔ جب آفتاب طلوع ہوا تو بیدار ہوئے اور اپنے بیلچے اور کدال لیکر نکلے کہ کھیتوں میں جائیں ۔ اچانک لشکر اسلام دور سے ان کی نظر میں آیا سب نے بھاگنے کی راہ لی، اور کہنے لگے۔ واللہ محمد والخمیسں خدا کی قسم یہ حمد اور خمیسں ہیں یعنی لشکر کی پانچ ٹولیوں کے ساتھ آگئے ہیں ۔ ” خمیسں ” بہت بڑے لشکر کو کہتے ہیں۔

جس کو پانچ حصوں پر تقسیم کیا گیا ہو۔ یعنی

  1. مقدمه
  2. میمنہ
  3. میسرہ (جن کو جناحین یعنی دو بازو بھی کہتے ہیں)
  4. قلب
  5. ساقه

جب حضور نے یہ حال مشاہدہ فرمایا تو تکبیر بلند فرمائی اور کہا:

اللهُ أَكْبَرُ خَرِبَتُ خَيْبَرُ – إِنَّا اَنْزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ –

صحیح بخاری میں ہے حضور خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو مسلمانوں نے بلند آواز سے تکبیر کہی اور کہا: الله اكبر الله اكبر لا إله إلا الله

اس پر رسول اللہ  نے فرمایا :

” اے لوگو! اپنے نفسوں پر رفق و نرمی کرو ۔ تم کسی غائب کو نہیں پکار رہے ہو جس کو پکار رہے ہو وہ تم سے نزدیک ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے “

ابو موسیٰ اشعری جو اس حدیث کے راوی ہیں فرماتے ہیں کہ میں حضور کی سواری کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ حضور  نے سنا کہ میں : ” لاَ حَوْلَ وَلاَقوة الا بالله “ پڑھ رہا ہوں۔

حضور  نے فرمایا ” اے عبد اللہ بن قیس بین! میں نے عرض کیا : لبیک یا رسول اللہ! فرمایا:

” میں تمہیں ایسا کلمہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ ” میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ضرور رہنمائی فرمائیے! فرمایا وہ کلمہ “ لا حَوْلَ وَلا قُوةُ الأَ بِاللهِ “ ہے ۔

چونکہ ازل سے ارادہ الہی اسی پر تھا کہ یہ فضل خاص فتح خیبر ، حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ مزید خصوصیت شامل ہو چونکہ قلعہ قموص خیبر کے تمام قلعوں سے زیادہ سخت اور مستحکم تھا اس لئے اس کو آپ کے ہاتھ پر فتح کرایا اور اسے خیبر کے تمام قلعوں اور ان کے شہروں کا مقدمہ اور اساس بنایا۔ اگر چہ میں سے کچھ قلعے مثلاً نطاۃ اور صعب وغیرہ اس سے پہلے فتح ہو چکے تھے لیکن فتح خیبر جناب مرتضوی سے منسوب ہے ۔

ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ ایک رات حضور اکرم  نے فرمایا :

لأُعْطِينَ الرَّأَيته غَدًا رَّجُلُ يُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ يَفْتَحُ اللَّهِ عَلَيْهِ –
کل میں اس شخص کو علم دوں گا یا یہ فرمایا کہ:

” کل وہ شخص جھنڈا لے گا جس کو اللہ اور اس کا رسول پسند فرماتا ہے اور اللہ اس پر فتح فرمائے گا ”

ایک روایت میں آیا ہے کہ :
” یعنی وہ مرد بار بار پلٹ پلٹ کر دشمن پر حملہ کرے گا اور پیچھے نہ ہٹے گا ”

روضتہ الاحباب میں ان کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ وہ شخص بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے جب حضور اکرم  نے یہ خبر بشارت اور یہ مژدہ سعادت ثمر دیا تو تمام صحابہ راہ میں دیدہ امید اور چشم انتظار لئے قبول درگاہ پر بیٹھ گئے تا کہ یہ دولت نصیب میں آئے اور اس فضیلت کے ساتھ مخصوص ہوں حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں حضور کی چشم بیں کے سامنے گیا اور سلام عرض کر کے دوزانو ہو کے بیٹھ گیا اور پھر اس امید کے ساتھ اٹھا کہ میں اس فضیلت کا مستحق بنوں۔

