تمھارے ذرے کے پرتو ستار ہائے فلک
تمھارے ذرّے کے پرتو ستارہائے فلک
تمھارے نعل کی ناقص مثل ضیائے فلک
اگرچہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں
مگر تمھاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک
سرِ فلک نہ کبھی تا بہ آستاں پہنچا
کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک
یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُن کی رَوِش
کہ نقش پا ہے زمیں پر نہ صوتِ پائے فلک
تمھاری یاد میں گزری تھی جاگتے شب بھر
چلی نسیم ہوئے بند دیدہائے فلک
نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند
چلا یہ نرم نہ نکلی صدائے پائے فلک
یہ اُن کے جلوے نے کیں گرمیاں شبِ اسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک
مِرے غنی نے جواہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک
رہا جو قانعِ یک نانِ سوختہ دن بھر
ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک
تجملِ شبِ اسرا ابھی سمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتل ہیں سبز ہائے فلک
خطابِ حق بھی ہے در بابِ خلق مِنْ اَجَلِکْ
اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک
یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے
رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک
رؔضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں
لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان