شورِ مِہ نَوسن کر تجھ تک میں دَواں آیا
شورِ مِہ نَوسن کر تجھ تک میں دَواں آیا
ساقی میں ترے صدقے میں دے رمضان آیا
اس گل کے سوا ہر پھول با گو ش گراں آیا
دیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا
جب بامِ تجَلی پر وہ نیّر ِ جاں آیا
سرتھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا
جنّت کو حَرم سمجھا آتے تو یہاں آیا
اب تک کے ہر اک کا منھ کہتا ہوں کہاں آیا
طیبہ کے سوا سب باغ پا مالِ فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو! جب عہدِ خزاں آیا
سراور وہ سنگِ در آنکھ اور وہ بزمِ نور
ظالم کو وطن کا دھیان آیا تو کہاں آیا
کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالا ہے
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا
جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوٗپ کڑی کیسی
لو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا
طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والو
کیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا
لے طوقِ الم سے اَب آزاد ہو اے قمری
چٹھی لیے بخشش کی وہ سرو رواں آیا
ناماں سے رضا کے اب مٹ جاؤ بُرے کامو
دیکھو مِرے پلّہ پر وہ اچھے میاں آیا
بدکار رضا خوش ہو ید کا م بھلے ہوں گے
وہ اچھے میاں پیارا اچھوں کا میاں آیا