حضرت عمر سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے بجز اس کےکسی امارت کو کبھی پسند نہیں کیا اور نہ کبھی خواہش کی۔ ایک روایت میں ہے کہ قریش کی جماعت ایک دوسرے سے کہتی تھی یہ تو طے سمجھو کہ علی ابن ابی طالب تو اس مراد سے فائز نہ ہوں گے کیوں کہ ان کی آنکھ اس شدت سے درد کرتی ہے کہ وہ اپنے پاؤں تک نہیں دیکھ سکتے ہیں۔

منقول ہے کہ جب امیر المومنین علی المرتضی نے حضور سے ایسی بشارت کو فرماتے سنا تو ان کی خواہش میں لگن پیدا ہوئی اور دل چشم توکل میں اور امید بر فضل غدار کھ کر دعا مانگی:

اللّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لَمَا مَنَعْتَ

” اے خدا جب تو دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں اور جب تو باز رکھے تو کوئی دینے والا نہیں "

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ درد چشم کی بنا پر غیر کے سفر سے تخلف کر کے مدینہ طیبہ میں ہی رہ گئے تھے انہیں سخت ترین آشوب چشم تھا اور وہ اپنے سے کہا کرتے میں نے رسول اللہ سے جدا ہو کر مشغلہ جہاد سے دور رہ کر اچھا نہیں کیا ہے سفر کی تیاری کر کے مدینہ طیبہ سے چلد ئیے۔ اثناء راہ میں یا غیر پہنچنے کے بعد حضور کو ان کی آمد کی اطلاع ملی ، جب دن ہوا تو حضور  نے فرمایا علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے ہر طرف سے عرض کیا وہ یہیں ہیں لیکن ان کی آنکھ اتنی درد کرتی ہے کہ وہ اپنے پاؤں تک کو نہیں دیکھ سکتے ” فرمایا “ ان کو میرے پاس لاؤ سلمہ بن الاکوع گئے اور ان کو ہاتھ سے پکڑ کر حضور  کے سامنے لائے اس کے بعد حضور  نے ان کے سر کو اپنی مبارک ران پر رکھا اور اپنا لعاب دہن مبارک ان کی چشم مبارک میں لگایا اور دعا مانگی اس وقت ان کی آنکھ سے درد جاتا رہا۔ اور انہیں شفائے کامل حاصل ہو گئی اس کے بعد انہیں کبھی درد چشم اور درد سر لاحق نہ ہوا۔

ایک روایت میں ہے کہ حضور  نے یہ دعا بھی پڑھی: اَللّهُمَّ اذْهَبْ عَنهُ الحَرّوَالْقَرّا.
اے خدا ان سے گرمی و سردی دونوں کو دور رکھ۔

چونکہ اکثر ابن آدم کا اسی سے سابقہ پڑتا ہے ۔ خصوصاً جنگ کے معرکوں میں اور ان دنوں خیبر کی ہوا بہت گرم تھی مگر حضور  نے دعا میں سردی سے دور رہنے کو بھی شامل فرما دیا۔ ابن ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت علی مرتضی سخت گرمی میں روئی کا لباس پہنتے اور سخت سردی میں باریک کپڑے کا لباس پہنتے تو انہیں کوئی نقصان و ضرر نہ پہنچتا تھا۔ جب حضرت علی مرتضی  نے اس بیماری سے نجات پالی تو حضور  نے انہیں اپنی خاص زرہ پہنائی اور ذوالفقار ان کی میان میں باندھی ، فرمایا جاؤ التفات نہ کرنا جب تک کہ حق تعالی تمہارے ہاتھ پر قلعہ فتح نہ فرمادے

عرض کیا : "یا رسول اللہ! کہاں تک میں ان سے قتال کروں؟ "

حضور  نے فرمایا:
” اس وقت تک قتال کرو جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دیں جب وہ اس کی گواہی دیں گے تو وہ اپنے خونوں اور مالوں کو بچالیں گے مگر اس کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب خدا پر ہے "

