ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
رتبہ میرے آقا کا بڑا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
جبرائیل کو درباں کا شرف کس نے ہے بخشا
اور کعبہ کو قبلے کا شرف کس نے ہے بخشا
طیبہ کو فضیلت کا شرف کس نے ہے بخشا
امت کو شہادت کا شرف کس نے ہے بخشا
یہ سب میرے آقا نے دیا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
سورج کو تمازت کا فخر کس نے دیا ہے
اور چاند کو چاندی کا سحر کس نے دیا ہے
کوئی بھی حسیں میرے نبی جیسا نہیں ہے
صدیق کو یہ حسنِ نظر کس نے دیا ہے
ہر ایک کو فیض ان سے ملا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
پھولوں کو جو خوشبو ہے ملی کیسے ملی ہے
اثمار کو لذت جو ملی کیسے ملی ہے
پھل پھول شجر کانٹے ثنا خوان ہیں کس کے
پتھر کو جو گویائی ملی کیسے ملی ہے
ذاکر میرے آقا کا خدا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
افلاک کی چادر ہے تنی کس کے سبب سے
تاروں کی ہے بارات سجی کس کے سبب سے
بستر کی طرح ارض بچھی کس کے سبب سے
آدم کو خلافت ہے ملی کس کے سبب سے
ہر کام میں انہی کی رضا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
پھولوں کو یوں رنگین قباؤں میں سجا کے
پتھر سے تراشیدہ پہاڑوں کو بنا کے
اور عرشِ بریں پر میرے آقا کو بٹھا کے
ذات اپنی پہ چھایا ہوا ہر پردہ ہٹا کے
خود رب نے درود ان پہ پڑھا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
جنت جو بسے گی تو بھلا کس کی رضا سے
دوزخ جو بجھے گی تو بھلا کس کی رضا سے
میزان سجے گی تو بھلا کس کی رضا سے
اور ارض پھٹے گی تو بھلا کس کی رضا سے
ہر چیز کا مختار بنا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے
افلاک پہ پاکیزہ سا دربار سجا کے
تکریم سے محبوب سجادے پہ بٹھا کے
اور عالمِ ارواح سے نبیوں کو بلا کے
تعظیمِ محؐمد کا عہد سب سے کرا کے
میلادِ نبی رب نے کیا ہے کہ نہیں ہے
ہر ایک اسی در کا گدا ہے کہ نہیں ہے