Trees

معجزاتي درخت سوہانجنا جو کہ 300 بيماريوں کا علاج ہے

سہانجنا یا سوانجھڙو
بیاسی سال کی عمر میں فٹنس چاہتے ہیں تو یہ چند پتے کھالیجئے
اس وقت شاہ صاحب نے اس درخت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس درخت کے خشک پتے ہماری خوراک ہوتی تھی۔ ہم صبح ہتھیلی بھر کر پانی کے ساتھ یہ کھا لیتے تھے اور پھر دن بھر کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی کمزوری ہوتی۔ یہ ہم سادھوئوں کی خوراک تھی

میں ایک دن انٹرنیٹ پر نئی تحقیق کی فائلیں چھان رہا تھا کہ میری نظر ایک فائل پر پڑی ایک معجزاتی درخت میں فوراً اس کی طرف لپکا اور اسے پڑھنا شروع کیا، کہ یہ معجزاتی درخت تین سو بیماریوں کا کام علاج ہے جو کسی نہ کسی غذائی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس درخت کے خشک پتے پچاس گرام طاقت میں برابر ہیں۔ 4گلاس دودھ، 8مالٹے، 8 کیلے، 2پالک کی گڈیاں، ۲کپ دہی،18 ایمائنو ایسڈز، 36 وٹامن او 96اینٹی اوکسیڈینٹ ‘ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا کہ یہ پودا کتنا طاقتور ہے، سبحان اللہ، وٹامن اے گاجر میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں چار گناہ زیادہ ہے۔ فولاد پالک میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں چار گناہ زیادہ ہے۔ پوٹاشیم کیلے میں بہت زیادہ ہے مگر اس میںتین گنا زیادہ ہے۔ وٹامن سی مالٹے میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں سات گنا زیادہ ہے اسی طرح ان افادیت کی ایک لمبی فہرست ہے، جب اتنے فوائد پڑھ چکا تو درخت کی شناخت کی فکر پیدا ہوئی۔ بالکل سمجھ نہ آئے کہ کون سا پودا ہے، گرم ماحول اور ریتلی زمین میں آسانی سے کاشت ہوتا ہے۔ میں پہلے تو یہی سمجھا کہ یہ درخت اسی امریکن خطے کا کوئی پودا ہے آن لائن سرچ میں اس کے بیج دیکھے جودس ڈالر کےصرف بیس بیج تھے۔ سوچا پاکستان لے چلوں اور اپنے ملک میں اس نادر پودے کو لگائو، اگلی رات یہ میرے ذہن پر ایک نقش کی طرح سوار رہا۔