ایک روایت میں یہ ہے کہ جب علی مرتضی علم لے کر راہ میں آئے تو انہوں نے حضور سے عرض کیا میں اس وقت تک ان سے جنگ کرتا رہوں گا۔ جب تک کہ وہ ہماری مانند نہ ہو جائیں یعنی مسلمان نہ ہو جائیں۔

حضور  نے فرمایا:
عجلت نہ کرو اور جاؤ جب میدان کارزار میں پہنچو تو پہلے ان کو دعوت اسلام پیش کرو اور حق تعالیٰ کے وہ حقوق جو اس نے اپنے بندوں پر واجب کئے ہیں۔ یاد دلاؤ خدا کی قسم اگر تمہارے سبب سے حق تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم ہزار سرخ اونٹ خدا کی راہ میں صدقہ کرو مطلب یہ ہے کہ ہدایت کرنا موجب ثواب آخرت ہے اور اس دنیاوی متاع سے افضل و بہتر ہے جو راہ خدا میں خرچ کیا جائے راہ حق بتانا افضل ترین اعمال ہے ۔ اور صدقہ کرنا ایسی عبادت ہے جو اس کی مانند مقدس یعنی فدیہ و کفارہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں واقع ہوا ہے کہ ذکر کرنا ، سونے چاندی کو راہ خدا میں خرچ کرنے سے افضل ہے۔

اس کے بعد حضرت علی مرتضی علم لے کر روانہ ہوئے اور قلعہ عموص کے نیچے آگئے ۔ انہوں نے علم کو سنگریزوں کے ایک ٹیلے پر جو قریب تھا نصب کیا۔ احبار یہود میں سے ایک نے جو قلعہ کے اوپر کھڑا تھا پوچھا کہ ” اے صاحب علم تم کون ہو؟ اور تمہارا نام کیا ہے؟ " فرمایامیں علی ابن ابی طالب ہوں اس کے بعد اس یہودی نے اپنی قوم سے کہا، قسم ہے توریت کی، تم اس شخص سے مغلوب ہو گے۔ یہ فتح کئے بغیر نہ لوٹے گا ظاہر مفہوم یہ ہے کہ وہ حضرت علی مرتضیٰ کی صفات اور ان کی شجاعت کو جانتا تھا کیوں کہ توریت میں اس نے آپ کا وصف پڑھا تھا اور حضور کے صحابہ کرام کے اوصاف سابقہ کتابوں میں لکھے ہوئے تھے چنانچہ سب سے پہلے جو قلعہ سے باہر نکلا وہ حارث یہودی تھا جو مرحب کا بھائی تھا اور اس کا نیزہ تین من کا تھا۔ اس نے نکلتے ہی جنگ شروع کر دی اور اس نے کئی مسلمانوں کو شہید کردیا اس کے بعد علی مرتضی اس کے سر پر پہنچ گئے اور ایک ہی وار سے اسے دوزخ میں پہنچا دیا۔ مرحب کو جب بھائی کے مارے جانے کی خبر ملی تو وہ خیبر کے بہادروں کی جماعت کے ساتھ اسلحہ سے لیس ہو کر انتقام لینے کے لئے باہر نکلا۔

کہتے ہیں کہ مرحب خیبر والوں میں بڑا بہادر، بلند قد و قامت والا بڑا جنگجو شخص تھا اور خیبر کے بہادروں اور شجاعوں میں اس کی برابری کا کوئی دوسرا شخص نہ تھا۔ اس روز وہ دو زرہ پہن کر، دو تلواریں حمائل کر کے دو عمامے باندھ کر اور اس کے اوپر خود رکھ کر یہ رجز کہتا ہوا معرکہ کار زار میں آیا۔

قَد عَلِمْتُ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَب
شاكي السلاح بطل ، تُحرَّب

کسی مسلمان کو ہمت نہ ہوئی کہ اس کے مقابل آتا اور میدان قتال میں اترتا۔ چنانچہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بھی یہ رجز پڑھتے ہوئے آئے ۔
ترجمہ : ” میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا۔ ضرغام ہوں اجام ہوں اور حملہ آور لیث ہوں۔“

