شاہِ کونین کی ہر ادا نور ہے
شاہِ کونین کی ہر ادا نور ہے
انکی سیرت کاہر زاوِیہ نور ہے
ذاتِ سرکار، نورٌعلٰی نور ہے
ابتدا نور ہے ، انتہا نور ہے
نور نے، جسکو بھی کہدیا نور ہے
وہ بھی اک آن میں بن گیا نور ہے
نور سے ہر کوئ مانگتا نور ہے
نور والا نبی ، بانٹتا نورہے
دہر میں جسکو جتنا ملا نور ہے
وہ سبھی میرے سرکار کا نور ہے
بڑھ رہی ہے سدا عظمتِ مصطفیٰ
ہرگھڑی، ہرپَہَر ، اک نیا نور ہے
لمحہ لمحہ منور ہے سرکار کا
ہر حکايت، ہر اک واقعہ نور ہے
روشنی بخش دیتےہیں لکڑی کو بھی
نور والے نبی کی عطا نور ہے
آقامعراج کو،جس طرف سے گئے
آج بھی سارا، وہ راستہ نور ہے
کیسامنظر نبی کی امامت کا ہے
مقتدی نور ہیں مُقتدا نور ہے
بھیج کر رب نےفرمایا “قد جاءکم”
میرےبَندو سنو ! آگیا نور ہے
دیکھ لو، نور کے مُنکِرو دیکھ لو
رب نے خود مصطفیٰ کو کہا نور ہے
جشنِ میلادکی، ہے الگ ہی جھلک
دیکھئے کس قدر خوشنما نور ہے
ہم سمجھ پائیں کیا انکی نورانیت
جتناسمجھیں گےاُس سے سوا نور ہے
اسلئےجسم اطہر کا سایہ نہیں
سربسر پیکرِ مصطفیٰ نور ہے
جسکو چاہیں نبی وہ چمکنے لگے
مصطفیٰ کے کرم کا صلہ نور ہے
انکی نسبت سےذرےبھی چمکیں نہ کیوں
نورسے، خاک کا رابطہ نور ہے
آج بھی جگمگاتے ہیں نقش قدم
میرے سرکار کی خاکِ پا نور ہے
جس نے الفت سے دیکھا صحابی بنا
چہرۂ نور کا دیکھنا نور ہے
مصطفیٰ جان رحمت نے فرمادیا
میرے اصحاب کا قافلہ نور ہے
بزم سادات چمکےگی اب حشر تک
نسل در نسل یہ سلسلہ نور ہے
نور والوں کےپہنچےوہاں پر قدم
اب قیامت تلک کربلا نور ہے
دشمنی کےاندھیرے ڈرائیں گے کیا
ہم مسلمانوں کا رہنما نور ہے
نوریوں کےعدو خود ہی مٹ جائیں گے
کب اندھیروں سے آخر مٹا نور ہے
جسکو اپنا کے، روشن ہیں انکے گدا
تاابد سنتِ مصطفیٰ نور ہے
انکی مدحت ہے دارین کی روشنی
میرے سرکار کا تذکرہ نور ہے
ملتی ہے ان پہ مر کے نئ زندگی
یعنی عشقِ نبی میں قضا نور ہے
ورد کرتا ہوں جب جب میں صلِ علٰی
ایسا لگتا ہے ساری فضا نور ہے
آپ روٹھیں تو سب کچھ ہو میرا سیاہ
مان جائیں تو سب کچھ مرا نور ہے
یا نبی کہہ کے انکو بلاتا ہوں میں
میرا ایمان ہے ، یہ صدا نور ہے
نور کے ذکر میں اور کیا کیا لکھوں
ہر عمل میرے سرکار کا نور ہے
جوہرِ فن ، فریدی کا چمکے نہ کیوں
مدحت و نعت کا مشغلہ نور ہے