میں نے صبح دوبارہ اس کا نام جاننے کی کوشش کی تو گوگل پر ایک لمبی لسٹ آئی اس میں اس درخت کا نام پڑھ کر جھٹکا سا لگا کہ یہ درخت اتنی اہمیت کا ہے، گائوں کے لوگ اس کی پھلیوں کا اچار ڈالتے رہے اور پرانے لوگ نظر تیز کرنے کیلئے سرمہ میں اس کا جوس ڈالتے تھے، اندھراتا (شب کوری) میں مستند سمجھا جاتا تھا۔ کاش وہ لوگ اس وٹامن اے کے خزانے کے راز سے واقف ہوتے، میں نے پہلی بار یہ درخت چالیس سال قبل ایک درویش سید میراں شاہ مرحوم کے باغ میں دیکھا، انہوں نے اس کا تعارف کچھ اس طرح کروایا کہ آئو آپ کو آج اپنے باغ کی سیر کروائوں‘ وہ مختلف پودوں پر سیر حاصل بات کرتے ہوئے جب اس درخت کے قریب پہنچے تو فرمانے لگے میری عمر سو سال کے لگ بھگ ہے میں نے جوانی سادھو کے بھیس میں کئی ملکوں کا سفر کیا، ہم لوگ برما، انڈونیشیا، ملائیشیا میں پیدل پھرے، چونکہ اس لمبے سفر میں اپنے ساتھ زیادہ خورددنوش کا سامان نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت شاہ صاحب نے اس درخت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس درخت کے خشک پتے ہماری خوراک ہوتی تھی۔ ہم صبح ہتھیلی بھر کر پانی کے ساتھ یہ کھا لیتے تھے اور پھر دن بھر کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی کمزوری ہوتی۔ یہ ہم سادھوئوں کی خوراک تھی۔ میں نے دل ہی دل میں اسے اتنی اہمیت نہ دی، اور آگے بڑھ گئے، اب کئی برس کے بعد میں پاکستان پہنچا تو خصوصی طور پر شاہ کے باغ میں گیا اور اس عظیم پودے کو دوبارہ دیکھا اور اپنی نادانی پر خفت ہوئی۔
دوستو! اب میرا یہ ماننا ہے کہ جس صحن میں یہ درخت نہیں وہ گھر صحت مندنہیں۔ میں نے  2010میں پہلی بار یہ دوا اپنے دوست احسان صاحب کو ان کی والدہ کی بیماری پر تجویز کی، احسان صاحب کہنے لگے والدہ کی عمر 82سال ہے اور ان کے جسم میں بہت کمزوری آچکی ہے اب کھڑا ہونا ہی مشکل ہورہا ہے۔ میں نے تفصیل سے انہیں اس پودے کا بتایا کیونکہ وہ بانٹی میں ڈگری ہولڈر ہیں۔ انہوں نے اس کی تفصیل پڑھی اور والدہ کو استعمال کروائی ایک دن احسان صاحب نے بتایا کہ والدہ بالکل ٹھیک ہیں صحت اتنی بہتر ہوئی کہ انہوں نےرمضان کے روزے بھی رکھے پھر اس دوا سے اپنے خاندان کے21 آدمیوں کی شوگر کنٹرول کرکے صحتمند ڈگر پر لے آئے۔ لاہور میں ایک حکیم صاحب کو بتانے کی دیر تھی انہوں نے تین سو گرام سوہانجنا پائوڈر کے 6 ہزار روپے ذیابیطس کے علاج کے لینے شروع کردیئے، حالانکہ بہاولپور کے علاقہ میں یہ خودرو جنگل کے طور پر ہیں، اب فیصل آباد زرعی یونیورسٹی اس کا لٹریچر عوام میں تقسیم کررہی ہے، اور فری بیج بھی دیئے جارہے ہیں‘ آن لائن بھی اس کا لنک موجود ہے بہرحال میں نے یہاں امریکہ میں ۲۵ ڈالر میں ایک پائونڈ پائوڈر خریدا ہے۔ اس کے خشک پتوں کا قہوہ پریشانیوں اور دبائو میں سکون بخشتا ہے اور بھرپور نیند لاتا ہے، قبض کے مریضوں کے لئے آب حیات ہے، خون کی کمی کی وجہ سے چہرے کی چھائیوں کو بھگانے میں تیر بہدف ہے، کسی بھی طرح کی کمزوری کا واحد حل ہے، حاملہ عورتوں اور بچوں کو بھی استعمال کروایا جاسکتا ہے، افریقہ کے قحط کے دوران ایک چرچ نے یہ پودے غذائی کمی کے شکار لوگوں میں تقسیم کئے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا اس کی گرویدہ ہوگئی آئیے آج ہی سوہانجنا کا پودا گھر میں لگا کر صحتمند زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ پودا ۳۰۰ بیماریوں کا علاج جو غذا کی کمی کے باعث کسی نہ کسی روپ میں ابھرتی ہیں۔ اب اس طاقت کے خزانے کا راز اب تک پہنچ چکا ہے جسے تمام عمر استعمال میں لانا اور اگلی نسل کو منتقل کرنا ہے۔
نوٹ۔ یہ دوا بطور غذا گھروں میں رواج دیں اور صحتمند نسلوں کے مربی بنیں غیر فطری علاج اسٹیرائیڈ آرٹی فیشل وٹامنز کی رنگ برنگی دوائیوں کی بجائے قدرت کے اس خزانے سے فائدہ اٹھائیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے انسان کے لیے صحت کے ایک خزانے کی شکل میں پیدا کیا ہے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button