ضر غام اجام اور لیث تینوں شیر کے مترادف المعنی الفاظ ہیں ۔ معرکہ کارزار میں رجز پڑھنا عرب کے شجاعوں بہادروں کی عادت ہے اور اس مقام میں اپنی تعریف کرنا جائز ہے تاکہ مخالف کے دل میں رعب و ہیبت بیٹھے اور شوکت و دبدبہ ظاہر ہو ۔ مرحب نے پیش دستی کر کے چاہا کہ حضرت علی المرتضی کے سر پر تیغ کا وار کرے مگر حضرت علی المرتضی نے سبقت کر کے اچھل کر ضرب ذوالفقار اس ملعون غدار کے سر پر ایسی رسید کی کہ خود کو کاٹتی زنجیروں کو چاٹتی حلق تک آگئی ۔ اور

ایک روایت میں ہے اس کی رانوں تک پہنچی اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے زین کے قابو ستک پہنچی اور اس کے دو ٹکڑے ہو گئے اس کے بعد اہل اسلام بامداد حضرت علی میدان میں اتر آئے ۔ اور یہودیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور یہود کے شجاعوں میں سے سات کو جہنم رسید کر دیا ان کے باقی ساتھی ہزیمت اٹھا کر قلعہ میں داخل ہونے لگے حضرت علی المرتضی ہی میں بھی ان کے تعاقب میں بڑھتے گئے اسی حالت میں ایک یہودی نے آپ کے دست اقدس پر ایک وار کیا اور آپ کی ڈھال زمین پر گر پڑی دوسرا یہودی اس ڈھال کو اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا حضرت علی کو جوش آیا اس حالت میں قوت ربانی کی طرف سے ایسی روحانی قوت وارد ہوئی کہ آپ خندق کو پھاند کر قلعہ کے دروازہ پر پہنچ گئے اور قلعہ کے آہنی دروازہ کا ایک پٹ اکھاڑ ڈالا اور اس کی ڈھال بنا کر جنگ میں مشغول ہو گئے۔

ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ جنگ سے فارغ ہونے کے بعد دو ” وجب ” کے فاصلہ پر آپ نے اس دروازہ کو پس پشت دور پھینکا۔ اور کہتے ہیں کہ بعد میں سات قوی و تنومند آدمیوں نے مل کر اس در کو ایک پہلو سے دوسرے پہلو اور پلٹنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ اور چالیس آدمیوں نے مل کر چاہا کہ اسے اٹھا لیں مگر عاجز رہ گئے روضتہ الاحباب، معارج النبوۃ اور سیر کی دیگر کتابوں میں ایسا ہی منقول ہے معارج النبوۃ میں منقول ہے کہ اس در کاوزن آٹھ سومن تھا۔

مواہب لدنیہ میں مروی ہے کہ حضرت علی المرتضی نے جس باب خیبر کو اکھاڑا تھا اسے ستر آدمی انتہائی مشقت اور کوشش کے باوجود ہلاتک نہ سکے ابن اسحاق کی روایت میں سات آدمی مذکور ہیں اور حاکم بیہقی نے لیث بن ابی سلیم سے وہ ابو جعفر محمد بن علی بن حسین سے وہ جابر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی نے جس در خیبر کو اکھاڑ کر اٹھالیا تھا اس کے بعد جب اس پر تجربہ کیا گیا تو اسے چالیس آدمی بھی نہ اٹھا سکے اور کہا کہ لیث روایت میں ضعیف ہے۔

بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی المرتضی جب قلعہ پر پہنچے تو آپ نے ایک دروازہ اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا اس کے بعد جب ہم سے لوگوں نے چاہا کہ اسے اٹھا کر اپنی جگہ نصب کر دیں تو اسے چالیس آدمی بھی نہ اٹھا سکے اور کہا کہ ہمارے شیخ نے فرمایا کہ یہ تمام روایتیں واہی اور لغو ہیں اور بعض علماء نے ان روایتوں کو منکر قرار دیا ہے ۔ (انتہی کلام المواہب )

