نعتیں

تمہارے ذرّے کے پر تو ستارے ہائے فلک

تمہارے ذرّے کے پر تو ستارے ہائے فلک
تمہارے فعل کی ناقِص مثل ضیا ئے فلک

اگر چہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں
مگر تمہاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک

سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدا ئے بلندی تھی انتہائے فلک

یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُنکی روِش
کہ نقشِ پاہے زمیں پر نہ صوتِ پائے فلک

تمہاری یاد میں گزر ی تھی جاگتے شب بھر
چلی نسیم ہوئے بند دید ہائے فلک

نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند
چلا یہ نرم نہ نِکلی صَدائے پائے فلک

یہ اُن کے جلوہ نے کیں گرمیاں شبِ اسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک

مرے غنی نے جو اہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک

رہا جو قانِع یک نانِ سوختہ دن بھر
ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک

تجمل ِ شب اسرا ابھی سمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتل میں سبز ہائے فلک

خطاب ِ حق بھی ہے در بابِ خلق مِنْ اَجَلکْ
اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک

یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے
رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک

رضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں
لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک

ملتے جُلتے مضمون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی چیک کریں
Close
Back to top button