صحیح بخاری میں فتح امیر المومنین کی حدیث مذکور ہے اس میں باب خیبر اکھاڑنے کا ذکر نہیں ہے لیکن مشہور ہے اور کتب احادیث میں مذکور و مسطور ہے ۔ جب قموص کے قلعہ والوں نے اور خیبر کے تمام قلعے والوں نے حضرت علی کی اس قوت و قدرت کا مشاہدہ کیا تو وہ سب فریاد کرنے لگے ” الامان الامان” اس کے بعد حضرت علی المرتضی نے حضور اکرم کے اشارہ سے ان کو اس شرط پر امان دی کہ ہر آدمی اونٹ پر کھانا لاد کر ان شہروں سے نکل جائے اور نقد اور تمام سازو سامان اور اسلحہ مسلمانوں کے لئے چھوڑ دیں کسی چیز کو چھپا کر نہ رکھیں اور اگر کوئی ایسا مال بر آمد ہو جسے بتایا نہیں گیا ہے تو امان بھی ان کے عہد و پیمان کی مانند مسلوب وختم ہو جائے گی۔

حضور اکرم کے حضور میں جب فتح کی خبر پہنچی تو اس نعمت کا شکر ادا فرمایا کیوں کہ یہ سبب ظہور عبرت اسلام تھا جب حضرت علی المرتضی کفار کی مہم کو طے کرنے کے بعد بارگاہ رسالت میں آنے لگے تو حضور انور حضرت علی المرضى کے استقبال کے لئے خیمہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور ان کو آغوش میں لے لیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا:

بَلَغَنِي تَنَاءُ كَ الْمَشْكُورُ وَضِيْعَكَ الْمَذْكُورُ قَدرَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَرَضِيتُ أَنا عَنْكَ –
مجھے تمہاری مشکورانہ تعریفیں پہنچیں اور تمہاری بہادریاں بیان ہوئیں۔بیشک اللہ ان سے راضی ہوا اور میں تم سے راضی ہوا ۔

اس کے بعد حضرت علی رونے لگے حضور نے فرمایا ” یہ رونا خوشی کا ہے یا غم کا ” علی مرتضیٰ نے عرض کیا نہیں یہ گر یہ خوشی کا ہے میں کیوں نہ اس پر خوش ہوں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں

حضور  نے فرمایا “ میں ہی تنہا تم سے راضی نہیں بلکہ خدا ، جبریل میکائیل اور تمام فرشتے تم سے راضی ہیں “

ارباب سیر بیان کرتے ہیں کہ قلعہ قموص سے جس کا حاکم کنانہ بن ابی الحقیق تھا سو زرہیں ، چار سو تلواریں، ہزار نیزے اور پانچ سوکمانیں حاصل ہوئیں اور بے شمار ساز و سامان بکثرت ہاتھ آیا اور سب کو جمع کیا گیا۔

اہل سیر کہتے ہیں کہ کنانہ بن ابی الحقیق کو جو خیبر کے رئیسوں میں سے تھا حضور کے سامنے لائے اس نے پہلے تو بکری کے بچہ کی کھال میں سونا ، زیور، موتیوں کے ہار اور جواہرات بھرا جب اس کی ثروت زیادہ ہوگئی تو گوسفند کی کھال میں بھر لیا پھر جب اور زیادہ ہوئی تو اس کو گائے کی کھال میں بھرا ۔ پھر جب اس میں بھی نہ سما سکا تو اونٹ کی کھال میں بھر لیا جب مکہ والوں کو شادی وغیرہ میں پریشانی اور ضرورت ہوتی تو گروی رکھ کے اس سے زیور و جواہرات جس قدر ضرورت ہوتی ناریتہ لے لیتے۔

حضور  نے کنانہ سے دریافت کیا ” ابی الحقیق کا خزانہ کہاں ہے ” اس نے کہا ” اے ابو القاسم اس کو تو جنگی سامان کی فراہمی اور دیگر ضرورتوں میں ہم خرچ کر چکے اب اس میں سے کچھ باقی نہیں ہے اور قسم کھائی” حضور نے تہدید فرمائی اگر اس کے بعد اس کے خلاف ظاہر ہوا تو تمہارا خون مباح ہو گا اور امان سے نکل جاؤ گے؟ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت علی المرتضی کو اور یہود کی ایک جماعت کو اس پر گواہ بنا لیا حالانکہ جس زمانہ میں قلعہ نطاۃ فتح ہوا تھا اس مال کو اس نے ایک ویرانہ میں مدفون کردیا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کی خبر دیدی۔

پھر حضور  نے کنانہ کو طلب فرمایا اور فرمایا آسمانی خبر کے حکم سے تو جھوٹا نکل آیا ہے اس کے بعد سید رسول نے حضرت زبیر بن عوام کو مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ اس ویرانہ میں بھیجا یہاں تک کہ کھود کر اس مال کو وہاں سے نکال لائے جب یہودیوں کی غداری ظاہر ہو گئی تو اس شرط وعہد کی رو سے جو انہوں نے کیا تھا ان سے امان الله گئی۔ اس کے بعد حضور نے کنانہ کو محمد بن مسلمہ کے سپرد کر دیا تا کہ وہ اسے اپنے بھائی محمود بن مسلمہ کے عوض قتل کر دیں حضور نےامیر المومنین علی المرتضی کو جنگ قموص کی جانب بھیجتے وقت محمد بن مسلمہ سے فرمایا تھا کہ تمہیں بشارت ہو کہ کل تم اپنے بھائی کے قاتل کو قتل کرو گے بالآخر خیبر کے یہودیوں پر احسان کیا اور ان کے خون سے در گزر فرمایا۔

ان کی عورتوں کو قید کیا اور ان کے اموال کو غنیمت بنایا۔ اور حکم دیا کہ تمام غنیمتوں کو سازو سامان، کھانے وغیرہ کی اشیاء اسلحہ اور تمام مویشیوں کو قلعہ نظاۃ میں جمع کریں اور منادی کرائی کہ اگر ایک رسی یا سوئی بھی چھپاؤ گے تو غنیمت میں خیانت متصور ہو گی جو موجب عارو عیب اور آتش دوزخ ہے اہل سیر کہتے ہیں کہ ایک حبشی غلام تھا جس کے سپر د حضورکا سفری ساز و سامان تھا ۔ اور ” کرکرہ ” اس کا نام تھا انہیں دنوں وہ مر گیا۔ حضور نے فرمایا وہ جہنم میں ہے۔

صحابہ نے جستجو کی تو اس کے سامان میں سے ایک ریشمی چادر ملی جسے اس نے تقسیم غنیمت سے پہلے قبضہ میں لے لیا تھا نیز مروی ہے کہ خیر کے دن ایک شخص مرگیا صحابہ نے حضور سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے عرض کیا فرمایا اپنے ساتھی کی نماز تم پڑھ لو میں نہیں پڑھوں گا۔ اس پر لوگوں کے چہرے فق ہو گئے فرمایا ” تمہارے اس ساتھی نے غنیمت میں خیانت کی ہے اس کے بعد اس کے سامان کی تلاشی لی گئی تو یہود کے مہروں میں سے چند مہرے نکلے جن کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہ تھی۔

نیز بخاری ومسلم کی حدیث میں مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور کی خدمت میں ایک غلام کو بھیجا جس کا نام مدعم تھا اس اثنا میں کہ وہ اپنا بوجھ اتار رہا تھا ایک تیر ا سے آکر لگا جس کا پھینکنے والا معلوم نہ ہوا پھر وہ اسی زخم سے مرگیا لوگوں نے کہا یہ تحقیق جنت ہو گیا کیوں کہ اس نے حضور کی خدمت گذاری میں شہادت پائی ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا ہر گز نہیں ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس نے روز غیر تقسیم غنیمت سے پہلے ایک چادر لے لی ہے۔ اب اس پر آتش دوزخ لپیٹ ماررہی ہے جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص ڈول کی ایک رسی اور دوسرا شخص ڈول کی دورسیاں لایا۔ اس پر حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا یہ ایک رسی یا دو رسی آگ کی ہے۔ اس باب میں وعیدیں بہت کثرت سے میں لیکن فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ کھانے پینے اور پھل کی قسم میں سے اگر کھا لے تو جائز ہے۔ اور اگر گائے یا اونٹ ذبح کر کے کھالے تب بھی جائز ہے۔

جب تمام مال غنیمت جمع ہو گیا تو پانچواں حصہ نکال کر پیادہ کو ایک حصہ اور گھوڑے کو دو حصہ کے اعتبار سے تقسیم فرمایا گویا ہر وہ شخص جو گھوڑا رکھتا تھا اسے تین حصے ملے۔ اسی طرح نافع نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے۔

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی چیک کریں
Close
Back to top button